Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

میں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے : محمد علی کلے

محمد علی اپنے دور میں دنیا کی مشہور ترین شخصیت تھے۔ ان کی زبردست
باکسنگ صلاحیت کے علاوہ ان میں بلا کی خوداعتمادی بھی پائی جاتی تھی۔
انھوں نے خود اپنے بارے میں کہا تھا، ’میں عظیم ترین ہوں۔‘ اور جس شخص نے تین عالمی چیمپیئن شپ کے ٹائٹل حاصل کر رکھے ہوں، کون ہو گا جو ان کی اس بات پر شک کر سکے۔ باکسنگ کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے ان کے بےباکانہ انداز نے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کو ان کا مداح بنا رکھا تھا۔ وہ 17 جنوری 1942 کو امریکی ریاست کینٹکی کے شہر لوئس ول میں کیسیئس مارسیلز کلے کے نام سے پیدا ہوئے تھے۔
 کہا جاتا ہے کہ جب وہ 12 برس کے تھے کہ ان کی سائیکل چوری ہو گئی۔ انھوں نے ایک پولیس والے سے کہا کہ اگر چور مل گیا تو وہ اس کی ٹھکائی کریں گے۔
جو مارٹن نامی اس پولیس افسر نے، جو مقامی جِم میں باکسنگ کی تربیت دیا کرتے تھے، نوعمر کلے کو مشورہ دیا کہ چور کو مزا چکھانے سے پہلے بہتر ہو گا کہ وہ باکسنگ سیکھ لیں۔ کلے نے بغیر وقت ضائع کیے باکسنگ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی اور دو سال بعد ہی ایک ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ اس کے بعد اگلے پانچ برسوں میں کلے نے کئی مقابلے جیتے جن میں 1959 میں گلولڈن گلوز ٹورنامنٹ آف چیمپیئنز بھی شامل ہے۔ 1960 میں انھیں روم اولمپکس کے لیے امریکی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ پہلے تو انھوں نے جہاز کے سفر سے ڈر کی وجہ سے انکار کر دیا، تاہم بعد میں جو مارٹن کے بیٹے کے مطابق انھوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ پیراشوٹ خریدا اور پرواز کے دوران اسے پہن کر بیٹھے رہے۔ یہ محنت رنگ لائی اور پانچ ستمبر 1960 کو وہ پولینڈ کے زبیگنیئف پیتریکووسکی کو ہرا کر اولمپک لائٹ ویٹ چیمپیئن بن گئے۔
 جب وہ وطن لوٹے تو ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا لیکن جب وہ اپنی ریاست کینٹکی پہنچے اور انھیں ایک ریستوران میں میز پر بیٹھنے سے روک دیا گیا تو انھیں شدت سے احساس ہوا کہ اس زمانے کے امریکہ میں نسل پرستانہ رویے جاری و ساری ہیں۔ انھوں نے 1975 میں اپنی آپ بیتی میں دعویٰ کیا کہ انھوں نے اپنا اولمپک طلائی تمغہ اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ اسی سال انھوں نے اپنا پروفیشنل باکسنگ کریئر شروع کیا جس کی ابتدا انھوں نے ٹنی ہنسیکر کو چھ راؤنڈ میں مات دے کر کیا۔ اس کے بعد وہ ایک کے بعد ایک مقابلہ جیتتے چلے گئے۔
وہ باکسنگ رنگ میں اپنے حریفوں کے گرد مخصوص انداز سے رقص کیا کرتے تھے۔ شائقین کو ان کا انداز، ان کے طور طریقے اور حرکت کرنے کے انداز بےحد پسند آئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ میچ کے دوران اپنے حریف کی شکست کے بارے میں تبصرے بھی کرتے جاتے تھے۔

1963 میں انھوں نے لندن میں برطانوی چیمپیئن ہنری کوپر کو چوتھے راؤنڈ میں فرش پر ڈھیر کر دیا۔ اگلے برس کلے نے زبردست عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو چیلنج کر دیا۔ جب چھ راؤنڈ بعد کلے کو فاتح قرار دیا گیا تو انھوں نے چیختے ہوئے کہا: ’میں نے دینا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘باکسنگ رنگ سے باہر کلے نسل پرستی کے سخت خلاف تھے جو 1960 کی دہائی میں امریکہ کے بڑے حصوں میں عام تھی۔ وہ اسی زمانے میں نیشن آف اسلام نامی تنظیم سے وابستہ ہو گئے تھے، جس کا مطالبہ تھا کہ سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی ختم کی جائے۔ انھوں نے اسلام قبول کر کے اپنا نام تبدیل کر کے محمد علی رکھ لیا اور کہا کہ کا پرانا نام ’غلامانہ‘ تھا۔
امریکہ میں ان کی مخالفت شروع ہو گئی اور جب لسٹن کے ساتھ ان کا دوبارہ میچ ہوا تو اسے دیکھنے کے لیے صرف دو ہزار لوگ آئے۔ لسٹن کو ناک آؤٹ کرنے کے بعد انھوں نے آٹھ مزید مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ اس زمانے میں ویت نام میں جنگ جاری تھی جس میں ہر امریکی کو حصہ لینا ہوتا تھا۔ تاہم محمد علی نے فوج میں بھرتی ہونے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’میری ویت کانگ سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔‘ انھیں اعزازات سے محروم کر دیا گیا۔ انھیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی، تاہم اسے اپیل کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔

علی 1970 میں دوبارہ رنگ میں آئے اور جیری کویری کو شکست دی۔ لیکن اتنا عرصہ باکسنگ سے دور رہنے کی وجہ سے ان کی رفتار متاثر ہو گئی تھی اور 1971 میں انھیں اپنے پروفیشنل کریئر میں پہلی بار اس وقت شکست ہوئی جب جو فریزر نے انھیں ہرا دیا۔ محمد علی نے تین سال بعد فریزر سے بدلہ لے لیا۔ محمد علی نے اپنی زندگی کا سب سے اہم میچ اکتوبر 1974 کو جارج فورمین کے خلاف زائر میں کھیلا۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ علی جیت نہیں پائیں گے، اور بعض تو یہ کہنے لگے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ تاہم آٹھویں راؤنڈ میں علی نے خود سے کہیں طاقتور حریف کو ناک آؤٹ کر دیا۔ یہ میچ ٹیلی ویژن پر ایک سو ملکوں میں براہِ راست دکھایا گیا۔
فروری 1978 میں علی کا مقابلہ لیون سپکنس سے ہوا جو ان سے 12 برس چھوٹے تھے۔ لاس ویگس میں ہونے والے اس مقابلے میں علی کو شکست ہو گئی۔ تاہم جوابی مقابلے میں علی نے پوائنٹس پر فتح حاصل کی۔ علی بہت فراخ دل تھے۔ انھوں نے باکسنگ سے چھ کروڑ ڈالر کمائے لیکن 1979 تک ان کے پاس بہت کم رقم بچی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے باکسنگ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ ملتوی کیے رکھا۔ جب ان کا مقابلہ لیری ہومز کے ساتھ 1980 میں ہوا تو اس وقت وہ زوال پذیر ہو چکے تھے۔ آخر کار 1981 میں ٹریور بربِک کے خلاف 1981 میں میچ کے بعد انھوں نے بالآخر 40 برس کی عمر میں باکسنگ رنگ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی صحت کے بارے میں افواہیں گردش کرنے لگیں۔ ان کی زبان میں لکنت آ گئی، چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگی اور وہ اکثر غنودگی کی حالت میں رہنے لگے۔ انھیں پارکنسنز کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔ تاہم انھوں نے اس کا مقابلہ پامردی سے کیا اور 1996 کے ایٹلانٹا اولمپکس میں مشعل روشن کی۔ اس کے بعد سے ان کی بیماری کی خبریں گردش کرتی رہیں، تاہم وہ سفر کرتے رہے اور جہاں بھی جاتے، ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا، خاص طور پر ترقی پذیر دنیا میں جہاں ان کی بڑی تکریم کی جاتی تھی۔ برطانیہ میں بی بی سی کے ناظرین نے انھیں صدی کی کھیلوں کی اہم ترین شخصیت قرار دیا۔ بعد میں امریکہ کے رسالے سپورٹس السٹریٹڈ نے بھی انھیں ایسے ہی خطاب سے نوازا۔
محمد علی نے اپنے 21 برسوں پر محیط باکسنگ کریئر میں 56 میچ جیتے، جب کہ پانچ میں انھیں شکست ہوئی۔

تاہم وہ کھیلوں کی دنیا سے بالاتر شخصیت تھے۔ ان کے تند و تیز جملوں اور شاعری نے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو ان کا مداح بنا رکھا تھا۔ انھیں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے جد و جہد کرنے کی وجہ سے خاص پر عزت و احترام ملا، اور کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ جب عمر کے آخِری حصے میں ایک خطرناک مرض نے ان پر غلبہ حاصل کیا تو ان کی جرات اور ہمت سبھی کو متاثر کر گئی۔
جس طرح محمد علی اپنے کھیل سے اوپر اٹھ کر سامنے آئے اور اپنے زمانے میں دنیا کی معروف ترین شخصیت بن گئے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

بشکریہ بی بی سی اردو


Post a Comment

0 Comments