Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

لگے رہو مودی اور الطاف بھائی

ایک برطانوی عہدیدار سے چند دن پہلے ملاقات ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ برطانیہ
میں مجرم جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی تگڑا وکیل کرتا ہے۔ اس تگڑے وکیل کے پاس وہ سارے داؤ پیچ ہوتے ہیں جو کسی مجرم کو سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچانے میں کام آتے ہیں۔ اس کے خیال میں جو مجرم ابھی تک آزاد ہیں وہ ایسے ہی وکیلوں کے مرہون منت ہیں۔ برطانوی عہدیدار کا یہ جواب الطاف حسین کے مقدمات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے بارے میں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اب تک وکیل الطاف حسین کو بچانے میں کامیاب رہا ہے مگر الطاف حسین کے پاکستان مخالف تازہ ترین خطابات کے بعد اب شاید وہ ایسا نہ کر سکے۔ برطانوی عہدیدار نے برادرم لطیف چوہدری کے اس سوال کو گول کر دیا کہ برطانیہ اپنے کسی شہری کو یہ اجازت کیسے دے سکتا ہے کہ وہ لندن میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک کے خلاف خطاب کرتا پھرے جس میں یہ مطالبہ بھی شامل ہو کہ اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔ اس برطانوی کا نام نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اس سے اجازت نہیں لی تھی۔ برطانوی کی یہ توقع اپنی جگہ کہ اب الطاف حسین کو مہنگا ترین وکیل نہیں بچا سکے گا، مجھے نہیں لگتا کہ اب بھی کچھ ہو گا۔
مصطفیٰ کمال اور رضا ہارون کی یہ بات اگر مان لی جائے کہ برطانیہ کے پاس الطاف حسین کو ’’را‘‘ کی فنڈنگ کے ثبوت موجود ہیں تو پھر یہ گنجائش پہلے ہی کہاں تھی کہ موصوف اپنی آزادی قائم رکھ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ اسی ثبوت نے برطانیہ کو کارروائی سے روک رکھاہے۔ ’’را‘‘ کا سیدھا سیدھا مطلب بھارت ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت کی طرف سے برطانیہ کو پیغام بھی دے دیا گیا ہو کہ کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ برطانوی عہدیدار یا ہمارا خیال کچھ بھی ہو تا ثر یہی ہے کہ برطانوی عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں۔ وہ کسی دباؤ کے تحت فیصلے نہیں کرتیں چاہے ان کی حکومت ہی ایسا چاہتی ہو۔ بہرحال دیکھتے ہیں برطانوی نظام عدل کیا کارروائی کرتا ہے۔

الطاف حسین کو بھارت یا ’’را‘‘ کی فنڈنگ کے ثبوت میرے پاس نہیں ہیں۔ میرے لیے ٹائمنگ اہم ہے۔ 15 اگست بھارت کا یوم آزادی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس یوم آزادی پر دلی کے لال قلعہ میں سجائی گئی تقریب کے دوران تقریر کی اور پاکستان کو للکارا۔ موصوف نے اس تقریب سے چند روز قبل یہ کہا تھا کہ پاکستان بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان میں اپنے لوگوں پر ظلم بند کردے۔ لال قلعہ میں مودی کا کہنا تھا کہ بلوچستان، آزاد کشمیراور گلگت بلتستان کے لوگ شکریے کے فون کر رہے ہیں۔ لال قلعے کی تاریخی اہمیت ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ہم نے ایک دن لال قلعے پر پاکستانی پرچم لہرانا ہے۔ نریندر مودی نے پاکستان کو پیغام دینے کے لیے اسی لال قلعے کا انتخاب کیا۔ یہ وہی نریندرمودی ہیں جو ڈھاکا میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے پہلو میں کھڑے ہو کر یہ کہہ چکے ہیں بنگلہ دیش بھارت نے بنوایا۔ مودی نے دراصل یہ اعلان کیا ہے کہ بھارت اب پاکستان کے مزید ٹکڑے کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ ہماری بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ حاضر سروس بھارتی افسر اور ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو رنگے ہاتھوں اپنی سرزمین سے گرفتار کرتے ہیں مگر کچھ نہیں کر پاتے۔

کلبھوشن یہ اعتراف کرتا ہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں بدامنی کی کارروائیاں کروا رہا تھا۔ مودی کی تقریر کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد الطاف حسین کراچی میں اپنے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہیں اور ان سے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگواتے ہیں۔ وہ گزشتہ روز اپنی اس تقریر پر معافی مانگتے ہیں اور پھر اسی دن امریکا میں ٹیلی فونک تقریر کے دوران اس سے بھی زیادہ سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر ایک روز بعد جنوبی افریقہ میں تقریر۔ ابھی وقفہ ہے لیکن یہ وقفہ عارضی ہے۔ مودی اور الطاف حسین کی تقریر کے درمیانی عرصہ میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی وجہ سے انڈیا اور اس کی حکومت کافی انڈر پریشر تھی۔ اس تقریر کے بعد لگتا ہے ساری صورتحال ہی تبدیل ہو گئی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا گذشتہ سال جب بھارت میں شدت پسندی عروج پر تھی۔ انتہا پسند ہندو مسلمانوں اور مسیحیوں پر حملے کر رہے تھے تو 25 دسمبر 2015ء کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی ’’اچانک‘‘ کابل سے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ لاہورپہنچے جہاں وزیر اعظم نوازشریف نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھارتی ہم منصب کو سیدھے اپنی نجی رہائش گاہ جاتی امرا ء لے گیے۔ دونوں کی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تصاویر نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی تھی۔ ان کی اس ’’اچانک‘‘ آمد کے بعد یوں محسوس ہوا تھا کہ انتہا پسند ہندوؤں نے کبھی کسی غیر ہندو پر حملہ ہی نہیں کیا۔ مجھے لگتا ہے الطاف حسین کی یہ تقریر بھی ’’اچانک‘‘ ہی تھی۔ اس طرح کے ’’اچانک‘‘ رونما ہونے والے واقعات کتنا کچھ بدل سکتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہو جانا چاہیے۔ ملک میں یہ تاثر بھی تو پھیلایا جا رہا ہے کہ سارے مسئلے اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہیں۔ میاں صاحب تو دن رات مسائل کے حل میں لگے ہوئے ہیں۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے نریندر مودی کی لال قلعہ والی تقریر اور اس کے بعد سے اب تک ہمارے وزیر اعظم نے اپنی زبان سے نریندر مودی کا نام تک نہیں لیا۔ ان کے دو یا تین بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ دو بیان جو مجھے یاد ہیں ان میں سے ایک بیان کشمیر کی صورتحال پر تھا اور دوسرا الطاف حسین کی تقریر کے بعد‘ اس میں بھی انھوں نے الطاف حسین کا نام لینا گوارا نہیں کیا۔ میاں صاحب کے مخالفین ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ کاروباری مفادات کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم پر تنقید نہیں کرتے۔ ممکن ہے یہی بات ہو لیکن جب انڈین وزیر اعظم بلوچستان میں کھلے عام مداخلت کرنے کا اعلان کرے، ’’را‘‘ کے ایجنٹ کراچی میں بدامنی کا اعتراف کریں تو پھر انھیں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں اقتدار میں لانے والے پاکستانی عوام ہیں۔ ہم طاہرالقادری کے اس الزام کو بھی نہیں مانتے کہ نواز شریف کو بھارت اقتدار میں لایا۔ اس کے باوجود ان ایشوز پر وزیر اعظم کی مکمل خاموشی شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔ ممکن ہے وزیر اعظم نے طے کر رکھا ہو کہ اپنے موجودہ دور اقتدار میں انھوں نے نریندر مودی کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی۔ اور وہ ایسا کریں بھی کیوں؟

نریندر مودی کچھ کہیں یا کریں‘ الطاف حسین اپنی تقریر میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوا دیں، وہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کریں۔ ان سب باتوں سے نواز شریف کے اقتدار کو تو کوئی خطرہ نہیں بلکہ ان کے مخالف تو یہاں تک کہتے ہیں میاں صاحب کو اس سے فایدہ ہوتا ہے۔ شاید وہ پانامہ شانامہ والے معاملے میں۔ اقتدار قائم رہے‘ باقی سب خیر ہے۔ ویسے بھی ہمارے تشخص تک کا محافظ تو چین ہے۔ لگے رہو مودی اور الطاف بھائی۔

ایاز خان

Post a Comment

0 Comments