Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مودی مسلمانوں کے قتل عام پر معافی مانگیں : کلدیپ نئیر

میں راولپنڈی سے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے بیٹے ولی خان سے
ملنے  پشاور جا رہا تھا کہ راستے میں ایک کپ چائے پینے کے لیے رک گیا۔ ریڈیو پر بی بی سی کی خبر چل رہی تھی کہ سکھ باڈی گارڈ نے وزیراعظم اندرا گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اب میرے لیے آگے جانے کا کوئی سوال نہیں تھا، میں واپس لاہور کی طرف بھاگا لیکن دہلی جانے والی پرواز میرے پہنچنے سے پہلے ہی روانہ ہو چکی تھی۔ جب میں دہلی کے پالم ایئرپورٹ پر اترا تو ایئرپورٹ بالکل اجاڑ دکھائی دے رہا تھا۔ امیگریشن کے دو سکھ افسر کاؤنٹر پر کھڑے تھے۔

میں نے کسی کو کہتے سنا کہ سکھ ملازمین کو حفاظت سے گھر پہنچانے کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ میں بدحواس ہو گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ایک ہندو افسر نے جو کاؤنٹر پر کھڑا تھا مجھے بتایا کہ دہلی میں سکھوں کا قتل عام ہو گیا ہے۔ میرے وہم و گماں میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہندو سکھوں کو مار ڈالیں گے کیونکہ بھارتی آئین میں سکھوں کو بھی مذہباً ہندو قرار دیا گیا ہے۔ مزید برآں چند سال پہلے تک ہندوؤں اور سکھوں میں باہمی شادیاں معمول کی بات تھی۔ خود میری ماں کا تعلق سکھ فیملی سے تھا۔
جب میں پالم ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو چاروں طرف راکھ کے ڈھیر بکھرے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ آج صبح ایک سکھ کو زندہ جلا دیا گیا ہے۔ کئی سال بعد جب میں راجیہ سبھا کا رکن تھا تو میں نے 1984ء میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کے قیام کا سوال اٹھایا جو ان تمام واقعات کی تحقیقات کرے۔ ایل کے ایڈوانی نے میری حمایت کی۔
جسٹس جی ٹی ناناوتی کو، جس نے گجرات میں ہونے والے قتل عام کی تحقیقات کی تھیں، متذکرہ کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ تاہم جسٹس ناناوتی نے جو رپورٹ حکومت کو پیش کی اس میں سکھوں کے خلاف فسادات کے ذمے داروں کی نشاندہی سے گریز کیا گیا تھا۔ جب میں نے بعدازاں ان سے ملاقات کی اور شکوہ کیا کہ انھوں نے فساد کے ذمے دار کے نام کی نشاندہی کیوں نہیں کی تو انھوں نے اپنے کندھے اچکا کر کہا کہ سب جانتے ہیں کہ اس فساد کے پیچھے کون تھا۔ ان کی بات درست تھی لیکن اگر وہ رپورٹ میں ذمے دار کی نشاندہی کر دیتے تو اس سے بہت فرق پڑ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ آر کے رگھوون نے 10 مقدمات کی تفتیش کی جس کا نتیجہ قدرے بہتر نکلا کیونکہ رگھوون کی شہرت ایک غیرمعمولی پولیس افسر کی تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت کو بھی نریندر مودی کا نام لینے کی جرأت نہ ہوئی جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے حالانکہ عدالت کے پاس وقوعے کی مکمل تفصیلات موجود تھیں۔

کانگریس کے سابق رکن اسمبلی ایشان جعفری کے مقدمے پر عدالتی کارروائی جاری تھی جو کہ ان 69 افراد میں شامل تھا جنھیں احمد آباد کی گلبرگہ سوسائٹی میں زندہ جلا دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کا بھی خاطر خواہ نوٹس نہ لیا حالانکہ یہ وہی سپریم کورٹ تھا جس نے نریندر مودی کے بارے میں فیصلہ لکھتے ہوئے قرار دیا تھا ’’جب روم جل رہا تھا تو نیرو بنسری بجا رہا تھا۔‘‘ جس قسم کی رپورٹ ایس آئی ٹی نے جمع کرائی وہ ان دو ریٹائرڈ ججوں کے بیان سے تیار کی جا سکتی تھی جس کو نظر انداز کر دیا گیا۔

ان دونوں نے اس وقت کے وزیرداخلہ ہرن پانڈیہ کا انٹرویو لیا تھا جس کو بعد میں  قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ اس نے سچ بولنا شروع کر دیا تھا۔ ان دو ججوں کے مطابق جن میں سپریم کورٹ بنچ کے جسٹس پی بی ساونت اور بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ایچ سریش شامل تھے۔ جن کو پانڈیہ نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نریندر مودی نے پولیس کو ہدایت کر رکھی تھی کہ ہندوؤں کو ’’فری ہینڈ‘‘ دیا جائے تا کہ فسادات کے دوران وہ اپنا غصہ نکال سکیں۔ دونوں جج پیپلز ٹریبونل کے رکن تھے جس نے نریندر مودی کو ذمے دار قرار دیا تھا۔ اور یہ بات ہے کہ وزیراعلیٰ کے خلاف ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی حالانکہ یہ بات بھی ان کے حق میں نہیں جاتی کیونکہ انھوں نے لوگوں کے ذہن میں اس قدر خوف طاری کر دیا تھا کہ کسی کو پولیس اسٹیشن جانے کی جرأت ہی نہیں ہوئی جو کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے لیے بطور خاص کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی۔

لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے مودی نے احمد آباد کی سڑکوں پر ان 49 ’’کار سیوکوں‘‘ کی لاشوں کا جلوس نکلوانے کا انتظام بھی کیا جنھیں ٹرین پر گودھرہ سے آتے ہوئے جلا دیا گیا تھا۔ اس ہولناک ڈرامے کے نہایت بھیانک نتائج نکلے حتیٰ کہ گجرات میں آج بھی مسلمان اس دھڑکے میں مبتلا ہیں کہ ان پر کبھی بھی حملہ کیا جا سکتا ہے۔ انھیں یہ بات نہیں بھولی کہ کس طرح ان کی کمیونٹی کے دو ہزار لوگوں کو ہلاک کر دیا گیا جب کہ کئی ہزار مسلمانوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ بعض مسلمانوں نے واپس اپنے علاقے میں آنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے دیکھا کہ جہاں ان کے آباؤ اجداد صدیوں سے رہتے آئے تھے انھیں وہاں پر قبول نہیں کیا گیا۔

یہ درست ہے کہ گجرات کے ہولناک واقعات نے پوری قوم کو دہلا کے رکھ دیا تھا لیکن عوام اور میڈیا کی طرف سے بھرپور مذمت کے باوجود مودی نے کسی تاسف کا اظہار نہیں کیا چہ جائیکہ وہ معافی مانگتے۔ انھوں نے ’سوری‘ کہنے سے انکار کر دیا بلکہ اپنی ریاست کے بڑے شہروں کی ’’سدبھاونا‘‘ یعنی خیرسگالی دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مودی کو بہت سی چیزیں چھپانا پڑی ہیں۔ قتل کے خصوصی واقعات جب  ان کے خلاف ثابت ہو گئے کیونکہ ان میں ریاست کا ہاتھ واضح طور پر نظر آنے لگا تھا۔ سنجے بھٹ جیسے بہادر پولیس افسروں نے مودی کی ناراضگی کا خطرہ مول لینے کے باوجود سچ بولا جس پر بھٹ کے خلاف ریاستی جبر کا مظاہرہ کیا گیا۔ وہ اکیلا ہی یہ مصیبت جھیل رہا ہے اور گجرات کا ہائی کورٹ بھی اس کی مدد کو نہیں پہنچا۔ اس کے باوجود بھٹ نے اپنے بیان حلفی میں لکھا ہے کہ مودی نے اس کے پولیس افسروں کو بطور خاص ہدایت کی تھی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اپنا پورا غصہ نکالنے دیا جائے۔

جہاں تک سکھوں کے معاملے کا تعلق ہے تو وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے 1984ء کے فسادات پر معافی مانگ لی ہے لیکن گجرات احمد آباد کے فسادات پر مودی اور اس کی پارٹی نے ایسا نہیں کیا۔ اب چونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں لہٰذا انھیں جرات کر کے 2002ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات پر معافی مانگنی چاہیے جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ آخر مسلم کش اور سکھ کش فسادات کے بارے میں معافی مانگنے میں اتنے سال گزرنے کے باوجود اس قدر ہچکچاہٹ کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن ہی نہیں لیا گیا جن کے ہاتھ انسانی خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ بی جے پی نے انھیں گجرات میں بچایا جب کہ کانگریس نے دہلی اور دیگر مقامات پر ان کا تحفظ کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ دونوں پارٹیاں اس انتظامیہ کو تحفظ دے رہی ہیں جس نے کہ ان خوں ریز فسادات کی منصوبہ بندی کی۔

کلدیپ نئیر
(ترجمہ: مظہر منہاس)

Post a Comment

0 Comments