Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کشمیر : عیدگاہیں ویران اور کرفیو میں عید

سری نگر میں گزشتہ پچیس برس میں پہلی مرتبہ عیدگاہیں ویران رہیں اور لوگ
سخت ترین کرفیو کی وجہ سے مذہبی تہوار منانے سے بھی محروم رہے۔ بائیس برس کے عبدالطیف اپنے گھر سے نکل کر چھپتے چھپاتے عیدگاہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں چند سو نمازی عید کی نماز ادا کرنے کے لیے پہلے سے موجود تھے۔ عام حالات میں کشمیر کے مختلف علاقوں میں عید گاہوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ عید کے موقع پر جمع ہو کر نماز عید ادا کرتے ہیں۔ عبدالطیف کا کہنا تھا کہ عید قربان کے موقعے پر کشمیری بکرے کے گوشت سے دس مختلف پکوان بناتے ہیں لیکن اس مرتبہ انھیں مقامی دکانوں سے صرف پنیر مل سکا۔

عبدالطیف جو اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ بچے عید کے موقعے پر پارکوں میں جا کر عید کی خوشیاں مناتے ہیں لیکن اس عید پر وہ گھروں میں بند ہیں۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جولائی کی آٹھ تاریخ کو فوج اور پولیس کی مشترکہ کارروائی میں نوجوان برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے تاریخ کے بدترین ہنگامے جاری ہیں۔ عید کے دن بھی پرتشدد واقعات جاری رہے اور پولیس سے تصادم میں دو نوجوان ہلاک اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے جن میں سے اکثریت چھرے لگنے سے گھائل ہوئے۔ حکام سری نگر سمیت وادی میں امن و اماں قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حزب المجاہدین کے فیلڈ کمانڈر برہانی الدین وانی کی ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں چھ سال بعد جو عوامی احجتاج شروع ہوا ہے وہ کسی صورت ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔
بھارت کے ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں سکیورٹی فورسز تیرہ لاکھ چھرے پتھراؤ کرنے والے نوجوان پر برسا چکی ہیں۔ ان چھروں سے زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جب کہ ستر سے زیادہ نوجوان اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں اکثریت نوجوان کی ہے جو آنکھوں میں چھرے لگنے سے جزوی یا مکمل طور پر اپنی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس دیرینہ تنازع سے گو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اپنی جگہ موجود ہے لیکن کشمیر کے رہنے والوں بھارت سکیورٹی فورسز کے مظالم سے تنگ آ چکے ہیں۔

سری نگر میں منگل کو سکیورٹی فورسز کے مسلح جوان سنسان گلیوں اور بازاروں میں گشت کرتے رہے۔ عید کی نماز کے فوراً بعد چند سو نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں بھارت کی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف نعرے لگائے۔ اس موقعے پر کوئی ناخشگوار واقع پیش نہیں آیا۔ کشمیر میں اس عید پر پہلی مرتبہ سکیورٹی فورسز نے نگرانی کے لیے ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا اور ملک کے دیگر علاقوں میں مقیم کشمیری اپنے گھروں میں آ کر عید منانے سے محروم رہے۔ کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل رہیں اور باہر کی دنیا سے کشمیریوں کے رابطے منقطع رہے۔

بانڈی پورہ میں پولیس پر پتھراؤ میں ایک نوجوان ہلاک ہو گیا جب پولیس کی طرف سے فائر کیا جانے والے آنسو گیس کا ایک شیل سیدھا اس کے سر پر لگا۔ سری نگر سے جنوب میں شوپیاں کے علاقے میں بھی مظاہرین کے ایک ہجوم پر پولیس کی فائرنگ میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے اس واقع کی اس سے زیادہ تفصیل بتانے سے انکار کر دیا۔ تازہ ہلاکتوں کے بعد مرنے والوں کی تعداد 78 ہو گئی ہے جبکہ زخمی کی تعداد ایک انداز کے مطابق سات ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں سے اکثریت پمپ ایکش بندوقوں سے فائر کیے گئے چھروں کا نشانہ بنے۔ دو ماہ میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں دو پولیس اہلکار ہلاک اور پانچ ہزار اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سادگی سے عید منانے رہے ہیں۔ سری نگر کے رہائشی منصور احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم مرنے والوں کا سوگ منا رہے ہیں۔‘
تعمیراتی کام کرنے والے نذیر احمد نے روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ وہ چار سو روپے کی دھاڑی لگاتے تھے لیکن جب سے مظاہرے شروع ہوئے ہیں وہ بے روز گار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک خیراتی ادارے کی امداد کے ذریعے اپنے بچوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ ان کی بیوی بچوں اور ایک عمر رسیدہ ماں کے لیے انھیں عید پر آدھا مرغ، تھوڑا سے پنیر، چاول، چند سبزیاں اور تیل ملا ہے۔ احمد نے کہا کہ وہ گھر میں بند ہیں اور عید کی نماز بھی ادا نہیں کر سکتے۔ ’عید پر ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بناتے تھے لیکن اب تو خوراک پوری کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔‘

بشکریہ روئٹرز

Post a Comment

0 Comments