Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سمندر سے لڑائی

کھارے پانی کے نالے میں کچھ بچے ایک چھوٹے سے جال کی مدد سے ننھی منی مچھلیاں پکڑنے میں مصروف ہیں، ان کا صرف آدھا جسم نصف کپڑوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
یہ مشق نہ صرف ان بچوں کا کھیل بلکہ روزگار بھی ہے۔ یہ بچے اپنے آباؤ اجداد کا دھندھا اور روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ ماہی گیروں کے جال مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے لیکن گذرتے وقت کے ساتھ سمندر قریب اور مچھلیاں دور چلی گئیں۔ سمندر کی خوشحالی اب یہاں بزرگوں کے قصوں میں رہ گئی ہے۔

کیٹی بندر سے آدھے گھنٹے کے فاصلے پر جب ہم صدیق دبلو گاؤں پہنچے تو بڑے بوڑھے عبداللہ ملاح کے گھر میں موجود تھے جو مچھلی کو رسی میں پرو کر سکانے کے لیے ٹانگ رہے تھے۔
سمندر ایک بار پھر اس آبادی کو پیچھے دھکیل رہا ہے لیکن ان لوگوں کی سمندر سے لڑائی جاری ہے حالانکہ 20 سال قبل وہ یہ لڑائی ہار چکے ہیں۔
 عبداللہ نے کوئی دو، پانچ کلومیٹر دور موجود ایک جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ جب اس نے ہوش سنبھالا تو سمندر اس جگہ پر تھا اب یہ بہت پھیل گیا ہے، نتیجے میں لوگ پیچھے اور سمندر آگے بڑہتا جارہا ہے۔
عالمی موسمی تغیر سے پاکستان کی 1100 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ساحلی پٹی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف اوشینو گرافی کے مطابق ہر سال سطح سمندر میں 1.3 ملی میٹر اضافہ ہورہا ہے۔

محکمہ کے ڈائریکٹر آصف انعام کے مطابق انڈس ڈیلٹا شدید دباؤ میں ہے۔ جس کی وجہ سطح سمندر کا بڑہنا، زمین کا کٹاؤ اور یہاں سطح ہموار ہونا ہے، جس کے باعث ڈیلٹا پر اثرات کافی بڑھ جاتے ہیں۔
موسمی تغیر اور دریائے سندھ کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا میں واقعے ہونے والی تبدیلیاں اس کے اردگرد آباد سینکڑوں لوگوں کی زندگی کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہیں سطح سمندر میں اضافے کے ساتھ اب لہروں میں بھی شدت آگئی ہے۔
صدیق دبلو گاؤں میں ہر سال جون، جولائی میں سمندر کا پانی گھروں میں داخل ہوجاتا ہے۔اس گاؤں میں کوئی بچہ، بوڑھا، مرد یا عورت ایسی نظر نہیں آئی جس نے چپل پہنی ہوئی تھی ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھا۔

ساحلی علاقے اور آس پاس ہر طرف بنجر زمین، سیم اور تھور نظر آتی ہے
ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے نقصان سے بچاؤ کے لیے کچھ اونچی جھونپڑیاں بناکر دی ہیں۔
اسماعیل دبلو کے مطابق پہلے ان کے گھر نچلی سطح پر تھے جیسے سمندر کا پانی آتا تھا ڈوب جاتے تھے، جس کی وجہ سے راشن اور دیگر سامان خراب ہوجاتا تھا۔’اس صورتحال میں ہم بچوں کو سبنھالیں یا سامان۔ ڈبیلو ڈبلیو ایف والوں نے مدد کی تو ہم نے یہ گھر بنایا ہے جس سے نقصان کم ہوتا ہے۔
گلوبل کلائمنٹ انڈیکس میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے، جہاں سطح سمندر میں اضافے سے صورتحال سنگین ہے۔
پاکستان فشر فوک فورم کے رہنما محمد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سمندر کا کٹاؤ دریائے سندھ کا پانی نہ آنے کی وجہ سے ہو رہا ہے لیکن اس میں شدت سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

’دریائے سندھ پر جب ڈیم اور بیراج نہیں ہوتے تھے اس وقت 180 ملین ایکڑ فٹ پانی ڈیلٹا میں آتا تھا جو وقت گذرنے کے ساتھ مسلسل کم ہوتا گیا اب یہاں پانی نہ ہونے کے برابر آتا ہے۔ جس دریا نے انڈس ڈیلٹا کو بنایا اور سمندر کو پیچھے دھکیلا اس دریائے کو ڈیم اور بیراج بناکر قید کریں گے تو یقیناً سمندر آگے بڑھےگا۔

بدین، ٹھٹہ اور سجاول اضلاع میں زیر زمین سمندر کا نمکین پانی میٹھے پانی کو دہکیلتا اوپر چڑھ رہا ہے، جس نے سطح زمین کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے۔ سندھ حکومت کے مطابق گذشتہ 50 برسوں میں 35 لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہوچکی ہے جبکہ پینے کا پانی ناپید ہے۔

موسمی تبدیلیوں اور دریائی پانی کی عدم دستیابی نے زراعت اور ماہی گیری سے وابستہ ان ساحلی لوگوں کے ذریعہ معاش کو محدود کرکے غربت کی لکیر سے نیچے دہکیل دیا ہے، اسی وجہ سے یہاں پر غذائیت کی کمی کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔

یہ مشق نہ صرف ان بچوں کا کھیل بلکہ روزگار بھی ہے۔ یہ بچے اپنے آباؤ اجداد کا دھندھا اور روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں
کیٹی بندر کے قریب واقع میرو دبلو گاؤں کے ہر گھر کے باہر فائبر کا واٹر ٹینک موجود ہے، جس میں ٹینکر کی مدد سے پانی بھرا جاتا ہے ہماری موجودگی میں ایک ٹینکر پانی لایا تھا بظاہر تو یہ دریائے کا میٹھا پانی تھا لیکن اس کی کوالٹی سوالیہ تھی۔

مسمات صفوری نے بتایا کہ یہاں زیر زمین پانی کھارا ہے، جس وجہ سے پانی چار پیسوں سے لیتے ہیں انھیں پانچ سو روپے کا اتنا پانی مل جاتا ہے کہ چار روز ہی چل جائے۔
ساحلی علاقے اور آس پاس ہر طرف بنجر زمین، سیم اور تھور نظر آتی ہے۔
مسمات صفوری کے مطابق یہاں سبزی وغیرہ کی کاشت نہیں ہوتی اس وجہ سے سبزی بہت مہنگی ہے۔ ٹماٹر سو روپے اور تین عدد مرچ دس روپے کے ملتی ہیں مجبوری میں وہ خریدتے ہیں۔

پاکستان میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سمندر کی پیش قدمی نہ روکی گئی تو 2050 تک یہ ٹھٹہ اور کراچی کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔
تاہم حکومت کی اس پر کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کے ایوان بالا میں یہ معاملہ زیر غور آیا تھا جس کے بعد نقصان اور اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام 

Post a Comment

0 Comments