Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پانامہ لیکس کا ممکنہ فیصلہ اور اثرات

پانامہ لیکس کا مقدمہ کئی حوالوں سے تاریخی اور منفرد مقدمہ ہے جس کی مثال گزشتہ کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم آئی سی آئی جے نے دنیا بھر کے لاکھوں امیر ترین خاندانوں اور افراد کے پوشیدہ اثاثوں کا انکشاف کیا۔ ان خاندانوں میں پاکستان کا حکمران شریف خاندان بھی شامل ہے جس نے تسلیم کیا کہ لندن کے فلیٹس انکی ملکیت ہیں۔ پانامہ لیکس کی روشنی میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے پانچ محترم باوقار، نیک نام اور سینئر ترین جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے شریف خاندان کی تین نسلوں کے اثاثوں کا جائزہ لینے کیلئے طویل، صبر آزما اور شفاف سماعت کی جس کے دوران فریقین کو اپنا مؤقف ثابت کرنے کیلئے پورا موقع دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے بنچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جس کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ کالم لکھنے سے قبل ایک سابق چیف جسٹس پاکستان ، ایک سابق سپیکر قومی اسمبلی چند ریٹائرڈ ججوں اور پاکستان کے پانچ سینئر ماہرین قانون سے مشاورت کی گئی۔ اکثریت کی رائے ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن تشکیل دیگی جو سپریم کورٹ کے ایک یا دو ججوں پر مشتمل ہو گا اور سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی دستاویزات کا ٹرائیل کورٹ کی طرح جائزہ لیکر اور شہادتیں طلب کر کے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کریگا جس کی روشنی میں حتمی فیصلہ سنایا جائیگا۔ اس کمیشن کا بڑا مقصد شریف خاندان کو ایک موقع فراہم کرنا ہے تا کہ وہ منی ٹریل پیش کر کے اپنی صفائی پیش کر سکیں اور ثابت کریں کہ لندن فلیٹس جائز اور قانونی ہیں اور ان کو خریدنے کیلئے منی لانڈرنگ نہیں کی گئی۔
پاکستان کا کوئی ماہر قانون اس امکان کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ پانامہ لیکس کے مقدمے میں وزیراعظم کو کلین چٹ مل جائیگی۔ ایک ماہر قانون کی رائے ہے کہ اگر کمیشن تشکیل دیا گیا تو کمیشن کی تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم کے اختیارات اس حد تک معطل کر دئیے جائینگے کہ وہ تحقیقاتی اداروں پر دبائو نہ ڈال سکیں۔ ایک سینئر بیرسٹر نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا کہ سپریم کورٹ کے بنچ کا فیصلہ شریفانہ نہیں بلکہ جارحانہ ہو گا۔ ایک نامور ریٹائرڈ جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو پانامہ کیس کی سماعت ہی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ پانامہ لیکس کے بعد کسی تھانے میں قومی خزانے کے غبن کی ایف آئی آر درج کرا دی جاتی۔ ماہرین قانون ججوں کے ان ریمارکس کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں کہ فیصلہ تاریخ ساز ہو گا اور بیس سال گزرنے کے بعد بھی اس فیصلے کی اہمیت، انفرادیت، جامعیت، شفافیت اور آئینیت کو تسلیم کیا جائیگا۔ 

ایک دانا اور بینا ماہر قانون کے مطابق پانامہ لیکس کے فیصلے میں قرآنی آیات، احادیث، خلیل جبران اور عالمی شہرت یافتہ ججوں کے فیصلوں کے حوالے شامل ہوں گے۔ میڈیا کیلئے یہ فیصلہ دلچسپ ہو گا اور عوام اسے پڑھ کر لطف اندوز ہونگے۔ اس فیصلے میں ایسی آبزرویشن شامل ہوں گی جن سے پی پی پی اور تحریک انصاف سیاسی فائدہ اُٹھا سکیں گی۔ پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران جو دلیرانہ ریمارکس منظر عام پر آئے انکی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’منیر کورٹ‘‘، ’’ڈوگر کورٹ‘‘، ’’شریف کورٹ‘‘ کا دور ختم ہوا اور عدلیہ اب ’’پاکستان کورٹ‘‘ کے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اقلیت کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے جج طویل سماعت کے بعد فیصلے کے بارے میں ذہن بنا چکے ہیں اور سچ تک پہنچ چکے ہیں۔ شریف خاندان کے متضاد بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں اس لیے فیصلے میں ڈیکلریشن شامل ہو گا۔ الیکشن کمیشن پاکستان کو عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں وزیراعظم پاکستان کیخلاف آئین کے آرٹیکل نمبر 62 کے تحت کاروائی کر کے نااہلی کا فیصلہ کریگا۔

ایک جج نے سماعت کے دوران آبزرویشن دی تھی کہ ’’نیب کی وفات ہو گئی‘‘۔ اس آبزرویشن کی روشنی میں توقع کی جاتی ہے کہ تفصیلی فیصلے میں نیب کی فاتحہ پڑھی جائیگی۔ ایک محترم جج نے بے ساختہ کہا تھا ’’وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا‘‘ اُمید کی جا سکتی ہے کہ فیصلہ متفقہ ہو گا اور سب محترم جج پاکستان، آئین اور ریاست کے چاہنے والے خوش بخت ثابت ہوں گے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ امیر ترین جنگجو سیاستدان ہیں مگر ریاست کے ادارے بشمول عدلیہ چوں کہ مضبوط ہیں اس لیے وہ صدر کے بجائے ثابت قدمی کے ساتھ امریکی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ افسوس پاکستان کے ریاستی اداروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا‘‘۔ پی پی پی کے حامی بے چینی کے ساتھ پانامہ لیکس کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

عدلیہ کی افسوسناک تاریخ کی روشنی میں انکے تحفظات بے جا نہیں ہیں۔ پی پی پی کے بانی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے شکستہ پاکستان کا وقار اور شکست خوردہ فوج کا اعتماد بحال کیا۔ قوم کو مایوسی سے باہر نکالا، اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کر کے عالم اسلام کو متحد کیا۔ قوم کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ عوام کی آزادی اور ملکی سلامتی کیلئے ایٹمی صلاحیت حاصل کی مگر سپریم کورٹ کے ججوں نے ان کا ’’عدالتی قتل‘‘ کر دیا۔ جب میاں نواز شریف پر طیارہ ہائی جیکنگ اور دو سو سے زیادہ مسافروں کو موت سے ہمکنار کرنے کا سنگین الزام تھا انہوں نے شاہراہیں اور موٹرویز کی تعمیر کے علاوہ ملک کی کوئی قابل ذکر خدمت نہ کی تھی مگر امریکہ اور سعودی عرب ان کو وی آئی پی طیارے پر پاکستان سے جدہ پیلس لے گئے اور سپریم کورٹ نے آنکھیں بند رکھیں۔ پانامہ لیکس میں وزیراعظم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں وہ صرف نا اہل ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنا جانشین کو خود نامزد کرینگے اور آصف زرداری کی طرح سیاسی اور حکومتی طاقت انکے ہاتھ میں رہے گی۔ البتہ اگلے انتخابات میں ان کو سیاسی نقصان اُٹھانا پڑیگا۔ وزیراعظم کے زیر احتساب آنے کے بعد احتساب کا بند دروازہ کھل جائیگا اور پاکستان کے بڑے لٹیرے احتساب کے شکنجے میں آ جائینگے جو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے آب حیات ثابت ہو گا۔ مایوس اور بے حس عوام میں حوصلے اور اُمید کی نئی کرن پیدا ہوگی۔

سماعت کے دوران سامنے آنیوالے دلائل اور فاضل جج حضرات کے ریمارکس کے بعد بھی فیصلہ وزیراعظم کے حق میں آنے سے پورے ملک میں مایوسی، نااُمیدی اور بداعتمادی کی لہر پھیل جائے گی جو ریاست کیلئے زہر قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ علیحدگی پسند، پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیاں اور دہشت گرد اس نوعیت کے فیصلے کو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ہتھیار کے طور پر استعمال کرینگے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس دوست محمد خان نے کرپشن کے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کرپشن کی وجہ سے ملکی حالت مویشیوں کے باڑے جیسی ہو چکی ہے۔ ماضی میں جس فرد پر بدعنوانی کا الزام ہوتا اسکے بیٹے اور بیٹی کو کوئی رشتہ نہیں دیتا تھا۔

محترم جسٹس دوست محمد خان ایک کلرک احتشام الحق کی اپیل کی سماعت کر رہے تھے جسے ایک لاکھ 94 ہزار کی کرپشن کرنے کے الزام میں چار سال قید کی سزا ہو چکی تھی جس میں سے وہ دو سال قید کاٹ چکا تھا اور باقی سزا کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ سے التجا کر رہا تھا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے کرپٹ جیلوں میں بند ہیں جبکہ مہا کرپٹ بڑے منصبوں پر فائز ہیں۔ اب شاید عدل و انصاف کا نیا دور شروع ہونیوالا ہے۔ آئین اور قانون سب پر مساوی طور پر نافذ ہو گا اور کرپشن کرنیوالے بڑے لوگ بھی جیلوں میں بند نظر آئینگے۔ کرپشن کا زہر جسد ریاست میں پھیل چکا ہے جسے بچانے کیلئے آئینی اور قانونی آپریشن لازم ہے۔ رد کرپشن آپریشن کے بغیر ردالفساد آپریشن کی کامیابی ممکن نہیں ہو گی۔ 

پانامہ لیکس کی سماعت کے دوران وزیراعظم پاکستان کی اخلاقی ساکھ مجروح ہو چکی۔ فیصلہ آنے کے بعد اس پر شدید ضرب لگے گی اور حکومت مخالف جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کیلئے تحریک چلائیں گی جو دراصل انتخابی مہم کا آغاز ہو گی۔ قومی اتحاد کی پرجوش تحریک کے دوران بھٹو نے ایک اعلیٰ سطحی حکومتی اجلاس میں اپنی عینک غصے کے ساتھ میز پر پھینکتے ہوئے کہا تم لوگوں نے میری اخلاقی ساکھ مجروح کر دی اگر وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو بلا مقابلہ منتخب نہ کرایا جاتا تو قومی اتحاد کی تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی۔ افسوس موجودہ وزیراعظم اخلاقی ساکھ کو اہمیت دینے کیلئے ہی تیار نہیں ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کے ہاتھ میں نئے انتخابات کرانے کا ایک آئینی پتا باقی ہے کیا وہ یہ پتا مناسب وقت پر استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاک فوج اور عدلیہ بہتر کارکردگی کی بناء پر ریاست پر کنٹرول بڑھا چکے ہیں جبکہ پارلیمنٹ اور حکومت بیڈ گورنینس کی وجہ سے اپنی رٹ محدود کربیٹھے ہیں۔

قیوم نظامی
 

Post a Comment

0 Comments