Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

عالم اسلام کے ایک عظیم شہر ’حلب‘ میں رقصاں موت

اُس اجڑے نگر میں گھومتے پھرتے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ڈرائونی بدروحوں اور بھوتوں کے دیار میں آپہنچے۔ وہاں انسان دکھائی دیتے ہیں نہ حیوان! چہار جانب پھیلی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں اور بکھرا ملبہ دیکھنے والے پر عجیب خوف طاری کردیتا ہے۔ خاموشی کا بھی عجب پُراسرار عالم ہے۔ بس کبھی ہوا تیز چلے تو دکانوں کے بورڈ کھڑکھڑا کر عالمِ خامشی توڑ ڈالتے ہیں یا پھر دور سے آتی گولہ باری کی جان لیوا آواز کانوں میں پڑتی اور سر تا پا سنسنی دوڑا دیتی ہے۔
شام کے سب سے بڑے اور مشہور تاریخی شہر، حلب میں آپ کا سواگت! دنیائے اسلام کا یہ منفرد دیس آج جنگ کی مہیب تباہ کاریوں کا جیتا جاگتا خوفناک نمونہ بن چکا۔ وہ شہر جہاں کبھی معصوم بچوں کی کلکاریاں گونجتی، مائوں کی پیار بھری صدائیں بلند ہوتیں اور نوجوانوں کے مسّرت بخش قہقہے گونجتے تھے، آج وہاں موت اور دہشت کا راج ہے۔ دور جدید میں کم ہی شہروں نے ایسی لرزہ خیز تباہی کا سامنا کیا ہے جیسی یہ آشفتہ حال نگر دیکھ چکا۔
یہ شہر خانہ جنگی کا نشانہ بنا ہوا ہے جو ہزارہا انسانوں کی زندگیاں ہڑپ کر چکی۔ مگر اب بہت سے حلبی اس کے اتنے زیادہ عادی ہو چکے کہ بے دھڑک میدان جنگ کے قریب رہائش رکھتے ہیں۔ دراصل میدان جنگ سے قربت ان حلبیوں کو بعض فوائد سے نوازتی ہے۔ شہر کے چاروں طرف پھیلی توپوں اور ٹینکوں کے گولے عمارتوں کی نچلی منزلوں کو نشانہ نہیں بناپاتے۔ نیز وہاں آدھ ٹن وزنی ’’بیرل بم‘‘ بھی نہیں گرتے۔ یہ شامی فوج کا خاص ہتھیار ہے، مگر اتنا زیادہ خطرناک کہ وہ اسے اپنے دستوں کے قریب ہیلی کاپٹروں سے ہرگز گرانے کا خطرہ مول نہیں لیتی۔ شہر حلب کا بقیہ علاقہ میدان بنا ہوا ہے، کھیل نہیں جنگ کا میدان جہاں فریقین کو انسانی خون بہانے کی خاطر ہر دائو پیچ آزمانے کی اجازت ہے۔ اس کُھلی چھٹی سے شامی فوج نے بطور خاص بڑا فائدہ اٹھایا اور انسانوں کومارنے کے ہمہ رنگ حربے و طریقے ایجاد کرلیے۔

مثال کے طور پر بیرل بم جس میں پیچ، شارپنل اور کیمیائی مادے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ بم پوری عمارت تباہ اور پورا مجمع ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعض بم پٹرول سے بھرے ہوتے ہیں تاکہ گرتے ہی چاروں طرف آگ لگا دیں۔ شام میں ان بموں کی لپیٹ میں آ کر کئی ہزار شہری اللہ کو پیارے ہو چکے۔ فوج کے ہیلی کاپٹر 13 تا 16 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔ اسی لیے انسانی کان روزمرہ معمول میں ان کی آواز سن نہیں پاتے۔ ہاں جب ان سے گرائے گئے بم زمین کے قریب آجائیں تو بموں کی شائیں شائیں کانوں میں پڑتی ہے۔ تب یہ سوچنے کا وقت تو ہوتا ہے کہ موت قریب آچکی… مگر اس سے بچنے کا سمّے انسان بدقسمتی سے کھو بیٹھتا ہے ۔ ان بموں سے بچنا فضول ہے کیونکہ خصوصاً مشرقی حلب میں سطح زمین پر ایسی کوئی انسان ساختہ عمارت صحیح سلامت نہیں رہی جسے بطور پناہ گاہ استعمال کیا جا سکے۔ محو پرواز ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ کرنا بھی بے فائدہ ہے۔ شامی باغی اتنے جدید ہتھیار نہیں رکھتے کہ وہ 13 ہزار فٹ پر اڑتے مشینی پرندوں کو نشانہ بناسکیں۔

زندگی اور موت کی آنکھ مچولی

خانہ جنگی حلبیوں کو زندگی کے عجیب و غریب ڈھنگ سکھا چکی۔ ظاہر ہے، جب زندگی اور موت کے مابین آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہو، تو انسان کو غیر معمولی اقدام کرنا پڑتے ہیں۔ اواخر 2013ء میں جب مشرقی حلب شامی فضائیہ کی منظم گولہ باری کا شکار ہوا، تو نوے فیصد باسی اپنے گھر بار چھوڑ گئے۔ مگر آج بھی تین لاکھ حلبی اپنے آباؤ اجداد کے ٹھکانے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ چوبیس گھنٹے موت بھوکے بھیڑیوں کی طرح ان کے تعاقب میں رہتی ہے۔ تیر ِاجل کا نشانہ بن کر زندگی گذارتے ان عجیب حلبیوں میں سے بعض اپنا شہر خود ہی چھوڑنا نہیں چاہتے۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ وہ چاہیں بھی تو نہیں چھوڑ سکتے! کئی جلا وطنی کو کارِ فضول سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’اگر موت نے ہم سے ملاقات کرنی ہے، تو وہ آکر رہے گی اور وہ ہماری طرف ملتفت نہیں، تو کوئی انسان ہمیں نہیں مار سکتے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

شام میں اسد حکمران خاندان کے خلاف بغاوت ہوئے ساڑھے تین برس بیت چکے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اِدھر حلب میں  خانہ جنگی کا شکار یہ شہر نگاراں دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ۔ مغربی حصے میں شامی فوج کا کنٹرول ہے۔ اسی حصے میں متمول و بااثر حلبی رہائش پذیر ہیں۔ یہ امیر حلبی روایتی طور پر حکمران خاندان کے حامی رہے ہیں۔ مشرقی حصے میں حزب اختلاف کی فوج یا بقول ان کے آزادی پسندوں کی حکومت ہے۔ اس حصے میں غریب اور متوسط الحال حلبیوں کی کثرت ہے۔ اسی میں ’’اندرون شہر‘‘ یعنی حلب کا تاریخی علاقہ بھی واقع ہے جس کے تاروپود افسوس، جنگ نے بکھیر کر رکھ دئیے۔ شروع میں فوج ِحزب اختلاف چند تنظیموں پر مشتمل تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کے مابین بو وجوہ اختلافات نے جنم لیا، تو ہر رہنما اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے لگا۔ چنانچہ آج مشرقی حصے میں تنظیموں کی کھچڑی سی پک چکی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ مشرقی حلب کا کون سا علاقہ کس تنظیم کے قبضے میں ہے۔

ایک طاقتور تنظیم کی عدم موجودگی کے باعث مشرقی حلب میں طاقتور مرکزی حکومت مفقود ہے۔ بس ایک ڈھیلی ڈھالی مقامی حکومت کام کررہی ہے جس کا بنیادی کام سماجی خدمات انجام دینا ہے۔ جب بھی کہیں بم گرے، تو اس کے رضا کار لاشیں اٹھانے آجاتے اور عمارتوں میں پھنسے انسانوں کو نئی زندگی دیتے ہیں۔ وسط ستمبر میں حلب پہ نئی آفت ٹوٹ پڑی جب داعش (اسلامی ریاست شام و عراق) کے جنگجوئوں نے شہر پر دھاوا بول دیا۔ اس تنظیم کی نگاہوں میں یہ تاریخی شہر بہت اہم ہے۔ وجہ یہ کہ اس پر قبضہ کر کے داعش پورے بالائی شام پہ اپنی مستحکم حکومت قائم کر سکتی ہے۔

آج بدنصیب حلب اس لیے دنیا کا سب سے زیادہ جنگ زدہ علاقہ بن چکا کہ وہاں ایک دو نہیں کئی گروہ متحارب گروہ ایک دوسرے سے نبرد آما ہیں۔ ہر گروہ شہر سمیت صوبہ حلب کو اپنے دائرہ کار میں لانا چاہتا ہے۔ تزویراتی (strategically)  طور پہ نہایت اہم اس صوبے کو حاصل کرنے کی جنگ پچھلے برس میں دس ہزار انسانوں کی بھینٹ لے چکی۔ جبکہ شامی فوج کی خوفناک فضائی و ارضی بم باری نے صوبے کی بیشتر آبادیوں کے بخیے اُدھیڑ دئیے۔

چلتی پھرتی زندہ لاشیں
یہ ستمبر کا آخری ہفتہ ہے اور حلب کے حیدریہ نامی علاقے میں سبھی لوگ زندہ ہیں… دکان مالک ابو زکریا‘ اس کا پڑوسی ثمر حیاسی‘ الیکٹریشن محسن‘ ساٹھ سالہ محمدی عائشہ اور بارہ مزدور۔ ان سب کا تعلق شہر کے مختلف علاقوں سے ہے‘ مگر اب وہ حیدریہ میں اکٹھے رہتے ہیں۔ ان کے درمیان صرف ایک قدر مشترک ہے… وہ زندہ اور اب تک حلب میں مقیم ہیں۔ ایک سہ پہر اچانک حزب اختلاف کے جنگجوئوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ معلوم ہواکہ سیاہ لباس میں ملبوس ایک عورت وسطی پل کی سمت بڑھ رہی ہے۔ یہ پل شہر کے مشرقی و مغربی حصّوں کو ملاتا اور اب ’’نومینز لینڈ‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ متحارب فوجیوں نے پُل پر جلی بسیں و ٹرک کھڑے کر رکھے تھے تاکہ عام لوگ اسے استعمال نہ کرسکیں۔ جلد ہی وہ عورت پل کے قریب جا پہنچی۔ وہ مغربی علاقے کی طرف ہولے ہولے بڑھ رہی تھی۔ اب حزب اختلاف کے فوجی عالم ِپریشانی میں ریڈیو پر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے۔ وہاں انہوں نے خفیہ جگہوں پر ’’سنائپر‘‘ رائفلیں فٹ کر رکھی تھیں۔ جنگجو کہہ رہے تھے: ’’یہ عورت کون ہے؟ اسے روکو ورنہ شامی فوجی اسے مار دیں گے۔‘‘

اس دوران عورت جلی بسوں کے پہلو سے ہوتی سنسان پل پر چلنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں حسب توقع شامی سنائپر اسے نشانہ بنانے لگے۔ یقینا وہ اسے دشمن کی جاسوسہ سمجھے۔ پہلے انہوں نے دائیں بائیں ہوا میں گولیاں چلائیں۔ وہ عورت کو واپس مشرقی حصے میں بھیجنا چاہتے تھے۔ عورت کے کانوں میں گولیوں کی آوازیں آئیں‘ تو وہ کچھ ٹھٹکی مگر پھر چل پڑی۔ آخر آٹھویں گولی اس کے ماتھے میں پیوست ہو گئی۔ وہ تیورا کر گر ی اور آناً فاناً دنیا سے رخصت ہو گئی۔ شاید اس کی لاش گل سڑ چکی ہو،اسے اٹھانے کا مطلب خود گولیوں کا شکار ہونا ہے۔
کسی کو علم نہ تھا کہ یہ عورت کون ہے‘ کہاں سے آئی اور پل پر کیا کر رہی تھی؟ شاید وہ پل پر بکھرے پلاسٹک بیگ سمیٹنا چاہتی تھی تاکہ انہیں بیچ کر پیٹ کا جہنم بھر سکے۔ یا پھر و ہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی تھی؟ یا اس نے خودکشی کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ موت بانٹتے اس پل کے قریب ہی علی نامی ایک حلبی رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے:’’میں اور شہر کے دیگر باشندے ابھی زندہ ہیں… مگر کب تک؟ پھر حالات نے ہمیں زندہ لاشوں میں بدل ڈالا ہے… ایسی چلتی پھرتی زندہ لاشیں جو زومبی فلموں میں نظر آتی ہیں۔‘‘

قیمتی آثار کی تباہی

چوراسی سالہ ارسلا کو بین دنیا کی معروف ادیبہ نہیں‘ مگر اس کے ناولوں اور افسانوں میں فکر انگیز باتیں ضرور ملتی ہیں۔ اسی امریکی مصنفہ کا قول ہے: ’’تہذیب و ثقافت کا الٹ جنگ ہے… انسان ان دونوں میں سے ایک ہی کو اپنا سکتا ہے:تہذیب یا جنگ!‘‘ یہ منفرد قول شام کی خانہ جنگی پر پورا اترتا ہے جو پچھلے سال کے دوران اسلامی‘ بازنطینی اور دیگر قدیم تہذیبوں کے نہایت قیمتی آثار تباہ کر چکی ۔ یاد رہے ‘ شام و عراق (وادی دجلہ و فرات) ہی وہ ممالک ہیں جہاں دس گیارہ ہزار سال پہلے اکادیوں‘ سمیریوں‘ بابلیوں اور فونیقیوں نے جدید انسانی تمدن کی بنیادیں رکھیں۔

شام کی خانہ جنگی نے حلب میں بھی دو اہم اسلامی آثار تباہ کر ڈالے ۔ ان میں سرفہرست جامع امیّہ ہے۔ شہر کے قلب میں واقع یہ مسجد 710ء تا 717ء مشہور اموی جرنیل‘ مسلمہ ابن عبدالمالک نے تعمیر کرائی تھی۔ یہ مسجد دنیا بھر میں شہر حلب کا نشان اور اس کے تاج کا حسین و جمیل ہیرا تھی۔ اپریل 2012ء میں حزب اختلاف کے جنگجوؤں نے مسجد میں فوجی چوکیاں قائم کر لیں اور یوں اس کا تقدس مجروح کیا۔ شامی فوج ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی اور مسجد پر توپوں اور ٹینکوں کے گولے برسانے لگی۔ چناں چہ اس جنگ نے دنیائے اسلام کی عظیم و بے مثال جامع امیّہ کا حلیہ بگاڑ دیا۔

جامع امیّہ کا مینار حلب کی مقدس نشانی تھا‘ وہ لڑائی میں شہید ہوا ۔ جبکہ عبادت گاہ کا دلکش صحن اور دالان بھی بارود و آگ کی لپیٹ میں آ کر تباہ ہوئے۔ یوں جنگ کے خونخوار عفریت نے ایک تاریخی آثار ملیا میٹ کر ڈالا۔ حلب ہی میں دنیا کا سب سے زیادہ طویل ڈھکا ہوا بازار ’’سوق المدینہ‘‘ واقع تھا۔ وہ ’’تیرہ کلومیٹر‘‘ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں چلتے چلتے پیر تھک جاتے مگر ہمہ رنگ اشیا دیکھتے ہوئے انسان کی طبیعت سیر نہیں ہوتی اور نہ ہی بازار ختم ہونے پر آتا۔ افسوس کہ خانہ جنگی میں اس تاریخی و منفرد بازار کا بیشتر حصہ بھی نذر آتش ہوا۔

کاش وہ سنہرا وقت آ جائے جب بچہ اپنی ماں سے پوچھے ’’امی! جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ ممکن ہے وہ زمانہ قریب ہو جب اسکولوں ‘ اسپتالوں اور سماجی اداروں میں پیسے کی ریل پیل ہو ‘ جبکہ عسکری ادارے اپنے فنڈ حاصل کرنے کی خاطر حکومتوں کے منتیں ترلے کرنے لگیں۔ یقینا ایسا دور ہی عیاں کرے گا کہ بنی نوع انسان عقل و شعور رکھتی ہے۔

سید عاصم محمود

Post a Comment

0 Comments