Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہم اپنے مُلک کے چپے چپے کا دفاع کریں گے

اوڑی پر فدائین کے حملے کے بعد پاکستانی میڈیا پر یہ تجزیہ تواتر سے آ رہا ہے
کہ بھارت کے میڈیا نے اپنے عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کر دیا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحے جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ 1999ء میں کارگل کی لڑائی کے بعد پاک بھارت جنگ کا آغاز اُس انداز میں نہیں ہو گا جس طرح کارگل سے پہلے کی جنگوں میں ہوتا رہا ہے۔ بالخصوص 1965ء اور 1971ء کی جنگیں قابلِ ذکر ہیں، جن میں شروعات فضائی جنگ سے ہوئی تھیں۔ لیکن کارگل کے بعد دونوں ممالک کے عسکری ترکش مقدار اور معیار کے اعتبار سے ویسے ہلکے اور خالی نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔ 

1971ء کی جنگ تو تھی ہی یکطرفہ۔۔۔ اس میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں محدود پیمانے کی فضائی اور زمینی لڑائیاں ہوتی رہیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں اور 16 دسمبر 1971ء کو جنگ بند ہو گئی۔ تاہم 1965ء کی جنگ وہ واحد جنگ تھی جو دونوں ممالک کے درمیان بھرپور انداز سے لڑی گئی اور جس میں دونوں ممالک کی تینوں افواج (گراؤنڈ، ائر اور نیول) نے حصہ لیا۔ چنانچہ اگر کسی پاکستانی یا بھارتی باشندے کے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ آئندہ جنگ میں 1965ء کی کاپی ہو گی تو یہ نہایت غلط، بلکہ لغو بات ہو گی۔ دونوں ممالک نے جب مئی1998ء میں اپنی جوہری قوت کو بے نقاب کر دیا تھا تو پاکستان پہلا مُلک تھا جس نے میزائل سازی کی شروعات کیں۔ 1999ء سے لے کرآج تک نہ صرف دونوں ممالک کی جوہری تجوریاں بھرتی چلی جا رہی ہیں بلکہ میزائلی ترکش بھی خاصے وزنی ہوتے جا رہے ہیں۔ بنا بریں اب یا آئندہ کسی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو وہ ماضی سے مختلف ہو گا۔ جس طرح پہلی اور دوسری عراقی وار میں اور پھر حالیہ افغان وار میں امریکہ نے میزائل حملوں سے جنگ کی ابتدا کی تھی اِسی طرح پاک بھارت افواج بھی اپنے طیاروں کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے میزائلوں سے آغاز کریں گی۔ ان میزائلوں کے اہداف 1965ء کی جنگ کے برعکس صرف گرم محاذوں پر مرتکز نہیں ہیں گے بلکہ غیر فوجی لیکن سٹرٹیجک اہمیت کے اہداف بھی میزائل حملوں کا نشانہ بنیں گے۔ 
اگر پاکستان کی بات پہلے کریں تو پاکستان کی مشرقی سرحد پر جو بڑے بڑے اور گنجان آباد شہر ہیں وہ دشمن کا مرغوب ٹارگٹ ہوں گے۔ ان کے بعد ہماری جوہری تنصیبات، سٹرٹیجک اہمیت کے عسکری ادارے، ڈیم، بیراج، ریلوے سٹیشن، فضائی مستقر (Bases) اور عسکری ہیڈ کوارٹر ہوں گے۔ ان اہداف کے نام لکھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ چونکہ انڈیا کا سائز ہم سے چار پانچ گنا بڑا ہے اِس لئے انڈیا کے مماثل اہداف کی تعداد بھی ہمارے مقابلے میں چار پانچ گنا زیادہ ہو گی۔ ان میزائلوں کے نشانے گراؤنڈ فورسز کے اجتماعات بھی ہو سکتے ہیں، یعنی جو کام فضائیہ کی کلوز سپورٹ سے نکالے جاتے تھے، ان کے استعمال کے امکامات میزائلی جنگ و جدل کے اولین مرحلے میں بھی فراہم ہوں گے۔ ان کے ساتھ ہی بیک وقت فضائی، زمینی اور بحری جنگ شروع ہو جائے گی۔ جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹر میں تینوں فورسز کے مشتر کہ آپریشنوں کی تفصیلات اور نقشے آپریشن روم میں آویزاں ہیں۔۔۔۔ جنگ کی صورتِ حال کا اندازہ لگانا ہو تو عراق اور شام کی حالیہ جنگیں جو ابھی تک لڑی جا رہی ہیں، ان کا احوال پڑھ اور دیکھ لینا چاہئے۔ افغانستان، لیبیا اور یمن کو بھی زیر نگاہ رکھیں۔ ان جنگوں کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر ایک اہم بات آپ نے ضرور محسوس کی ہو گی کہ ان ممالک میں میڈیا کے لئے جنگ کی جو تصاویر اَپ لوڈ کی جاتی ہیں اُن میں بالعموم شہری آبادیوں کی رہائش گاہوں کی تباہی دکھائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ملبے کا ڈھیر بنا ہوتا ہے جس کو دیکھ کر یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع کس نوعیت اور کس کثرتِ تعداد کا ہو گا۔ 

ایک اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان بدقسمت اسلامی ممالک کی تباہ کاریوں کی جو تصاویر آپ میڈیا پر دیکھتے ہیں، وہ سب کی سب ایک تو ’’سرکاری‘‘ (Embedded) ہوتی ہیں اور دوسرے ان میں سویلین شہریوں کا قتل اور غارت گری بالکل نہیں دکھائی جاتی۔ اور یہ سب کچھ عمداً کیا جاتا ہے تا کہ ناظرین و سامعین و قارئین کو اُن لرزہ خیز مناظر کی خبر نہ ہونے دی جائے، جو خشت و سنگ کی اِن برباد شدہ عمارتوں کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوئے تھے۔ البتہ یمن کی جنگ میں کولیشن فورسز کی بمباری نے جو رقت انگیز انسانی مناظر تخلیق کئے تھے، ان کی دلدوزی کی جھلکیاں کچھ دیر تک میڈیا پر آتی رہیں۔ آج کل وہ بھی بند ہو چکی ہیں۔ صرف تباہ شدہ محلے، عمارتیں، سڑکیں اور پلازے دکھائے جاتے ہیں جن سے فضائی بمباری کے ’’اثرات‘‘ کا صرف ’’مکانی‘‘ منظر دیکھا جا سکتا ہے، ’’انسانی‘‘ نہیں! انڈین میڈیا کو اِس بات کی خبر نہیں کہ یہ جنگ اگر ایک بار شروع ہو گئی تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ وہ گزشتہ اتوار سے ایک ہی راگنی الاپے جا رہے ہیں کہ ’’پاکستان کو سبق سکھایا جائے‘‘۔۔۔ نجانے ان کو یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا ہے کہ پاکستان اس سبق سکھانے کی ایکسر سائز کے بعد جو سبق بھارت کو سکھائے گا اس کا مالہ و ما علیہ کیا ہو گا، اس کا کیف و کم کیا ہو گا اور اس کے مابعدی اثرات کیا ہوں گے۔

بھارت کو معلوم ہونا چاہئے کہ اِس جنگ کو چھیڑنے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہے جو بھارت کے رہنماؤں کو اُکسا رہا ہے کہ وہ ’’بھگوان‘‘ کا نام لے کر جنگ کی بھٹی میں کود جائیں۔۔۔ رام بھلی کرے گا۔۔۔ اُن کو سوچنا چاہئے کہ ’’رام‘‘ تو بھلی کرے گا لیکن پاکستان کا بھی ایک ’’رحیم‘‘ ہے جو سب ’’راموں‘‘ کا خالق ہے۔ کیا وہ بھلی نہیں کرے گا؟۔۔۔ وہ ضرور کرے گا اور وزیراعظم بھارت نے اوڑی حملے کا سنتے ہی جو فرما دیا تھا کہ ’’حملہ آور سزا سے نہیں سچ سکیں گے‘‘ تو وہ رحیم و کریم ان حقیقی قاتل اور اصل مجرم حملہ آوروں کو ضرور سزا دے گا، جنہوں نے سینکڑوں نہتے کشمیریوں کو شہید کر دیا اور سینکڑوں کو نابینا اور گھائل کر دیا ہے۔

امریکہ اور اس کے مغربی حواریوں کو مودی کی طرف سے پاکستان پر حملے کا جس شدت سے انتظار ہے، ایسی شدت شائد بھارتی جنتا کے بدترین جنونیوں میں بھی نہیں پائی جاتی ہو گی۔۔۔۔ اس کی وجوہات بڑی واضح ہیں۔ اس جنگ سے امریکہ اور اس کے حواریوں کے درج ذیل تین بڑے مقاصد اور مفادات وابستہ ہیں:

(1) مسلم دُنیا کی واحد نیو کلیئر پاور پاکستان سے یہ اعزاز چھین لیا جائے تاکہ مستقبل میں وہ نہ صرف پوری طرح بے دست و پا ہو جائے، بلکہ مشرق وسطیٰ اور اور جنوبی ایشیاء (بشمول بھارت) میں امریکی آؤٹ پوسٹ نیو کلیئر اسرائیل کا کوئی حریف باقی نہ بچے۔

(2) دوسرا فائدہ جو امریکہ کو اس جنگ سے حاصل ہوگا وہ سی پیک CPEC منصوبے کا پیک اپ کیا جانا ہے۔ CPEC کی اہمیت، پاکستان کی خوشحالی میں اس منصوبے کی شراکت اور بحیرہ عرب (اور بحر ہند) کے پانیوں تک چین اور روس کی رسائی، امریکی عسکری مدبروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی راتوں کی نیندیں حرام کر چکی ہے اور وہ بڑی بے صبری سے انڈیا جیسے حواریوں سے سوال کر رہے ہیں:
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

(3) تیسرا فائدہ جو نہ صرف امریکہ کو بلکہ سارے مغربی یورپ کو حاصل ہوگا وہ دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کو ضائع شدہ اسلحہ جات اور گولہ بارود کی ری سپلائی ہے۔ پاکستان کا وار سٹیمنا اگر (روائتی جنگ میں) دو ہفتوں سے بڑھ کر چار ہفتوں کا بھی ہو گیا ہو تو بھی جس تیزی سے موجودہ جنگ و جدل کا لاجسٹک سٹاک ختم اور ضائع ہوتا ہے اس کے مد نظر یہ سٹیمنا شائد دو ہفتوں سے بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو اس کی وار مشین کی زبوں حالی ایک الگ موضوع ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے علاوہ انڈیا کے آرمی چیف تک اِس کا رونا رو چکے ہیں۔

میں قارئین کا دھیان ایک اور طرف بھی مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ مغربی ممالک کے گدھ، مشرق وسطیٰ کے ممالک کی لاشوں کے اِردگرد کیوں منڈلاتے رہتے ہیں اور آج بھی کیوں منڈلا رہے ہیں۔ یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ گزشتہ ایک عشرے میں مشرق وسطیٰ کے تین چار ممالک جن میں خصوصاً سعودی عرب، امارات، قطر اور کویت شامل ہیں انہوں نے اربوں ڈالر کا اسلحہ اور گولہ بارود مغربی ملکوں سے خریدا ہے۔ عراق پر حملے میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم، ٹونی بلیئر نے امریکی صدر بش کا جو ساتھ دیا تھا اس کا کچا چٹھا آپ نے سر چلکوٹ کی رپورٹ میں پڑھ لیا ہوگا۔ ان مغربی ممالک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا انحصار مشرق وسطیٰ کے تیل پر ہے۔ اگر امریکہ (یا برطانیہ یا فرانس یا جرمنی) ایک ماہ کے تیل کے بدلے عرب ممالک کو ایک آدھ ماہ کا گولہ بارود بھیج دیں اور ساتھ ہی جنگ کے تسلسل کا بندوبست بھی کر لیں تو نہ تو امریکی اسلحہ ساز کارخانے بند ہوں گے اور نہ ان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی گاڑی کی باڈی میں کوئی ڈنٹ (Dent) پڑے گا۔

پچھلے دنوں شائد آپ کی نظر سے یہ خبر گزری ہے کہ نہیں،کہ برطانیہ نے یمن کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور جنگ میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کے لئے 100 ملین پاؤنڈ کا ’’عطیہ‘‘ سعودی عرب کو دیا ہے تاکہ وہ اِس جنگ میں ہلاکت و بربادی کی دیکھ بھال کے لئے اپنے حمائتیوں کی اس ’’خطیر‘‘ رقم سے مدد کرے اور ساتھ ہی یہ خبر بھی تھی کہ برطانیہ نے سعودیوں کو تین ارب پاؤنڈ کا اسلحہ بھی پچھلے دِنوں فروخت کیا ہے۔۔۔ تین ارب پاؤنڈ کا مطلب ہے تین ہزار ملین پاؤنڈ!۔۔۔ اگر برطانیہ تین ہزار ملین پاؤنڈ کا اسلحہ بیچ کر جنگ میں زخمی ہونے والوں کے لئے یا تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر نو کے لئے ایک سو ملین پاؤنڈ ’’عطا‘‘ کر دے تو حساب لگا لیں کہ ’’ شرح خیرات‘‘ کیا نکلے گی!

میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ بھارت کا جنونی میڈیا بے شک اپنی قومی چادر سے باہر جتنے چاہے پاؤں پھیلا لے،ہم پاکستانیو ں کو اِس کا جواب دینے کے لئے ویسے ہی جنون کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے جو ہمارے آرمی چیف نے صرف ایک فقرے میں کہہ دیا ہے : ’’ہم اپنے مُلک کے چپے چپے کا دفاع کریں گے!‘‘ ہمارے میڈیا کو بھارتی میڈیا کی بڑھکوں کا ساشور نہیں مچانا چاہئے۔ تھوتھا چنا ہمیشہ گھنا باجتا ہے، اسے ’’باجنے‘‘ دیجئے۔ پاکستانی میڈیا کو تحمل، بردباری، دور اندیشی اور توازن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے اور اب تو خود انڈیا کا میڈیا بھی گویا اپنا تھوکا چاٹ رہا ہے۔ اس کے بعض تبصرہ نگار اپنی جنتا کو ماضی یاد دلا رہے ہیں۔۔۔ وہ ماضی کہ جب بھارت نے اپنی 90 ,85 فیصد نفری پاکستانی سرحدوں پر لا کر ڈال دی تھی۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا تھا، اس کا احوال ایک بھارتی تجزیہ نگار کے الفاظ میں انشاء اللہ اگلے کالم میں!

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments