Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اس حمام میں سب نظر آتا ہے

ایک موقر پاکستانی انگریزی روزنامے کے مطابق اسلام آباد کی ڈپلومیٹک انکلیو میں قائم بعض غیر ملکی سفارتخانے کس طرح وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ سمیت دیگر حساس عمارات میں ہونے والی گفتگو سے باخبر رہتے ہیں ۔اس بابت انٹیلی جینس بیورو ( آئی بی ) کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ داخلہ کو بریفنگ دیں گے۔

سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک کا کہنا ہے کہ دو ہزار بارہ میں کابینہ کا ایک اجلاس اس لیے ملتوی کرنا پڑا کیونکہ قومی انٹیلی جینس ایجنسیاں وزیرِ اعظم ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ڈپلومیٹک انکلیو سے آنے والے طاقتور سگنلز کو روکنے میں ناکام رہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اس سے پہلے آئی بی کے سربراہ کو سابق وزیرِ خزانہ سلیم مانڈوی والا کا ذاتی فون ٹیپ کرنے کی شکایت پر وضاحت کے لیے طلب کر چکی ہے۔آئی بی کے چیف نے اس وقت دعوی کیا کہ ان کا ادارہ سوائے دھشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے کسی کے فون وزیرِ اعظم کی اجازت کے بغیر ٹیپ نہیں کرسکتا۔ جب انھیں سلیم مانڈوی والا نے آئی بی کے ایک انٹرنل میمو کی کاپی پیش کی جس میں ان کے ذاتی فون کا مکمل ڈیٹا حاصل کرنے کی ہدائیت کی گئی تھی تو آئی بی کے سربراہ نے پہلے تو اسے جعلی میمو قرار دیا اور پھر وعدہ کیا کہ وہ دس روز کے اندر اس کی حقیقت کے بارے میں کمیٹی کو آگاہ کریں گے۔ مگر وہ دس روز کبھی نہ آ ئے۔

سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے کوئی دو برس پہلے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بھٹو صاحب لاکھ طاقتور سہی مگر اپنے دفتر اور بیڈروم کے فون سیٹس یا دیواروں یا فرنیچر میں نصب جاسوسی کے آلات نہیں ہٹوا سکے۔ بھٹو صاحب کو جب بھی کوئی اہم بات کرنا ہوتی تو وزیرِ اعظم ہاؤس کے لان میں ٹہلتے ہوئے کرتے۔
انیس سو ستتر میں بھٹو حکومت کے خلاف بننے والے قومی اتحاد کے پہلے سیکرٹری جنرل رفیق باجوہ کو اس شبہے میں عہدے سے ہٹا کر پروفیسر غفور احمد کو سیکریٹری جنرل بنایا گیا کہ باجوہ صاحب ’ ڈبل ایجنٹ‘ ہیں۔
جنرل ضیا کے خلاف چلنے والی تحریکِ بحالیِ جمہوریت کی مجلسِ قائمہ جو بھی فیصلے کرتی ان کی تفصیلات ایک گھنٹے کے اندر جنرل ضیا کی میز پر ہوتی تھیں۔

آج کی دنیا میں کسی کا کسی کو جاسوسی سے روکنا اور کسی کا کسی کو جاسوسی نہ کرنے کا یقین دلانا سوائے وقت کے زیاں کے کچھ بھی نہیں۔اگر ہم پے کسی نے اب تک ہاتھ نہیں ڈالا یا بلیک میل نہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ۔آسمان پر خدا ہے اور زمین پر نائبِ خدا کی انٹیلی جینس ایجنسیاں

میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو برطرف کرنے کا فیصلہ ناقابلِ اعتبار زمین پر نہیں بلکہ طیارے میں پرواز کے شور کی سہولت میں مشاورت کے بعد فائنل کیا تھا۔

امریکی جاسوسی نظام میں شگاف ڈالنے والے جولین اسانژ کے مطابق ای میل سسٹم اور سوشل میڈیا کے طفیل ہر کوئی سی آئی اے سمیت ہر سرکردہ انٹیلی جنیس ایجنسی کے سامنے عریاں ہے۔اس قدر عریاں کہ اب جاسوسی کے آلاتی کان لگانے کی ہی ضرورت نہیں۔ اگر امریکی مخبر جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا ذاتی فون پانچ برس تک ٹیپ کر سکتے ہیں تو باقی وی وی آئی پیز کیا بیچتے ہیں۔ یہ وہ راز ہے جسے سائبر کمیونکیشن سے واقف ایک اوسط درجے کا دہشت گرد بھی جانتا ہے۔

کیا بھارتی خفیہ ایجنسی را نے کرگل مہم کی بابت بیجنگ میں موجود جنرل پرویز مشرف اور پنڈی کی فوجی ہائی کمان کے درمیان گفتگو کی وائر ٹیپنگ نہیں کی۔ ممبئی حملوں کے دہشت گردوں اور ہینڈلرز کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کی ریکارڈنگ آپ ابھی انٹرنیٹ پر سرچ کر کے سن سکتے ہیں۔
پاکستانی انٹیلی جینس ایجنسیوں سمیت اب کسی کو شرلک ہومز اور عمران سیریز پڑھنے اور جیمز بانڈ فلمیں دیکھنے کی حاجت نہیں۔
بقول میر صاحب

آنکھ ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

آج کی دنیا میں کسی کا کسی کو جاسوسی سے روکنا اور کسی کا کسی کو جاسوسی نہ کرنے کا یقین دلانا سوائے وقت کے زیاں کے کچھ بھی نہیں۔اگر ہم پے کسی نے اب تک ہاتھ نہیں ڈالا یا بلیک میل نہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ۔آسمان پر خدا ہے اور زمین پر نائبِ خدا کی انٹیلی جینس ایجنسیاں ۔۔۔۔

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments