Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایف۔16طیاروں کی فراہمی پر بھارت کے پیٹ میں مروڑ کیوں؟

امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منظوری پر بھارت کو مروڑ اٹھنے لگے۔ بھارتی خارجہ سیکرٹری ایس جے شنکر نے اوباما انتظامیہ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی سفیر رچرڈ ورما کو طلب کرکے شدید احتجاج کیا اور فیصلے پر ناراضی ظاہر کی۔ بھارت نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد بھارت کے خلاف براہ راست استعمال ہوگی۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا بھی پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہا۔
امریکہ کی طرف سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پاکستان کے لئے مختص امداد کی بھارت نے شدید مخالفت کی ہے۔ بھارت نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو مالی امداد فراہم نہ کی جائے۔ بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد بھارت کے خلاف براہ راست استعمال ہوگی۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے کہا ہے کہ بھارت نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو 26 کروڑ کی فوجی امداد سمیت 86 کروڑ ڈالر کی امداد کو روکا جائے۔

ہم نے کئی مواقع پر امریکہ پر واضح کیا ہے کہ ایسی تمام امداد بھارت کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ بھارت امریکہ کے اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتا کہ ان طیاروں کی فروخت سے انتہاپسندی کے خلاف جنگ میں مدد ملے گی۔
اکتوبر سے شروع ہونے والے 2017ء کے لئے امریکہ کا مجموعی بجٹ 4 ٹریلین ڈالر ہے۔ اس بجٹ میں پاکستان کے لئے 860 ملین ڈالر مختص کئے گئے ہیں، جن میں سے 26 کروڑ 50 لاکھ ڈالر فوجی سازوسامان، اعانتی فنڈز اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو 8 ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منظوری دیتے ہوئے امریکی کانگرس کو اس حوالے سے بتایا کہ منصوبے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

اِن طیاروں کی قیمت69کروڑ90لاکھ ڈالر ہو گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے بتایا تھا کہ پاکستان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مفاد میں ہے۔ ایک ہفتہ قبل امریکی محکمہ خارجہ نے کانگرس کو بتایا تھا کہ پاکستان کی فضائی کارروائیوں کی صلاحیت بہتر بنانے کے لئے پْرعزم ہے۔

 امریکہ نے پاکستان کے لئے 8 ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منظوری دینے کے علاوہ یہ بھی ہدایت جاری کی کہ پاکستان کو جدید راڈار اور دیگر فوجی سازوسامان بھی فروخت کیا جائے گا، جبکہ اسے تربیت کی سہولت بھی دی جائے گی۔ ایف 16 طیارے لاک ہیڈ مارٹن نے تیار کئے ہیں، ان کے ساتھ ریڈار سمیت دوسرا سازوسامان بھی شامل ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ایف 16 طیاروں کی منظوری کے حوالے سے بھارت کے ردعمل پر افسوس ہوا۔ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی سازوسامان درآمد کرتا ہے۔ پاکستان کسی بھی ملک کے لئے جارحانہ رویہ نہیں رکھتا، تاہم اپنے دفاع سے غافل نہیں ہوسکتا۔ بھارتی لابی اور پاکستان کے حسین حقانی جیسے کچھ’’مہربانوں‘‘ نے ایف16طیاروں کی فروخت رکوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا اور بے سروپا الزامات لگا کر کوشش کی جا رہی تھی کہ اِس سلسلے میں معاہدہ نہ ہو سکے، لیکن اوباما انتظامیہ نے اِس بے بنیاد پروپیگنڈے کا کوئی اثر قبول نہیں کیا اور کانگرس کو بتایا کہ پاکستان سے دفاعی تعاون امریکہ کے مفاد میں ہے اور اس کی بدولت دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی ہو رہی ہے۔

امریکہ کے ساتھ ایف 16طیاروں کی فروخت کا مسئلہ طویل عرصے سے چل رہا تھا۔اس سارے عرصے میں منفی پروپیگنڈہ بھی عروج پر رہا۔ بھارتی لابی اور اس کے زیر اثر ’’پاکستانی لابی‘‘ سرگرم رہی۔ امریکی انتظامیہ کو داد دی جانی چاہئے کہ اس نے کوئی اثر قبول کئے بغیر پاکستان کو ایف16طیارے فروخت کرنے کے حق میں فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کے بعض پہاڑی دشوار گزار علاقے ایسے ہیں،زمینی راستوں سے جن تک رسائی خاصی دشوار ہے۔ یہاں دہشت گردوں نے کمین گاہیں بنا رکھی ہیں، جن پر فضا سے کارروائی کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پاکستان کی فضائیہ نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایف16 طیاروں سے اِن کی کمین گاہوں کے خلاف کارروائی میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان ان طیاروں کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کر رہا تھا، بالآخر اوباما انتظامیہ کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا، اِس معاملے میں تاخیر مخالفانہ پروپیگنڈے سے متاثر ارکان کانگرس کی وجہ سے بھی ہوئی، لیکن بالآخر امریکہ نے اس ڈیل کا فیصلہ کر لیا اور مخالفانہ پروپیگنڈے کو رد کر دیا۔ پاکستان کو امریکہ سے جو محدود تعاون مل رہا ہے، اس کی راہ میں وقتاً فوقتاً رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں۔

 پاکستان انرجی کے جس بحران کا شکار ہے، اس کے مقابلے کے لئے ضرورت تھی کہ پاکستان کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کا حصہ بنایا جاتا، لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا، حالانکہ پاکستان کی قربانیوں کی وجہ سے اْسے بھارت پر بھی ترجیح دینے کی ضرورت تھی اور اس سے پہلے پاکستان کو اس گروپ میں شامل کیا جاتا، لیکن بھارت کو تو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنا لیا گیا، مگر پاکستان کی درخواست کو موخر رکھا گیا۔ حالانکہ پاکستان کا یہ حق ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کی معیشت کو جو نقصان پہنچ چکاہے، اس کا ازالہ کیا جائے، چھوٹے موٹے اقدامات کے ذریعے توانائی کے بحران پر قابو پانا مشکل ہے۔

ریاض احمد چوھدری

Post a Comment

0 Comments