Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شور صرف چند گمشدگیوں پر کیوں؟

وطنِ عزیز میں ماورائے عدالت قتل یعنی پولیس مقابلوں کی ابتدا نواز شریف کے
دوسرے دور میں ہوئی، جن میں مارے جانے والے لوگوں کی اکثریت مذہبی کارکنوں کی تھی۔ مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو گرفتار کیا جاتا اور پھر پولیس مقابلوں میں ’افق کے اس پار‘ بھیج دیا جاتا۔ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ جنرل پرویز مشرف کے عہدِ آمریت میں بلوچستان میں تیزی کے ساتھ شروع ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سامنے آئیں مگر معاملہ سلجھ کر نہ دیا اور طول پکڑتا گیا۔ بالآخر جب یہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو عدالت نے سیکیورٹی اداروں کو اس مسئلے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کچھ لوگوں کو بازیاب بھی کروایا گیا۔

پولیس مقابلوں کا سلسلہ مشرف دور میں کسی حد تک جاری رہا۔ پنجاب میں ڈکیتی و قتل و غارت جیسے جرائم میں ملوث افراد کو بھی گزشتہ دورِ حکومت میں ٹارگٹ کیا جاتا رہا۔ نواز شریف کے اس عہدِ اقتدار میں باالخصوص نیشنل ایکشن پلان کے بعد ایک بار پھر جبری گمشدگیوں اور پولیس مقابلوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ شاید 'سی ٹی ڈی' کاواحد مقصد ہی یہی ہے اور پالیسی بھی، کہ وہ خود ہی مدعی،منصف اور جلاد ہیں۔ اس مرتبہ ٹارگٹ پھر مذہبی کارکن ہیں جن میں افغان جنگ میں شرکت کرنے والے ماضی کے منظورِ نظر ’مجاہد‘ اوردیگر تنظیموں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔ پولیس مقابلوں میں دیگر جرائم پیشہ افراد کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، مگر اب بھی لاپتہ افراد میں سب سے بڑی تعداد مذہبی رہنماؤں اور کارکنوں کی ہے، جبکہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے قوم پرست کارکنان الگ ہیں۔
اب چند ہفتوں سے جبری گمشدگیوں کی ایک نئی لہر شروع ہوئی ہے۔ اس مرتبہ معاملہ کچھ الگ ہے کہ غائب ہونے والے افراد سوشل میڈیا پر متحرک افراد اور بلاگرز ہیں، جن میں سرِ فہرست سلمان حیدر ہیں جو فاطمہ جناح یونیورسٹی کے استاد بھی ہیں۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور باالخصوص سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے کہ علم و انسانیت دوست طبقے کے خلاف اس طرح کی کارروائیاں ناقابلِ قبول ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شور شرابے میں مذہبی و لبرل سب لوگوں کی آوازیں شامل ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر کچھ متنازع پیجز کی اشتعال پوسٹس بھی پھیلائی جا رہی ہیں جو لاپتا ہونے والے کچھ بلاگرز سے منسوب کی جا رہی ہیں، مگر اس سب کے باوجود ’تنگ نظروں‘ کا رویہ دیکھیے، کہ بہت سے مذہبی لوگ اس معاملے میں سلمان حیدر و دیگر بلاگرز کے ہمدردوں کی صف میں ہیں کہ اس طرح کے ماورائے آئین اقدامات غلط ہیں۔ اگر ان پیجز یا کسی بھی فورم سے وہ تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہیں بھی تو اس کے لیے قوانین موجود ہیں، انہیں قانونی طور پر گرفتار کر کے تحقیقات بھی ہو سکتی ہیں۔

اس وقت ایک طرف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بلاگرز کے حق میں مظاہرے کر رہی ہیں تو دوسری طرف مذہبی تنظیمیوں نے بھی اپنے سینکڑوں لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کے لیے مرحلہ وار احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ہوا ہے۔ مطالبہ دونوں کا ایک ہی ہے، 'لاپتہ افراد کی بازیابی!' یقیناََ مذہبی تنظیموں کے ان لاپتہ کارکنان پر شدت پسندی اور دہشتگرد تنظیموں سے روابط کے الزامات ہیں، مگر کسی کو شکوک و شبہات کی بناء پر اٹھا کر غائب کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟
معاملہ پولیس مقابلوں کا ہو یا جبری گمشدگیوں کا، دونوں صورتیں ہی ماورائے آئین و قانون ہیں۔ ان کے پیچھے عسکری ادارے ہوں یا پھر سول حکومت کے زیرِ اثر سیکیورٹی ادارے، یہ بہرحال ملک کے نظامِ عدل پر سوالیہ نشان ہیں۔ گزشتہ برسوں کے کچھ اہم پولیس مقابلوں کا جائزہ لیں تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ مارے جانے والے لوگ فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث رہے۔ اسی طرح ایک ملزم کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کیا گیا مگر بعد میں وہ پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔

کیا فوجی عدالتیں انہی لوگوں کے لیے نہیں بنائی گئی تھیں جن کے خلاف گواہی دینے سے لوگ خوفزدہ ہوتے یا ججز فیصلہ نہ کر پاتے تھے؟ تو پھر ان کے قیام کے باوجود قانون کے بجائے ایک متنازع طریقہ اختیار کرنے کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ ملک میں انتہاپسندی و فرقہ واریت کا فروغ یا پھر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں، مگر ان جرائم کے مرتکب افراد کو قانونی طور پر سزا بھی دی جا سکتی ہے تا کہ حکومت یا اداروں پر انسانی حقوق کے حوالے سے کسی قسم کا الزام نہ آئے۔ مگر نجانے کن ناگزیر وجوہات کی بنا پر ملک کے نظام پر بدنما داغ لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک گزارش غیر آئینی کارروائیوں کی زد میں آنے والے لوگوں سے بھی ہے کہ اگر وہ مشترکہ جُد وجہد کریں تو ہوسکتا ہے ان کی کوششیں بار آور ہوسکیں۔ ایک ہی مقصد کے لیے الگ الگ جدوجہد اور پھر ایک دوسرے پر الزام تراشی اپنے مخالفین میں اضافے کا سبب بھی ہے اور ناکامی کا بھی، اس لیے کچھ وقت کے لیے ہی سہی، ایک دوسرے کے درد کو، جس کی وجہ بھی ایک ہی ہو، محسوس کیا جانا چاہیے۔

یہاں میرا شکوہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی ہے۔ کیا بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھانے والی ان تنظیموں اور لبرل حلقوں کو چند لوگوں کی گمشدگی یا غیر قانونی حراست سے اس لیے فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہوتا ہے؟ کیا ہمیں بحیثیتِ معاشرہ کسی شخص کے ساتھ ہونے والی زیادتی اس لیے چھوٹی لگتی ہے کہ وہ شخص ہمارے مذہب و مسلک و مکتبہءِ فکر سے تعلق نہیں رکھتا ؟ یہی بات ان مذہبی حلقوں کے لیے بھی کہوں گا جو اپنے گمشدگان کی بازیابی کے لیے تو بھرپور انداز میں آواز اٹھاتے ہیں، مگر سلمان حیدر کی گمشدگی پر ان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں اور اسے ریاست کا جائز اقدام قرار دے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کو کسی بھی قسم کی تفریق کے بغیر تمام لاپتہ افراد کامعاملہ اٹھانا چاہیے۔ صرف یکطرفہ طور پر مخصوص نظریات رکھنے والے لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بلاتفریق ہر اس انسان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے جس کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہو۔
مذہبی لوگ زیادہ تعداد میں اس طرح کے جبر کا شکار ماضی میں بھی رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔ چند لوگوں کی گمشدگی پر جس طرح طوفان برپا کیا جارہا ہے، اس کا کم از کم حصہ بھی مذہبی کارکنوں کے حق کے لیے بھی مختص کیا جانا چاہیے۔

اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ کسی شخص کی کسی بھی سرگرمی سے ان کا 'وقار' مجروح ہوتا ہے یا پھر ملک کی 'سلامتی' داؤ پر لگتی ہے تو قانونی طریقہءِ کار سے اس سے تفتیش کی جائے۔ اس طرح کسی کو بھی غائب کر دینے سے جہاں ان کے اہلِ خانہ شدید کرب و الم کا شکار رہتے ہیں، وہاں عوامی شخصیات کے چاہنے والے بھی مضطرب رہتے ہیں۔ پھر 'مذہبی انتہاپسندی'، 'اداروں کے وقار' اور 'ملکی سلامتی' جیسی اصطلاحوں کی بھی تشریح کی جانی چاہیے۔ کیا چیز تنقید ہے اور کیا چیز پروپیگنڈا، اس بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں، جس کی بناء پر کسی کو بھی قصوروار ٹھہرا دینا نہایت آسان ہے۔
چند لغزشوں کے سبب کسی کی زبان گنگ کر دینا ،کسی کے قلم توڑ دینا اور کسی کو 'وہاں سے ہٹ کرنا جہاں سے پتہ بھی نہ چلے' جیسے سفاک اقدام کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ اس بات کا تجربہ ہم بار بار کر چکے ہیں۔ اس طرح کرنے سے ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ لوگ ’گستاخیوں‘ سے باز آجائیں مگر مسائل کے پائیدار حل کے لیے قانون کی بالا دستی ضروری ہے۔

محمد عمار احمد
 

Post a Comment

0 Comments