Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سن 2015 : اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے تلوار کی دھار

سال کا اختتام ایسا وقت ہوتا ہے جب گزرے ہوے ۱۲ مہینوں کا جائزہ اور آنے والے سال کی توقعات اور امکانات پر غور کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۵ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے کچھ بھی نہیں بدل سکا۔ امن کے عمل میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی اور دونوں سیاسی نظام لنگڑاتے، گرتے پڑتے کسی سمت کے تعین کے بغیر اسی طرح چلتے رہے۔

دونوں قوموں کی اکثریت روز مرہ کے معمولات میں مصروف رہی، اور اپنی غیر فطری زندگی سے شعوری یا غیر شعوری طور پر صرف نظر کرتی رہی۔ تاہم ایک گہری نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں قوموں کے درمیان اور ان کے اپنے اندر کشیدگی اور نفرت میں اضافہ ہوا۔

سرحد کے دونوں جانب اسرائیلی قبضہ کے باعث پانچ دہائیوں سے جاری روز افزوں کشیدگی اور خطرات عام آدمی کی نظروں سے بظاہر اوجھل ہیں مگر انرر ہی اندر پکتے لاوے کی طرح موجود ہیں۔ چونکہ مسئلے کا کوئی جامع پر امن حل یا کم از کم کسی بامقصد حل کی جانب پیش رفت دور دور نظر نہیں آتی، تباہی اور خونریزی کا خطرہ ہمہ وقت لٹکتی تلوار کی طرح ہے۔

اسرائیلی قبضہ کی مستقل مورچہ بندی کا ایک واضح ثبوت سیکڑوں کی تعداد میں فلک بوس کرینیں ہیں جو مغربی کنارے کی پہاڑیوں پر اور اطراف کے علاقوں میں جا بجا پھیلی ہوئی اسرائیلی بستیوں میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ کرینیں دیکھنے والوں کو یاد دلاتی ہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے پر اپنے قبضہ میں تیزی سے توسیع کرتا جا رہا ہے، اور یہ بستیاں امن کے عمل کے لئے یہ ایک دائمی خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔ یہودی بستیوں کی مستقل توسیع، لاتعداد سیکیورٹی بیرئر اور ان پر تعینات مسلح فوجی، دو ریاستی حل کی عمل پذیری کے امکانات کو معدوم کر دیتے ہیں۔
مغربی کنارے اور غزہ میں محصور فلسطینی صرف اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد ہی کر سکتے ہیں، ان کی اکثریت تو پہلے ہی کسی سیاسی حل کی امید چھوڑ چکی ہے۔ کچھ نے اس تلخ حقیقت سے سمجھوتہ کر لیا ہے، اور کچھ مزاحمت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیلی آباد کار اور توسیعی مہم میں شریک افراد اپنی عددی اکثریت اور ریاستی کنٹرول کے بل بوتے پر بہت پر اعتماد ہیں کہ وہ کسی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

گزرا ہوا سال دراصل سنہ ۲۰۱۴ کے غیر معمولی واقعات کا تسلسل ہی تھا جن کی وجہ سے کسی بہتری امید بہت کم رہ گئی تھی۔ ان میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے پیش کردہ امن منصوبے کی ناکامی، غزہ کی خونریز جنگ، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی پچھلی حکومت کا خاتمہ، اور باہمی اتفاق سے قائم فلسطین کی حکومت کے قیام میں ناکامی شامل ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ امریکہ کی متحرک شمولیت کے بغیر اسرائیل اور فلسطین میں امن کا قیام محض خوش فہمی رہے گا لیکن امریکہ میں نئے صدر کے آنے تک واشنگٹن سے کوئی نیا امن فارمولا نہیں آئے گا۔ صدر اوباما اور جان کیری دونوں ہی اس تنازعہ کے حل کی کوششوں سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور اپنی مدت کے خاتمے تک صرف کسی بڑے تشدد کو روکنا چاہتے ہیں۔

عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اسرائیل کی مخالفت فلسطینی عوام کو نئی مزاحمت کا حوصلہ دے سکتی ہے۔ بالخصوص یورپ یونین کا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے ان پر خصوصی لیبل لگانا، مزید ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنا، اور اسرائیل کے بائیکاٹ اور پابندیاں لگانے کی بڑھتی ہوئی حمایت ایسے واقعات ہیں جو اس کی عالمی حیثیت کے لئے دھچکا ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے سیاسی نظاموں نے سنہ ۲۰۱۵ میں ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ضد اور قطعی غیر ہم آہنگ ہیں۔ اسرائیل کے انتخابات نے تاریخ کی سب سے ذیادہ انتیہا پسند اور مذہبی حکومت کو جنم دیا اور ایک سال کے عرصہ میں اس نے ثابت کر دیا کہ اسے امن کے عمل کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ ان سیکولر جمہوری اقدار کو بھی ترک کر سکتی ہے جن پر ریاست قائم کی گئی تھی۔ ادھر فلسطین میں غزہ اور مغربی کنارے کے اختلافات، اور الیکشن کے انعقاد میں ناکامی سے فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی حیثیت اور اختیارات میں مزید دراڑیں پیدا کر دی ہیں۔ یہ تمام عوامل دونوں معاشروں اور ان کے تعلقات کے لئے پریشان کن علامات ہیں، جن کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔

تشدد

اس سال کے دوران تیسری فلسطینی انتفاضہ (مزاحمتی تحریک) کا خطرہ مستقل موجود رہا۔ فلسطینی نوجوانوں اور اسرائیلی فوجیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ، خصوصاً بیت المقدس کے اطراف جاری رہا جو حماس اور اسرائیل کی غزہ میں جنگ سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ غزہ میں 2014 میں اسرائیلی فوج کی شدید تباہ کاریوں سے یہ خطرہ بھی پیدا ہوا کہ اس سال پوری فلسطینی قوم بغاوت پر نہ آمادہ ہو جائے۔ اگرچہ یہ خطرہ ٹل گیا مگر ستمبر سے اب تک چاقووں اور کار حملوں میں ۲۰ اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے ۱۲۰ فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے جن میں سے ۸۱ کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کو وہ حملہ آور تھے۔ اگرچہ یہ مسلح جدوجہد اور دہشت گردی منظم نہیں ہے مگر اس سے ایک بڑی مزاحمتی اور پر تشدد تحریک پیدا ہونے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

اس سال یہودی دہشت گردی بھی نئی حدوں کہ چھوتی نظر آئی  ، خاص طور پر دوابشہ خاندان کے گھر کو جلانے کا واقعہ جس میں ۱۸ ماہ کے بچے سمیت تین افراد جان بحق ہو گئے تھے۔ ایک حالیہ ویڈیو کلپ جس میں یہودی آبادکار اس ظالمانہ حملے اور ہلاکتوں پر جشن مناتے نظر آ رہے ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ آبادکاروں میں قاتل دہشت گردوں کے گروپ موجود ہیں جو اسرائیلی معاشرے سے بغاوت اور اس کی جڑوں کہ کھوکھلا کر رہے ہیں۔

ان واقعات سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اس غیر مستحکم، پرتشدد اور پیچیدہ علاقائی ماحول میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ موجودہ مسائل کا کس طرح دیرپا حل نکالا جا سکتا ہے۔ آنے والے سال میں یہ پر تشدد سلسلہ مزید بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس صورتحال میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لئے کوئی بہتر مستقبل نظر نہیں آتا۔

یوسی میکل برگ


Post a Comment

0 Comments