Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہمارے ہندوستانی مسلمان

ہندوستان میں مسلمانوں کے انحطاط کو اگر سمجھنا چاہیں تو دراصل یہ وہی زمانہ
ہے جب ۱۷۱۲ء میں مسلم حکومت کا چراغ گل ہوا، مزید ۱۸۵۷ء میں انتہا کو پہنچا۔ اس درمیان ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی لڑائی ہوئی اور گرچہ میر جعفر بنگال کا صوبیدار مقرر ہوا، لیکن وہ ’’مردہ بدست زندہ‘‘ تھا۔ حقیقت میں حکمرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی قائم ہو چکی تھی۔ اُدھر پنجاب میں ۱۷۹۹ء میں شاہ زماں والیٔ کابل رنجیت سنگھ کو اپنا صوبیدار مقرر کر گیا تھا۔ لیکن وہ خودمختار ہو گیا۔ ۱۸۱۸ء میں اس نے ملتان فتح کیا، جہاں نواب مظفر خاں بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے کام آیا۔

اس سے اگلے سال کشمیر مسلمانوں کے قبضے سے نکل گیا اور رنجیت سنگھ نے آہستہ آہستہ پشاور پر اقتدار بڑھانا شروع کیا۔ سندھ ۱۸۴۳ء میں اور اودھ ۱۸۵۶ء میں کمپنی میں ملحق کر لیے گئے۔ اس کے بعد بھی گرچہ مسلمانوں کا کوئی سیاسی اقتدار باقی تھا تو اسے جنگ آزادی کے ہنگامے نے مٹا دیا۔ اس سیاسی انقلاب کے علاوہ جو انحطاط مسلمانوں کی اقتصادی اور تمدنی زندگی میں رونما ہوا، وہ اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔ اس کی صحیح اور مفصل تصویر ڈاکٹر سر ولیم ہنٹر نے اپنی کتاب ’’اَوَر انڈین مسلمز‘‘ (ہمارے ہندوستانی مسلمان) میں کھینچی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں آج تک ابھر نہیں سکے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک جس قدر مسائل سے ہندوستانی مسلمان دوچار رہے ہیں، کوئی اور قوم ان حالات سے گزرتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنا وجود ہی خطرہ میں ڈال چکی ہوتی۔ اُس کی شناخت ختم ہو جاتی اور اس کے عقائد بگڑ جاتے۔ لیکن غالباً یہ مسلمانوں کی خود کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا برحق کی مصلحت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ صرف باقی رہیں بلکہ اپنی مکمل شناخت اور عقائد و افکار میں بھی وہ نمایاں حیثیت برقرار رکھیں۔ تاکہ نظریۂ ظلم پر قائم ہونے والی فکر کو وہ موقع میسر نہ آئے، جس کے بظاہر وہ خواہش مند نظر آتے ہیں۔ چونکہ ہم بات کرنا چاہتے ہیں ۱۸۵۷ء کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی، لہٰذا اس وقت کی کسی حد تک تصویر کشی لارڈ میو کے ایما پر ۱۸۷۱ء میں لکھی گئی کتاب ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔
لارڈ میو جسے مسلمانوں کی تعلیم سے خاص دلچسپی تھی، نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ مسلمان حکومتِ وقت سے کیوں بد دل ہیں اور ان کی تسکین کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اس مسئلہ کی توضیح کے لیے ڈاکٹر سرولیم ہنٹر نے یہ کتاب لکھی تھی۔ کتاب کے چوتھے باب میں انہوں نے مسلمانوں کی اقتصادی حالت اور ان کی مشکلات پر بحث کی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ: مسلمانوں کوحکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک شکایت یہ ہے کہ حکومت نے ان کے لیے تمام اہم عہدوں کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دوسرے ایک ایسا طریقۂ تعلیم جاری کیا ہے، جس میں ان کی قوم کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ تیسرے قاضیوں کی موقوفی نے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے، بیکار اور محتاج کردیا ہے۔ چوتھے یہ کہ ان کے اوقاف کی آمدنی جو ان کی تعلیم پر خرچ ہونی چاہیے تھی، غلط مصرفوں پر خرچ ہورہی ہے۔

ڈاکٹر ہنٹر نے ان شکایات پر بالتفصیل بحث کی ہے اور مسلمانوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا ہے۔ بالخصوص مشرقی بنگال کے خاندانی مسلمانوں کی پستی اور افلاس کے متعلق وہ لکھتے ہیں: اگر کوئی سیاست دان دارالعوام میں سنسنی پیدا کرنا چاہے تو اس کے لیے کافی ہے کہ بنگال کے مسلمان خاندانوں کے سچے سچے حالات بیان کردے۔ یہی لوگ کسی زمانے میں محلوں میں رہتے تھے۔ گھوڑے گاڑیاں، نوکر چاکر موجود تھے۔ اب یہ حالت ہے کہ ان کے گھروں میں جوان بیٹے اور بیٹیاں، پوتے اور پوتیاں، بھتیجے اور بھتیجیاں بھرے پڑے ہیں۔ وہ منہدم اور مرمت شدہ مکانوں اور خستہ برآمدوں میں قابل رحم زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں اور روز بروز قرض کی دلدل میں زیادہ دھنستے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی ہمسایہ ہندو قرض خواہ ان پر نالش کرتا ہے اور مکان اور زمینیں جو باقی تھیں، ان کے قبضے سے نکل جاتی ہیں اور یہ قدیمی مسلمان خاندان ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا ہے۔
دوسری جانب ہنٹر نے سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب کا مقابلہ دوسری قوموں کے ساتھ کیا ہے۔ ساتھ ہی مال اور منصفی کے محکموں میں مسلمانوں کی حالتِ زار کے تعلق سے لکھا: لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی کا صحیح نقشہ اِن محکموں میں دیکھا جاسکتا ہے، جن میں ملازمتوں کی تقسیم پر لوگوں کی اتنی نظر نہیں ہوتی۔ ۱۸۶۹ء میں ان محکموں کا یہ حال تھا کہ اسسٹنٹ انجینئروں کے تین درجوں میں ۱۴؍ہندو اور مسلمان صفر۔ امیدواروں میں ۴ ہندو، ۲؍انگریز اور مسلمان صفر۔ سب انجینئروں اور سپروائزروں میں ۲۴ ہندو اور ایک مسلمان۔ اکاؤنٹس میں ۵۰ ہندو اور مسلمان معدوم، وغیرہ۔ سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ہائی کورٹ کے وکیلوں کی فہرست بڑی عبرت آموز ہے۔ ایک زمانہ تھا، یہ پیشہ بالکل مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے بعد ۱۸۵۱ء تک مسلمانوں کی حالت اچھی رہی اور مسلمان وکلا کی تعداد ہندوؤں اور انگریزوں کی مجموعی تعداد سے کم نہ تھی۔

لیکن ۱۸۵۱ء سے تبدیلی شروع ہوئی۔ اب نئی طرز کے آدمی آنے شروع ہوئے اور امتحانات کا طریقہ بھی بدل دیا گیا۔ ۱۸۵۲ء سے ۱۸۶۸ء تک جن ہندوستانیوں کو وکالت کے لائسنس ملے۔ ان میں ۲۳۹ ہندو تھے اور ایک مسلمان۔ وہیں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگلے دن ایک بڑے سرکاری محکمے میں دیکھا گیا کہ سارے ڈپارٹمنٹ میں ایک بھی اہلکار ایسا نہ تھا، جو مسلمانی زبان سے واقف ہو (بنگال کے مسلمان جو زبان بولتے تھے، وہ عام بنگالی سے اس قدر مختلف تھی کہ اسے ایک علیحدہ نام مسلمانی سے یاد کیا گیا)۔ اور حقیقتاً اب کلکتہ میں شاید ہی کوئی سرکاری دفتر ایسا ہو گا، جس میں کسی مسلمان کو دربانی، چپڑاسی یا دواتیں بھرنے، قلم درست کرنے کی نوکری سے زیادہ کچھ ملنے کی امید ہوسکتی ہے۔

چنانچہ انہوں نے کلکتہ کے ایک اخبار کی شکایت نقل کی ہے۔ ’’تمام ملازمتیں اعلیٰ ہوں، ادنیٰ، آہستہ آہستہ مسلمانوں سے چھینی جارہی ہیں۔ اور دوسری قوموں بالخصوص ہندوؤں کو بخشی جاتی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ رعیت کے تمام طبقوں کو ایک نظر سے دیکھے، لیکن اب یہ حالت ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں سے علیحدہ رکھنے کا کھلم کھلا اعلان کرتی ہے۔ چند دن ہوئے کمشنر صاحب نے تصریح کردی کہ یہ ملازمتیں ہندوؤں کے سوا کسی کو نہ ملیں گی‘‘۔

ڈاکٹرہنٹر یہ بھی لکھتے ہیں: جب ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں سے بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی حیثیت سے زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھا، لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔ ڈاکٹر ہنٹر نے جو حالات لکھے ہیں، وہ زیادہ تر بنگال کے متعلق ہیں۔ لیکن شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی کیفیت اس سے بہتر نہیں تھی۔ بالخصوص جنگ آزادی کے بعد تو ان کی حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ اس زمانے میں سرسید نے بھی ہندوستان چھوڑ کر مصر میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا تھا۔

گفتگو کے پس منظر میں تین باتوں پر غور کیا جانا چاہیے۔ ایک یہ کہ جو یہ کہا جاتا ہے کہ آج کی دیش بھگت پارٹی یا ان کے ہمنوا اس زمانے میں جنگ آزادی میں کیوں شریک نہیں ہوئے، تو وہ کیوں کر نہیں ہوں گے؟ دوسری، جنگ آزادی میں مسلمانوں کے حددرجہ شرکت کے پس پشت کیا توقعات وابستہ رہی ہوں گی؟ تیسری یہ کہ سلسلۂ حالات و واقعات اورموجودہ حالات کے تغیرات کے نتیجہ میں، مسلمانوں کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات، فکر و نظریہ اور ایک زندہ و پائندہ 
قوم کے ناطے، موجودہ حالات میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟

شہنواز فاروقی

Post a Comment

0 Comments