Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

محنت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں, کامیاب لوگوں کی کہانی

محنت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ ہاتھ ہلائے بغیر توانسان پانی بھی نہیں پی سکتا۔ ہم آئے روز دوسروں کی کامیابیوں کے قصے کہانیاں سنتے ہیں ،ان پر رشک کرتے ہیں۔ لیکن ان سے سیکھنے ، ان جیسی محنت کرنے کی بجائے راتوں رات بڑا آدمی بننے کی فکر میں رہتے ہیں۔ دنیا میں کچھ بھی ممکن نہیں، انسان محنت کرے تو کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے، کامیاب لوگوں کی لغت میں خاص طور پر میں ناکامی کالفظ ہی نہیں ہوتا۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ’’ناکامی ایک ایسا لفظ ہے جس سے میں واقف نہیں‘‘ ۔ انہوں نے جو چاہا وہ حاصل کیا۔ ایسے ہی ہزارہا افراد نے اپنی محنت سے اپنی زندگیاں بدل ڈالیں۔ بہت سوں کو اپنی دلچسپیاں قربان کرنا پڑیں ۔ اسی لئے وہ آج نمایاں پوزیشنوں پر ہیں۔

 گرانٹ کارڈون 2008ء میں غریب آدمی تھے ۔ زندگی سے بیزار، الجھنوں میں پھنسا ہوا ۔ گالف کا شوق تھا، ہفتے میں تین دفعہ گالف کورٹ میں پائے جاتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے! وہ گالف کھیل رہے ہیں اور گالف ان کی زندگی سے کھیل رہا ہے۔ گالف کا کھیل ہی ان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ نکلا۔ مالی حالت میں بہتری کے لئے انہوں نے پسندیدہ کھیل کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ رئیل سٹیٹ سے منسلک گرانٹ کارڈون نے گالف کو خیر باد کہا اور چند سالوں میں پچاس کروڑ ڈالر یعنی پچپن ارب روپے کا مالک بن گیا ۔ اس وقت ان کا شمار سوشل میڈیا کی مقبول شخصیات میں ہوتا ہے۔ ان کی بائیو گرافی ’’پرجوش ہو جائیے یا اوسط درجے پررہیے ‘‘ کا شمار مقبول کتابوں میں ہوتا ہے۔ 

باربرا کوکوران ، کوکوران گروپ کی مالکہ ہیں، اور بھی کئی بزنسز ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا ۔ سود اٹھارہ فیصد تھا، ادائیگی کے لئے پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو لاکھوں ڈالر کہاں سے دیتیں۔ دن بھر پسینہ چھوٹتا رہتا ۔ دماغ مائوف رہتا، بدحواسی چہرے پر عیاں تھی۔ ان کا تعلق رئیل اسٹیٹ سے تھا۔ پراپرٹی کی مہنگائی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ باربرا نے ہمت نہ ہاری ۔ کنڈونی نیم نامی ایک کمپنی جوائن کی ۔ باس مہربان تھا، بلکہ باس لگتا ہی نہ تھا۔ پھر اس نے پارٹنر کپلان کو پارٹنر بنا کر اپنا بزنس شروع کیا۔ ایک نئے گروپ کی بنیاد ڈالی۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کا بزنس چل نکلا۔ اب وہ کئی ارب روپے کی مالکہ ہیں۔ 

گیری وینر چک سات سو ملازمین پر مشتمل کمپنی کے مالک ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ اپنا بہت زیادہ وقت اپنے گھر میں گزارتے تھے ۔ لیکن زندگی میں پیسہ اور نام بنانے کی خاطر گیری نے 18 ,18 گھنٹے کام کیا پھر کہیں یہ سب کچھ ملا۔ 

یولی زیف، سیلف ہیلپ کی بیسٹ سیلر کتاب ’’پہلی صف میں آنے کا راستہ‘‘ کی مصنفہ ہیں۔ انہوں نے چھوٹے سے کاروبار کوایک بڑے بزنس میں تبدیل کیا۔ کچھ ڈالر ان کا واحد اثاثہ تھے۔ گھریلو مشکلات اور مصائب میں گھری ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ تمام پیسے خرچ ہو گئے۔ تب انہوں نے ایک کمپنی سے معاہدہ کیا ،دن رات محنت کر کے اربوں روپے کمائے۔ 

جان ہنا کوکچھ حاصل کرنے کیلئے اپنے خاندان سے الگ رہنا پڑا۔ اس کا بیٹا آج بھی اس سے لڑتا ہے کہ وہ ایک سال تک اپنے بیٹے سے دور کیوں رہا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کراپنی ماں کے گھر منتقل ہو گیا۔ دوسری شادی کے لیے نہیں بلکہ اپنے خاندان کی بہتر زندگی کی خاطر اس نے اکیلے رہ کرکچھ بننا پسند کیا۔ آج اس کا بیٹا پچیس سال کا ہے اسے ہر چیز میسر ہے ،کوئی شکایت نہیں ہے  باپ نے اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔ اسے بس ایک سال باپ کی شفقت سے محرومی کی شکایت ہے ۔ وہ اب ایک کمپنی کے مالک ہیں۔ انہوں نے ’’وے آف دی ویلتھی‘‘ یعنی امیروں کاراستہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ 

بزنس مین پیکا کس کینن نے ایک بڑی کمپنی کی بنیاد رکھی اور اس وقت اربوں روپے کے مالک ہیں۔ وہ بھی زمانہ تھا جب انہیں زندگی گزارنے کے لیے چادر کے اندر پائوں پھیلانا پڑتے۔ گریجوایشن کرنے کے بعد جیبیں خالی تھیں۔ یونیورسٹی میں ریسرچر کی نوکری ملی لیکن آدھی تنخواہ سابقہ آجر لی لیتا تھا ۔ لہٰذا اسے ایک اور نوکری کرنا پڑی ۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ وہ تنگ آ گیا۔ اسی لئے اپنا کاروبار شروع کیا، اب وہ کروڑوں ڈالر کا مالک ہے۔ 

نفیسے نینا،ایک فرم کی بانی اور مینجنگ اٹارنی ہیں۔ اسے تکلیف دہ زندگی سے جان چھڑانے کے لیے کچھ عرصہ اہل خانہ ، دوستوں اور تمام تعلق داروں سے دور رہنا پڑا۔ یہ بڑا ہی تکلیف دہ تجربہ تھا۔ دل ٹوٹ گیا مگر ہمت نہ ہاری۔ آخر کار کامیابی ملی۔ یہ غریب بچی آج ایک کمپنی کی مالکہ ہے۔

گیری نی لان کا شمار اپنی ہمت سے اپنی دنیا آپ بنانے والوں میں ہوتا ہے۔ وہ بھی وقت تھا جب اس نے پہلے بزنس کو برباد ہوتے دیکھا۔ اور وہ کمپنی کو دیوالیہ قرار دلوانے کے لیے فائل کے ساتھ سرکاری دفتر میں کھڑا تھا۔ دراصل اس نے پہلے سے جاری بزنس خرید کر غلطی کی تھی۔ جس کا انجام ناکامی کی صورت میں نکلنا تھا۔ نتیجتاًاس کے اکائونٹس خالی ہو گئے ۔ تب جا کر اسے صحیح سمت میں قدم اٹھانا سکھایا ۔ اس نے اپنی نیند قربان کر دی ۔ نہ دن کا پتہ نہ رات ہوش۔ صرف کاروباری کی دھن سوار تھی۔ یہ پانچ سال چینلجنگ تو تھے مگر اسی لئے پانچ سال بعد وہ ایک گروپ کا مالک ہے۔ 

ٹام شی کا شمار اپنی زندگی آپ بنانے والوں میں ہوتا ہے۔ اس کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ حتی کہ اپنا مکان کرائے پر دے کر خود اپنے داماد کے مکان کی بیسمنٹ میں منتقل ہو گیا۔ کرائے کا دس فیصد حصے اپنے اوپرخرچ کیا، باقی نوے فیصد کاروبار میں لگا دئیے ۔ اللہ نے برکت دی اور پانچ سال کے عرصے میں اس نے گرین چیک کے نام سے ذاتی کمپنی بنا لی۔ 

جیو کا کاتے کا شمار محنتی لوگوں میں ہوتا ہے۔ سماجی کاموں سے اسے بہت لگائو ہے۔ ’’لیو کیمیا سوسائٹی‘‘ نے جیسے ہی اس سے علاج کے لیے فنڈ ریزنگ کی اپیل کی تو وہ متحرک ہو گیا۔ دس ہفتوں تک سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر  سرطان کے مریضوں کی بہبود پر لگا رہا۔ کینسر تو ہر جگہ ہے، ہر ایک کو متاثر کر رہا ہے، کسی کو بیمار ی کی صورت میں، کسی کو تیمار دار کی صورت میں، کسی کو ڈاکٹر اور کسی کومریض کی صورت میں۔ اسکے دادا جان شامی امیگرینٹ تھے، وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے’’ سب سے پہلے اپنا خاندان‘‘۔ اس نے مریضوں کے لئے سب سے پہلے ا پنے خاندان سے چندہ مانگا ۔ وہ جانتا ہے کہ یہی کچھ کل اس کے کام آئے گا۔ اس نے میوزک ویڈیو لانچ کی، تھوڑے ہی عرصے میں لاکھوں لوگوں نے اسے دیکھا۔ اس کام سے اسے ذہنی سکون بھی ملا اور کاروبار بھی چمکا۔

صہیب مرغوب

 

Post a Comment

0 Comments