Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز

سی آئی ڈی پولیس کے مرحوم ایس ایس پی اسلم خان نے 2003 میں عزیر کو سجاول میں واقع اس کی آبائی زمین سے گرفتار کیا تھا لیکن کراچی سینٹرل جیل میں محض دو گھنٹے گزارنے کے دوران پیپلز پارٹی کے کچھ کارکن اسکے ساتھ رہے جنہوں نے رہائی کے بعد اسے محفوظ پناہ گاہ بھی فراہم کی۔

پے رول پر رہائی کے دوران عزیر نے سماجی کام کرنے شروع کر دیے اور علاقے میں کئی اسکول کھولے لیکن دوسری جانب لیاری کے مرکزی بازاروں میں بھتہ خوری کا ناسور انتہائی تیزی سے پروان چڑھنے لگا جسکے نتیجے میں لوگ اسے انکار کرتے ہوئے خوف محسوس کرنے لگے۔ پولیس ان کاونٹر میں عبدالرحمان ڈکیت موت کے بعد عزیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کا نیاسربراہ مقرر ہوا۔ 

غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔ ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عزیر بلوچ نے انکی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔
ایک ہفتے بعد یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عزیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عزیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں اس کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دیگی۔ مگر کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔آنیوالے دنوں میں عزیر بلوچ مزید راز اگلے گا، بہت سے نام لے گا، ہو سکتا ہے سلطانی گواہ بھی ہو جائے اور جب ایک روز اس کا سینہ رازوں سے خالی ہو جائےگا تو پھر اس کا دل اکتا جائیگا اور ایک دن وہ فرار ہونے کی کوشش کریگا اور اس کوشش میں مارا جائےگا اور پھر کسی نئے عزیر بلوچ کی نئی فائل نئے کام کیلئے کھل جائےگی۔

یہ کس قدر بھیانک صورتحال ہوتی ہے کہ جب تک ان مہروں سے سیاسی جماعتیں کام لیتی رہتی ہیں تب تک انہیں مکمل تحفظ فراہم ہوتا ہے اسکے بعد انکے قریبی دوست بھی انہیں پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال آج سب کے سامنے ہے کہ عزیر بلوچ کو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے علاوہ اسے پورے ملک میں کوئی شخص نہیں جانتا، جیسے صولت مرزا کو ایم کیو ایم کے تمام لیڈروں نے پہچاننے سے انکار کردیا تھا حالانکہ ان میں وہ بھی شامل تھے جو دن رات اسے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

 آج عزیر کا سب سے قریبی دوست شرجیل میمن بھی کہتا ہے میں اسے نہیں جانتا، وہ وزیراعلیٰ سندھ جو حلف اٹھا کر سب سے پہلے عزیر کے پاس گیا تھا اب کہتے ہیں میں اسے نہیں جانتا ، خورشید شاہ کہتے سلفی کے شوق میں کوئی تصویر بن گئی ہوگی اور اسکی بیوی کے موبائل میں موجود فریال تاپور نے جن میں اسکے بچوں کو اٹھایا ہوا ہے غلطی سے کہیں سے آگئی ہو گی۔ اسے کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ اب عزیر ایک سردار نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے پاس مجرم شخص ہے، اب یہ ڈرا کر دھمکا کر اور پیار سے کہہ کر ہزاروں ووٹ نہیں دلوا سکتا بلکہ اب اسے خود ضرورت ہے کہ کوئی اس کا تحفظ کرے مگر کوئی نہیں کرےگا جیسے صولت مرزا کا کسی نے نہیں کیا تھا۔

 صولت مرزا کی بیوی کے ساتھ لوسٹوری اور جذبات پڑھ کر بہت سارے لوگ روئے تھے۔ مجھے یقین ہے عزیر کی بیوی بھی سینکڑوں لوگوں کو رلائے گی مگر دستور یہی ہے کہ ہم آپ کو تب جانتے ہیں جب آپ کام کے ہیں ورنہ آپ کون اور میں کون؟ خورشید شاہ صاحب کو پتہ ہے اس ملک میں جمہوریت کے نام پر سب چھپ جاتا ہے، شور مچانے سے وہ بچ جائینگے ورنہ کیا موبائل کا ریکارڈ موجود نہیں کہ کون کونسے رہنما رابطے میں تھے۔

 کیا لیاری کے ہزاروں گواہ موجود نہیں ہیں؟ کیا میڈیا پر دیئے گئے کئی بیانات گواہ نہیں ہیں مگر ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے جیسے صولت مرزا کی بیوی کی طرف سے رابطوں کے ثبوتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی والے جب تک عزیر سے فائدہ اٹھا سکتے تھے جانتے تھے مگر جب انہیں اسکے ساتھ دینے میں نقصان کا سامنے ہوسکتا ہے تو وہ اسے کہاں جانتے ہیں، یہ لوگ تو وہ ہیں ماضی میں آصف زرداری کو پیپلزپارٹی میں کالی بھِیڑ قرار دیتے تھے، انہیں تحفظات تھے مگر بی بی کے بعد انکے تمام تحفظات خود ہی دور ہو گئے کیونکہ انکے مفاد اس شخص سے وابستہ ہوگئے، ویسے تو ناممکن ہے زرداری صاحب عزیر کی طرح پکڑے جائیں توکل کو یہ پھر انہیں نہیں جانتے ہونگے۔

اگر فائدہ ہے تو مرا ہوا بھٹو بھی بہت کام کی چیز ہے مگر جب فائدہ نہیں ہے توزندہ انسان کی بھی کوئی نہیں ہے۔۔ صولت مرزا کی پی ایچ ڈی بیوی یا عزیر بلوچ کی پردوں میں رہنے والی ثمینہ عزیر جتنے مرضی آنسو بہائیں، جتنے مرضی ثبوت لے آئیں یہ لوگ نہیں مانیں گے کیونکہ اپنے پاﺅں پر کوئی بھی کلہاڑی نہیں مارتا۔

اس وقت سیکیورٹی اداروں خصوصاََ ہماری فوج کو چاہیے کہ کمال حکمت عملی سے ان سیاسی جماعتوں کے اندر پائے جانے والے عسکری ونگز کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرے اداروں کو چاہیے کہ عزیر بلوچ جیسے جتنے بھی کردار ہیں جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ان سب کو عوام کے سامنے لایا جائے، وہ بے شک ن لیگ میں ہوں، پی پی میں ہوں، ایم کیو ایم میں ہوں، جماعت اسلامی میں ہوں، تحریک انصاف میں ہوں یا جمعیت علمائے اسلام میں ہوں ان کا صفایا ضروری ہے۔ 

ورنہ صاف اور شفاف سیاست کا تصور کرنا بھی محض خام خیالی ہے۔ اور ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آج بھی پسند اور نا پسند کو ترجیح دی گئی تو میرے خیال میں ہم مزید تباہی کی طرف دھکیل دیے جائینگے اور اداروں کے کردار بھی عوام کی نظروں میں مشکوک ہو جائینگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا جانا چاہیے جہاں جرائم پیشہ افراد پناہ لیے ہوئے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ۔ اگر ادارے ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو واقعتاََ پاکستان میں تشدد اور بدلے کی سیاست کو دفن کیا جا سکے گا ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔ اور ایسے مواقع اور آپریشن بھی روز روز نہیں ہوا کرتے ۔ 

محمد اکرم چوہدری


Post a Comment

0 Comments