Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ولادی میر پوتین کی ترکی کے خلاف سوقیانہ زبان

روسی صدر ولادی میر پوتین کو بولتے ہوئے دیکھنا اور سننا ایک دلچسپ مگر افسوس ناک تجربہ ہے۔کم سے کم کاغذی حد تک ہی سہی ،دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی طاقت کا لیڈر اپنے قول اور فعل کے ذریعے قیادت کے منصب کو گراتا چلا جارہا ہے۔

وہ بلیک بیلٹ کے ساتھ جوڈو کا مظاہرہ کرتے نظر آئیں، ننگے گھوڑے کی پشت پر بیٹھے ہوں ،ایک چھوٹی آبدوز سے برآمد ہوں ،یا پنجرے میں بند چیتے کو تھپتھپا رہے ہوں ،ان کی بہت سے تصاویر ''خوف اور دہشت''پھیلانے کے لیے تخلیق کی گئی ہیں۔ان تصاویر سے کوئی لیڈر سیاسی شخصیت کے طور پر بڑا نہیں بن جاتا ہے بلکہ دنیا بھر میں بہت سوں کی نظروں میں اس کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔

کسی صدر اور اس کا تشخص اجاگر کرنے والے مشیر قومی سطح پر اس کی کس طرح تشہیر کرتے ہیں،یہ تو اس قوم کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ان امیج کنسلٹینٹ صاحبان کو جاننا چاہیے کہ دنیا ایک چھوٹا گاؤں ہے جہاں ایک قومی شخصیت فوری طور پر بین الاقوامی بن جاتی ہے۔

ولادی میر پوتین اپنے ملک میں جو کچھ کرتے ہیں،اس کو بالعموم دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔چند روز قبل انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی اور یہ تین گھنٹے تک جاری رہی تھی۔ اس میں انھوں نے خود کو اور گرا لیا اور ترکی کے خلاف بازاری اور سوقیانہ زبان استعمال کی۔
ترکی نے روس کا ایک لڑاکا طیارہ نومبر میں مار گرایا تھا۔یہ طیارہ مبینہ طور پر اس کی فضائی حدود میں داخل ہوا تھا لیکن روس کی ترکی کی فضائی حدود میں یہ کوئی پہلی مداخلت نہیں تھی۔اس نے 30 ستمبر کو شامی صدر بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے فضائی مہم شروع کی تھی اور اس کے بعد سے روسی لڑاکا طیارے متعدد مرتبہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرچکے ہیں۔

انقرہ میں متعیّن روسی سفیر کو متعدد مرتبہ وزارت خارجہ طلب کیا جاچکا ہے مگر یہ مشق بے سود رہی ہے کیونکہ کریملن یہ واضح پیغام دینا چاہتا تھا کہ روس شام میں داعش اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ میں ایک اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔

ترکوں نے اس بات کوکوئی سربستہ راز نہیں رہنے دیا ہے کہ روس اپنی فضائی مہم کے دوران داعش کو ہدف بنانے کے بجائے اعتدال پسند جیش الحر کو نشانہ بنا رہا ہے۔اس کے علاوہ شامی شہری بھی اپنے تباہ شدہ شہروں ،قصبوں اور دیہات میں گرنے والے میزائلوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔روسی طیاروں نے اللاذقیہ کے نزدیک اور ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع شمال مغربی علاقوں میں ترکمن فورسز پر بھی بمباری کی ہے۔

بشارالاسد کا دفاع ،ٹرمپ کی حمایت

صدر پوتین نے ترکی مخالف بیانات اور اس کے لیڈروں کو جلی کٹی سنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔وہ ایک لیڈر کے بجائے طاغوت لگ رہے ہیں۔وہ مدعو کیے گئے 1400 صحافیوں سے مخاطب تھے۔انھوں نے ترکی ،اس کی قیادت اور اس کے عوام پر بالواسطہ طور پر شد ومد سے حملہ آور ہوتے ہوئے کہا کہ ترکوں نے امریکیوں کے ایماء پر ایس یو 24 کو مار گرایا تھا۔انھوں نے ترکوں کی کارروائی کو ''امریکیوں کو شکست'' دینے کی کوشش قرار دیا لیکن انھوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ اس سے ان کی کیا مراد ہے؟

اسی پریس کانفرنس میں ولادی میر پوتین نے شامی صدر بشارالاسد کا ان کے انسانیت مخالف جرائم کی ایک لمبی فہرست کے باوجود دفاع کیا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بشارالاسد پر سرکاری سکیورٹی فورسز کے ذریعے اپنے ہی عوام پرمظالم ڈھانے کے الزامات عاید کرچکی ہیں۔

ولادی میر پوتین نے اپنی اس تین گھنٹے اور دس منٹ تک جاری رہنے والی گفتگو کے دوران امریکا کی ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی مبارک باد دی حالانکہ ان صاحب نے حال ہی میں مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھامگر پوتین صاحب یہیں پر ہی نہیں رُکے۔انھوں نے فیفا کے سیپ بلیٹر کا دفاع کیا حالانکہ ان کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کی جارہی ہے۔شاید وہ ان صاحب سے اس لیے بھی یک جہتی کا اظہار کرنا چاہتے تھے کہ انھوں نے روس کو 2018ء میں ہونے والے فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اسی نیوز کانفرنس میں صدر پوتین یہ دعویٰ کرتے کرتے رہ گئے کہ بعض روسی فوجی اس وقت مشرقی یوکرین میں بروئے کار ہیں۔ روس گذشتہ دو سال کے دوران متعدد مرتبہ اس دعوے کی تردید کر چکا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ صدر پوتین کی یہ تقریر اس دنیا کی قیادت کے محدود ہوتے طرزعمل کا ثبوت تھی۔

امریکی صدر براک اوباما کے شام ،یمن اور فلسطین میں ''غیر قیادی'' کردار سے پیدا ہونے والے خلا کو روسی لیڈر دخل اندازی اور دوٹوک پالیسیوں کے ذریعے پُرکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس طرز عمل سے مافیا طرز کی قیادت کی راہ تو ضرور ہموار ہوگی مگر وہ اپنے کچھ بھِی مقاصد حاصل نہیں کرسکے گی۔خواہ اس کا مقصد اپنے مخالفین کی تحقیر ہو یا ان کے خلاف غیر سفارتی زبان کا استعمال ہو۔ 
__________________
(محمد شبرو العربیہ ٹی وی نیوز پروگرام کے ایڈیٹر ہیں۔وہ ایک ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں۔وہ جنگی وقائع نگار اور مبصر کی حیثیت سے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے چکے ہیں۔انھوں نے ایم بی سی نیوز کے لیے 1990ء کے عشرے کے دوران بہت سے ایشوز کور کیے تھے۔وہ بیروت اور لندن میں العربیہ کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں۔

محمد شبرو

Post a Comment

0 Comments