Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاک بھارت تعلقات کہیں نہیں جا رہے

اب یہ بات انہونی نہیں بلکہ معمول ہے کہ جب بھی پاکستان بھارت تعلقات کو معمول کی شاہراہ پر چڑھانے کی کوشش ہوگی تو اس کوشش کو سڑک پر چڑھنے سے پہلے ہی بے یقینی کے روائیتی جنگل کی جانب دھکیلنے کی کوشش بھی ہوگی۔ اس دشمنی سے لاکھوں کا روزگار اور سیکڑوں کا اثر و رسوخ و مفاد وابستہ ہے۔اور کون ہے جو آسانی سے اپنے پیٹ پر لات کھالے یا امن کی صورت میں بے اختیار و غیر متعلق ہونا پسند کرے۔

انیس سو چھیاسی میں پاکستانی سرحد کے نزدیک بھارت نے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں آپریشن براس ٹیک کے نام سے ایک ایسے وقت شروع کیں جب پاکستان مغربی محاذ پر جنگِ افغانستان میں پوری طرح الجھا ہوا تھا اور وہ مشرق کی طرف کوئی نیا عسکری محاذ کھولنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ براس ٹیک سے لاحق خطرات کے توڑ کے لیے پاکستان کو بیشتر فوج بھارتی سرحد پر بھیجنا پڑی۔اس ناوقت کشیدگی کا بخار نیچے لانے کے لیے صدر جنرل ضیا الحق ایک دن کے نوٹس پر جے پور میں انڈیا پاکستان ون ڈے کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے۔

بادلِ نخواستہ وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کو میزبانی کرنا پڑ گئی۔اس کرکٹ ڈپلومیسی کا فائدہ یہ ہوا کہ براس ٹیک فوجی مشقیں مقررہ وقت پر ختم ہوگئیں اور ان مشقوں میں حصہ لینے والے ہزاروں فوجی دستے بخیریت اپنے اپنے مراکز پر لوٹ گئے۔ مگر یہ دباؤ کم ہوتے ہی مشرقی پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں میں ’’ اچانک ’’ اضافہ ہوگیا۔
انیس سو نواسی میں راجیو گاندھی سارک سربراہ ملاقات میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے۔ان کا وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو سے اتفاق ہوا کہ مشرقی پنجاب میں جاری خالصتانی بغاوت کو مدد فراہم کرنے کی پالیسی سے ہاتھ اٹھا لیا جائے۔  دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات کو نشانہ نہ بنانے پر بھی تحریری اتفاق کیا اور سر کریک اور سیاچن کے معاملے کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔

پھر اچانک بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تحریک چل پڑی اور پاکستان کی جانب سے اس تحریک کی بھر پور ’’ اخلاقی و سیاسی مدد ’’ کے اعلان اور بھارت کی جانب سے کشمیر میں پاکستانی جہادی عناصر کی در اندازی کے الزامات سے اٹھنے والی دھول سے بنیادی مسائل پر بات چیت کا دروازہ ایک بار پھر بند ہو گیا۔راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد بھارت میں کمزور مخلوط حکومتیں اس پوزیشن میں نہیں تھیں کہ جامع مذاکرات کی جانب توجہ کر پائیں۔ اگلے آٹھ برس کشمیر میں جاری شدت پسند تحریک کے تناظر میں الزامات و جوابی الزامات کی نذر ہو گئے۔ اس کشیدگی کے پس منظر میں بی جے پی پہلی بار برسرِ اقتدار آتی ہے اور مئی انیس سو اٹھانوے میں پہلے بھارت اور پھر پاکستان جوہری دھماکے کرتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔

مگر ایک برس بعد برف پگھلنی شروع ہوتی ہے اور بھارتی وزیرِِ اعظم اٹل بہاری واجپائی لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس میں تمام ’’ حل طلب مسائل ‘‘ سلجھانے کے لیے لاہور جانے کا عندیہ دیتے ہیں۔ جب واجپائی لاہور پہنچتے ہیں تو ان کی طرح میزبان وزیرِ اعظم نواز شریف بھی اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ دور کسی کمرے میں کرگل کی بلندیوں کو مسخر کرکے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے اور اپنی شرائط پر مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی منصوبہ بندی کے  نقشے میز پر پھیلائے جا چکے ہیں۔

واجپائی نواز شریف ملاقات بظاہر کامیاب رہتی ہے مگر مئی میں کرگل کی بلندیوں سے آنے والی خبریں اعلان نامہِ لاہور کو دفن کر دیتی ہے اور معاملات وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمیشہ سے ہیں۔ لاہور ڈیکلریشن اور پھر کرگل کا معرکہ خارجہ و داخلہ معاملات میں ’’ بااختیاری’’کی ضد کرنے والے وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کی قربانی لے کر ہی ٹلتا ہے۔

کرگل کے معرکے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو دور کرنے اور جامع مذاکراتی عمل کو ٹریک پر لانے کے لیے صدر پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم واجپائی کے درمیان چودہ تا پندرہ جولائی دو ہزار ایک کو آگرہ میں سربراہ ملاقات ہوتی ہے۔ مشرف اپنے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چار نئی انقلابی تجاویز لے کر جاتے ہیں۔ان میں لائن آف کنٹرول کو نرم کرنے اور کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے کی آزادی جیسی تجاویز بھی شامل ہیں۔ مگر نائب وزیرِ اعظم ایل کے اڈوانی اور سوشما سوراج جیسے ’’ باز ’’ پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ سربراہ کانفرنس بے نتیجہ رہتی ہے تاہم دونوں ممالک وزارتی سطح پر فروری انیس سو ننانوے کے اعلانِ لاہور کی روشنی میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہیں۔

واجپائی مشرف آگرہ ملاقات کے پانچ ماہ بعد تیرہ دسمبر دو ہزار ایک کو بھارتی لوک سبھا کی عمارت پر حملہ ہوتا ہے۔اور حملہ آور اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیتے ہیں یعنی بھارت اور پاکستان کی فوجیں بین الاقوامی سرحد کے نزدیک پوری قوت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صف آرا ہوجاتی ہیں۔ سال بھر یہ ڈرامہ چلتا ہے اور جنوبی ایشیا پہلی ایٹمی جنگ کے امکانات کے رسے پر جھولتا رہتا ہے۔ پھر امریکی مصالحتی کردار کے سبب دونوں ممالک کی فوجیں پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔انیس فروری دو ہزار سات کو وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو بھارت سے جامع امن مذاکرات کے دور کے لیے دلی پہنچنا ہے۔

عین ایک روز پہلے سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیاں جل جاتی ہیں اور اڑسٹھ مسافر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پچیس نومبر دو ہزار آٹھ کو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی دلی میں جامع مذاکرات کے کے تازہ دور کے لیے پہنچتے ہیں۔ گزشتہ روز ممبئی میں ایک ساتھ چار مقامات پر دہشت گرد حملہ شروع ہوتا ہے اور تین روز تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں ایک سو سڑسٹھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
جولائی دو ہزار نو میں شرم الشیخ میں وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کی ملاقات ہوتی ہے اور اعلان نامہ شرم الشیخ کے تحت فریقین مسئلہ کشمیر اور بلوچستان میں مبینہ بھارتی مداخلت کے بارے میں بات چیت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

مگر اندرونِ ملک سپریم کورٹ اور زرداری حکومت کے مابین بڑھتی ہوئی کشا کش اور بھارت میں بی جے پی کی جانب سے شرم الشیخ ڈیکلریشن کی کڑی مخالفت کے سبب من مو ہن سنگھ حکومت دو طرفہ تعلقات کے عمل کو پھر بے یقینی کے جنگل کی جانب رواں پگڈنڈی پر ڈال دیتی ہے۔بھارت آیندہ بات چیت کو ممبئی حملہ آوروں کی گرفتاری اور پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس کی آتشزدگی کے ملزموں کی نشاندھی سے مشروط کردیتا ہے اور دونوں ممالک پھر تعطل کی دلدل میں پناہ لیتے ہیں۔

جون دو ہزار چودہ میں نریندر مودی برسرِ اقتدار آتے ہیں۔ کئی برس سے خاموش لائن آف کنٹرول پر دھواں دار جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں۔دلی اور اسلام آباد کے منہ سے جھاگ نکلنے لگتے ہیں۔ پھر گیارہ جولائی دو ہزار پندرہ کو روسی شہر اوفا میں شنگھائی تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے موقع پر نواز شریف مودی ملاقات میں اتفاق ہوتا ہے کہ دونوں ممالک سیکریٹری خارجہ کی سطح پر دھشت گردی کے معاملے پر بات چیت کا عمل جلد بحال کریں گے۔

اس اتفاق کے سولہ روز بعد ’’حسنِ اتفاق’’سے ستائیس جولائی کو بھارت کے سرحدی شہر گورداسپور میں چند دھشت گرد ایک تھانے میں گھس کر پولیس والوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ جوابی کارروائی کے دوران تین سے چار دہشت گردوں سمیت دس افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور بھارت کو اگست میں سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکراتی عمل کو منسوخ کرنے کے لیے یہ بہانہ بھی ہاتھ آجاتا ہے کہ پاکستانی وفد دلی میں قیام کے دوران کشمیر کی حریت کانفرنس سے ملاقات نہیں کرے گا۔ پاکستان اعلان کرتا ہے کہ وہ بلوچستان اور فاٹا میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت دنیا کے سامنے لائے گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مگر یہ دھواں دار سفارتی کبڈی اس وقت تھم جاتی ہے جب دسمبر کے شروع میں پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر مودی نواز ’’ اچانک ’’ ملاقات کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی علاقائی کانفرنس ہارٹ آف ایشیا میں بھارتی وزیرِ خارجہ سوشما سوراج کی نواز شریف اور سرتاج عزیز کے ساتھ ہنستی مسکراتی تصاویر کھنچتی ہیں۔

پچیس دسمبر کو نریندر مودی کابل سے دلی جاتے ہوئے ’’ اچانک ’’ لاہور میں اترتے ہیں۔ رائے ونڈ میں ڈیڑھ گھنٹے طویل قیام کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان جنوری کے دوسرے ہفتے میں خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر جامع مذاکرات کے نئے دور کی بحالی پر رضامند ہو جاتے ہیں اور آٹھ روز بعد یعنی دو جنوری کو چار سے چھ دہشت گرد بھارت کو کشمیر سے ملانے والی شاہراہ پر واقع سرحدی ایر بیس پٹھانکوٹ میں گھس جاتے ہیں۔

جب تک دونوں ممالک امن دشمنوں کے ایجنڈے کو خاطر میں لائے بغیر اپنے حواس اور مزاج پر قابو پاتے ہوئے کسی ورکنگ ڈھانچے کو کھڑا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے اور دونوں ممالک کی قیادت کا کم ازکم اس نقطے پر اتفاق نہیں ہوگا کہ پاک بھارت تعلقات کی شاہراہ پر کئی طرح کے مفادات کی لاکھوں سرنگیں بکھری پڑی ہیں۔ جیسے جیسے دونوں ممالک آگے بڑھیں گے یہ پھٹتی چلی جائیں گی اور جب تک یہ نقطہ دلی اور اسلام آباد کی سمجھ میں نہیں آئے گا کہ  دونوں ممالک کو ایسی ’’ ناگہانیوں’’ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے تب تک کوئی تاریخی بریک تھرو ممکن نہیں۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments