Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

الحمراء کے محلات

الحمراء صرف ایک محل نہیں‘ وہ نہایت وسیع باغات کے درمیان بیرون شہر گویا ایک شاہی اقامت گاہ تھی۔ اس کی تعمیر پر بہت زیادہ دولت خرچ کی گئی۔ تاہم اس کا تعمیری سامان زیادہ مضبوط نہ تھا۔ اپنے عظیم حسن کے باوجود وہ غیر مستحکم تعمیراتی سامان کے ذریعہ بنی ہوئی ایک عمارت کہی جائے گی۔ الحمراء کے محلات اس وقت بنائے گئے جبکہ یہاں کی مسلم حکومت سمٹ کر صرف غرناطہ تک محدد و گئی تھی۔ اس کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ لال قلعہ کے حکمران کی طرح وہ باہر سے مضبوط پتھر بھاری مقدار میں منگا سکے۔ وہ زیادہ مستحکم عمارت کھڑی نہیں کر سکتے تھے‘ اس لیے شاید اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے انہوں نے زیادہ خوبصورت عمارتیں کھڑی کر دیں۔

قصر الحمراء 2200 مربع میٹر کے رقبہ میں واقع ہے۔ اس کے ہر حصہ میں آیتیں‘ حدیثیں‘ دعائیں‘ اشعار اور دوسری عربی عبارتیں لکھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ خاص طور پر بنو الاحمر کا خاندانی اشعار والا غالب الا اللہ اس کے ہر حصہ میں نقش کیا ہوا نظر آتا ہے۔ آخری دور کی سلطنت غرناطہ (1232-1492) کا بانی محمد بن یوسف الاحمر تھا۔ وہ ارجونہ کا قلعدار تھا۔ اس نے بغاوت کر کے غرناطہ پر قبضہ کر لیا اور اپنا لقب الغالب باللہ اختیار کیا۔ اسی سلطنت کے زمانہ میں غرناطہ کا مشہور قصر الحمراء تعمیر ہوا۔ اس خاندان (بنو احمر) کے حکمرانوں نے اسی لفظ کو اپنا اشعار بنا لیا۔ وہ عمارتوں وغیرہ پر کثرت سے ولا غالب الا اللہ لکھا کرتے تھے۔ اقبالؔ 1933ء میں اندلس گئے تھے۔ واپسی کے بعد انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے سفر کے تاثرات بتائے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا : میں الحمراء کے ایوانوں میں جابجا گھومتا پھرا۔ مگر (انسانوں سے خالی اس قصر میں) جدھر نظر اٹھتی دیوار پر ھواالغالب لکھا ہوا نظر آتا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہاں تو ہر طرف خدا غالب ہے۔ کہیں انسان نظر آئے تو بات بھی ہو۔

مولانا وحید الدین

 (سفرنامہ’’ اسپین و فلسطین ‘‘سے ماخوذ)


Post a Comment

0 Comments