Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شامی مہاجر خاندان کی دردناک کہانی

ہجر سیاسی ہو یا رومانوی ہمیشہ ہی تکلیف دہ رہا ہے اور اس کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنی کہ انسان کی ہے۔ اختلافات دلوں کے ہوں یا سرحدوں کے ہمیشہ بچھڑنا ہی پڑتا ہے۔ آج دنیا ترقی کی بلندی پر کھڑی ہے لیکن ہجرت تو آج بھی ہے۔ جو دُکھ درد پاکستانیوں نے 1947ء میں اُٹھائے، ان کی تکلیف سے آج بھی آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں۔ وہی دکھ آج شامی اُٹھا رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں شامی مہاجرین کو قبول کرنا ایک بڑے سیاسی ایشو کے طور پر لیا جا رہا ہے لیکن چراغ تلے اندھیرے والی بات مصدقہ ہو رہی ہے۔ شام کے ہمسایہ ممالک کے دلوں میں وہ جگہ کیوں نہیں بن پائی جو یورپی ممالک کے دلوں میں بنی ہے لیکن اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ اردن، لبنان اور ترکی نے اپنی استعداد سے بڑھ کر مہاجرین کو پناہ دی ہے۔ 
اقوام متحدہ کی رفیوجی ایجنسی کے مطابق مہاجرین کی تعداد 4.2 ملین سے زائد ہے۔ جس میں نصف تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔ جس مہاجر خاندان کو دیکھیں اپنے اندر ایک کربناک کہانی لیے کیمپ میں زندگی گزار رہا ہے۔ آئیے آپ کو دمشق میں رہنے والے ایک مہاجر خاندان کی کہانی سناتے ہیں۔ کہانی سنانے والے مہاجر کا نام عمار ہے اور ان کی کہانی انہی کی زبانی سنیں۔ ہم لوگ دمشق میں اپنے گھر اپنے خاندان کے ہمراہ خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ میرے خاندان میں میری بیوی، بچوں کے علاوہ والدین بھی شامل ہیں۔ اچھے بھلے پُر امن ملک میں بدامنی کی لہر نے ایسا سر اُٹھایا کہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اپنے ہی ملک میں جینا حرام ہو گیا۔ باغوں کی خوشبو کی جگہ بارود کی بُونے لے لی۔ فلک بوس عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ خوش و خرم چہرے خون آلودہ ہوئے۔ جانے وہ کون امن کے دشمن ہیں جنہیں انسانوں کو قتل کرتے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔ انسان ایسا کب کرتے ہیں یہ تو انسانوں اور درندوں کے مابین دنگل کا منظر ہے۔ جنت کی یہ زندگی جہنم ہی ہو گئی اور اس جہنم سے نکلنا ہی نصیب ہوا۔

اپنے بچوں اور والدین کو لیکر وطن عزیز چھوڑا تو دل زخمی زخمی تھا۔ دو سال ہو گئے شام کو چھوڑ کر بنکاک آئے ہوئے لیکن گولیوں کی تڑتڑاہٹ آج بھی دماغ میں گونجتی رہتی ہیں۔ اپنے گھر میں بیتے آخری ایام میں تو یہ ہوتا ہے کہ بچوں اور والدین کو لیے محفوظ جگہ پر ساری رات آنکھوں میں کاٹتے۔ اچانک گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی اور دل دہل کے رہ جاتا۔ دھماکہ ہوتا اور کوئی عمارت کھنڈر بن جاتی۔ دھواں اٹھتا اور گرد و غبار کے بادل آسمانوں سے باتیں کرتے۔ ایسے میں دم توڑتے لوگوں کی خوفناک چیخیں سارا سکون لے جاتیں۔ یوں لگتا جیسے ابھی کوئی گولہ ہماری چھت پر گرے گا اور ہم سب یہاں ہی دفن ہو جائیں گے۔ ایک شام جب بمباری کی انتہا ہو گئی تو گھر چھوڑنا ہی بھلا سمجھا۔ جو ہاتھ میں آیا اُٹھایا اور بچوں اورماں باپ کو سہارا دئیے باہر کی جانب بھاگے۔ وہ منظر نہیں بھلایا جاسکتا جب چاروں اطراف خوفناک فائرنگ جاری تھی اور ہم سرجھکائے دیواروں کی اوڑھ میں بھاگتے ہی چلے جا رہے تھے۔ ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد قدرے پُر سکون علاقے میں آئے تو رات کی چادر تن چکی تھی۔ اندھیرے میں آگے سفر کرنا نا ممکن تھا۔ وہ علاقہ مکینوں سے خالی تھا۔ 

ہم لوگوں نے ایک خالی گھر میں پناہ لی۔ اس کھلے گھر میں سب کچھ موجود تھا لیکن کوئی رہائشی نہ تھا۔ اس کا ایک پورشن کسی بارود گولے کا نشانہ بن چکا تھا۔ ہم نے قدرے محفوظ کمرے میں پناہ لی اور اسی گھر کے کچن سے کھانے پینے کا سامان استعمال کیا۔ دو دن یہاں قیام کیا۔ دوسری رات کے پچھلے پہر ایک گولہ صحن میں گرا اور اس کے درو دیوار لرز گئے۔ ہم لوگ سوئے ہوئے تھے۔ ایسے محسوس ہوا جیسے چھت گر گئی ہے لیکن صبح کی پُو پھٹنے تک ہم سب لوگ دبکے بیٹھے رہے۔ا علیٰ الصبح میری چھوٹی بیٹی بھوک سے بلک اُٹھی۔ اس کا رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ زندگی ہتھیلی پررکھے دودھ کی تلاش میں نکلا تو گلی کی نکڑ پر ہی ایک فریڈم آرمی کے کمانڈو سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ کمانڈر نے حکماًً کہا کہ یا ہمارے ساتھ ہتھیار اُٹھا کر جنگ میں شامل ہو جاؤ یا پھر موت کے لیے تیار ہو جاؤ۔ پھر جانے اس کے دماغ میں کیا آیا اور کہا کہ دس گننے تک یہاں سے غائب ہو جاؤ ورنہ کوئی اندھی گولی تمہارا بھیجا اُڑا دے گی ا ورتدفین بھی نصیب نہیں ہو گی۔

میں وہاں سے بھاگا اور اپنے خاندان کو لے کر گھر کے پچھواڑے ایک اجاڑ راستے پر جا نکلا۔ ہم لوگ چھ گھنٹے پیدل چلے۔ اس دوران میری بیٹیاں بھوک سے روتی رہیں۔ دوپہر ایک بجے کے قریب کچھ لوگوں نے خوراک کے پیکٹ اور دودھ کی بوتلیں ہماری طرف پھینکیں اور یہاں سے دور چلے جانے کا مشورہ دیا۔ میں وہ منظر بھول نہیں سکتا کہ کس طرح میری چھوٹی بیٹی نے دودھ کی بوتل کو منہ لگایا۔ ہم لوگ شام چھ بجے ایک مہاجر کیمپ میں تھے جہاں میرے سینکڑوں ہم وطن اپنی قسمت کا لکھا بھگت رہے تھے۔ یہاں سے تھائی لینڈ کا موقع تو میسر تھا لیکن ویزے کے بغیر فلپائن آنا گویا جیل میں جانے کے مترادف تھا۔ میں دن بھر اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کے لیے خوراک کی تلاش میں رہتا۔ اپنا گھر چھوڑتے وقت اچھی خاصی رقم میری جیب میں تھی جو اس نازک موقعہ پر کام آرہی تھی۔ میری بیوی سارا سارا دن قطاروں میں لگ کے اقوام متحدہ کے قائم کردہ دفتر میں خاندان کی رجسٹریشن کروانے میں کامیاب ہوئی۔ 2012 کے آخر میں تھائی لینڈ نے سیاسی پناہ دینے کی سہولت دے دی تو ہماری اولین ترجیح تھائی لینڈ ہی تھی۔ یو این ایچ سی آر یعنی اقوام متحدہ کا دفتر برائے مہاجرین میں ہمارا انٹرویو لیا گیا اور خدا کے فضل سے ہمیں ویزہ دے دیا گیا۔ ہمیں مہاجر کا درجہ دے دیا گیا اور اب میرے بچوں کا مستقبل تاریک نہیں تھا۔ 

بھلے کسی اور ملک میں اپنی زندگی کی نئی شروعات کرنے جا رہے ہیں لیکن یہ سکون ہے کہ اس ملک میں گولے بارود کی بُو کی جگہ پھولوں کی خوشبو ہو گی اور میری بیٹیوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہوں گی۔ میں ان کے روشن مستقبل کو دیکھ کر جی تو اُٹھا لیکن وطن کی محبت نے دل میں درد کے نئے باب کھول دئیے۔ یہ ہجر جانے کب ختم ہوں گے اور جانے کب انسان نما درندوں کویہ سمجھ آئے گا کہ اسلحہ کی تجارت میں انسانوں کو لقمہ اجل بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ دنیا امن کے لیے بنائی گئی تھی۔ تاجروں نے اسے قتل گاہ بنا دیا۔

عبدالستارہاشمی

 

Post a Comment

0 Comments