Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

حامد میر کمیشن رپورٹ

19 اپریل 2014 کو سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنے والے تاریخ کے اعلیٰ ترین عدالتی کمیشن نے ایک سال اور آٹھ ماہ بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹھوس شواہد دستیاب نہ ہونے کے باعث کمیشن ملزمان کی نشاندہی اور واقعہ کے مکمل حقائق و ذمے داروں کا تعین نہیں کر سکتا ۔اس حملے کی سنگینی اور اس کے نتیجے میں قومی سلامتی کے اداروں پر لگائے گئے براہ راست الزامات کے بعد یہ سمجھا گیا کہ اس کی تحقیقات سپریم کورٹ کے تین ججوں کے ہی بس کی بات ہے ۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس اقبال حمید الرحمن نے تحقیقات کے دوران پولیس ، خفیہ اداروں اور فوج کے افسران اور میڈیا کے نمائندوں کے بیانات قلمبند کیے ۔

بیان ریکارڈ کرانے والوں میں آئی ایس آئی کے افسران کے علاوہ حامد میر سمیت چندصحا فی بھی شامل ہیں ۔ گزشتہ روز حامد میر کمیشن کی رپورٹ اچانک ہی سوشل میڈیا پر لیک کر دی گئی جس پر کمیشن اراکین کے دستخط موجود نہیں مگر اس رپورٹ میں شامل گواہوں کے بند کمرے کی بیانات (بشمول راقم کے حلفیہ بیان کے) سے واضح ہے کہ یہ رپورٹ غیر سرکاری ہونے کے باوجود غلط نہیں ۔اس رپورٹ کو ویسے ہی ”جاری“ کیا گیا جیسے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو کیا گیا تھا ۔ ایسا کرنے سے سیاسی حکومتیں اپنی بزدلی کو چھپاتے ہوئے ان اداروں پر عوامی دباو¿ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں جن پر ان کا آئینی اور قانونی اختیار نہیں چلتا ۔ کسی سرکاری دستاویز کے غیر سرکاری حصول کے بعد اس کو مفاد عامہ میں بصورت خبر شائع کرنا اور پھر اس کا تجزیہ کرنا ایک صحافتی معمول ہے ۔
بدقسمتی سے حامد میر کمیشن کی لیک شدہ اس رپورٹ پر کسی ٹی وی چینل نے بریکنگ یا روغنی نیوز تو کیا سادہ نیوز بھی چلانے کی ہمت نہیں کی ۔ اس کی وجہ میڈیا کی صنعت میں گروہ بندی ہے تو دوسری طرف دوسرے صحافی حضرات جمہوری عمل ، آئین کی بالادستی اور آزادی رائے کے بنیادی حق کی خاطر آواز بلند کرنے پر مجبور ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کی بزدلی اور آئین شکن قوتوں کی حوصلہ افزائی کا رجحان اب ہماری عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔

حامد میر کمیشن میں جہاں ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور ان کے عدم تعاون کا ذکر کیا گیا ہے وہاں بہت سی ایسی اہم معلومات بھی ریکارڈ پر لائی ہیں جن کا جائزہ لینے کے بعد ملزمان کی شناخت نہ سہی مگر ان کی نشاندہی ضرور کی جاسکتی تھی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حامد میر اور جائے وقوعہ کے عینی شاہدین حملہ آوروں کا سراغ نہیں دے سکے ۔ اب اس کا کیا مطلب لیا جائے ؟کیا حامد میر کو گولیوں کی بوچھاڑ میں گاڑی روک کر حملہ آوروں کے ساتھ کوئی ٹاک شو کرنا چاہیے تھا ؟ یا پھر وہ فرار ہوتے ملزمان سے ان کا شناختی کارڈ مانگنے کی صدا لگاتے ؟ اگر ٹھوس ثبوت کئی دن تک بے ہوش رہنے والے حامد میر نے یا کراچی کے پہلے سے ڈرے ہوئے اور محتا ط کسی عینی شاہد نے ، دینا تھا تو پھر سپریم کورٹ کے تین طاقتور ججوں کے کمیشن کی کیا ضرورت تھی۔

کمیشن نے اپنی اس اکتالیس صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں دستیاب معلومات اور بیانات کو تفصیل کے ساتھ ریکارڈ پر تو لایا مگر ان معلومات اور بیانات میں موجود کئی واضح اشاروں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ کمیشن نے پولیس کی تفتیش کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کراچی ائیر پورٹ کی سکیورٹی ویڈیو میں دیکھے گئے مشکوک ا فراد کی شناخت کے لیے نادرا سے آج تک رابطہ ہی نہ کیا گیا۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے محکموں کے اعلٰی افسران کی موجودگی میں سکیورٹی ویڈیو میں دیکھے جانے والے مشکوک افراد کے ٹیلی فون رابطوں کی نگرانی رپورٹ  (geo fencing) بھی وعدوں کے باوجود آج تک حتمی شکل میں پیش نہیں کی جا سکی۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ ا یسی اہم معلومات کے حصول میں ناکامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی اور فرائض سے مخلص نہ ہونے کا واضح ثبوت ہے اور ان اداروں کے درمیان رابطوں اور تعاون کی عدم موجودگی کا مظہر ہے۔ اہم ترین رائے یہ دی گئی کہ ان حالات میں نامناسب ارادوں (Improper Consideration)کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے تین معزز جج ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں تو پھر اس کو محکموں کی نااہلی کہا جائے یا اس اعلٰی ترین عدالتی کمیشن کی بے بسی اور بے اختیاری۔

آخر آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ نے بھی تو محض حلفیہ بیان بھجوا دیا تھا او ر وہ خود کمیشن میں پیش نہ ہوئے اور نہ ہی براہ راست ان سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کا جواب حاصل کیا گیا۔ اور تو اور مشکوک افراد کے ٹیلی فون رابطوں کی (Geo fencing) کی حتمی رپورٹ تک کمیشن کے سامنے نہ رکھے جانے کو کیا سمجھا جائے؟ ہماری سیاسی حکومتوں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صحافیوں کو درپیش عدم تحفظ کی اس صورتحال کے باوجود جن لوگوں نے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان دئیے ، ان لوگوں کے قانون سے تعاون کرنے کے حوصلے پر ان کا شکریہ ادا کرنے یا انکی تعریف کرنے کی بجائے کمیشن نے الٹا میڈیا کے کردار کو بھی غیر ضروری طور پر نشانہ بنا یا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ کمیشن صحافیوں کو اپنے ملک او ر اپنی قوم سے اس ریاستی وفا داری کی تقلید کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جس کے علمبردار صرف ہتھیار بردار ہی ہو سکتے ہیں اور جس کے بغیر پاکستان کے شہریوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کے اس منطق کو کیا سمجھا جائے کہ جب وہ اپنی رپورٹ میں فرماتے ہیں کہ قومی سلامتی سے متعلق میڈیا کی خبروں پر خفیہ اداروں کی تشو یش کی بنیاد آئین کی شق 5 ہے جس میں پاکستانیوں کی ریاست سے وفاداری لازم ہے۔ جناب والا آئین کی شقوں کی تشریح عدالت کا کام ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا متعلقہ اداروں کا جس میں عدالتی نظام اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

کسی صحافی یا شہری کو غدار سمجھ کر یا سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی کردار کشی کر کے اس کی ماورائے عدالت جان لینا کسی خفیہ یا غیر خفیہ ، سرکاری یا غیر سرکاری، فرد ، گروہ یا ادارے کا کام نہیں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس رپورٹ میں آئین کی ایک اور دلچسپ تشریح کی ہے جس کے مطابق گرفتاری ا ور حراست کے خلاف شہریوں کو د ستیاب آئینی تحفظ ان لوگوں کے لیے نہیں جو دشمن سے ہدایات لے کر ملکی سلامتی اور یکجہتی کے خلاف کام کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی کے ملک دشمن ہونے کا فیصلہ کوئی جج کریگا یا جرنیل ؟ 

معزز جج صاحب نے اسی منطق کا اطلاق آئین میں درج آزادی رائے پر بھی کر دیا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس منطق کے بعد اب قانون نافذ کرنے والے اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹس بانٹنے والے ادارے از خود وطن دشمن شہریوں اور صحافیوں کو ماورائے عدالت کیفر کردار تک پہنچانے کے مجاز ہوں گے۔ اس سے زیادہ آئین کی بالادستی اور کیا ہو گی۔ شاہد ایسی رپورٹیں ہی اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا زینہ ثابت ہوتی ہیں ۔ صحافی سلیم شہزاد سے متعلق عدالتی کمیشن کی ایک پرانی رپورٹ بھی جلد ہی اس بات کو ثابت مختصر یہ کہ حامد میر کمیشن رپورٹ کے بعد پاکستانی صحافی پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ہمارے تین آئینی ریاستی ستونوں کی واضح بزدلی ہے۔

مطیع اللہ جان 


Post a Comment

0 Comments