Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ترکی میں جی 20 سربراہی اجلاس

ترکی میں جی 20 سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب پیرس میں دہشت گرد تنظیم داعش کے حملے جس میں 132 افراد ہلاک اور 352 سے زائد زخمی ہیں کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ اسی لئے ترکی کے سیاحتی شہر انطالیہ میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر حکومتِ ترکی نے سخت حفاظتی اقدامات کئےہیں۔ ترک پولیس اور فوج کے12ہزار سے زائد اہلکاروں نے پورے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اور انطالیہ شہر کی 24 گھنٹے فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔ ترکی جی ٹوئنٹی کے ٹرم چیئرمین کی حیثیت سے اس اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کئے ہوئے ہے۔ ترکی کے اس خوبصورت اور سیاحتی شہر سے سب مہمان ہی بڑے متاثر ہیں اور امریکی صدر باراک اوباما نے شہر کی خوبصورتی اور سر سبزو شادابی پر انطالیہ میٹرو پولیٹن کے مئیر میندریس تیوریل کو مبارکباد بھی پیش کی۔

ترکی کی میزبانی میں منعقد ہونے والے اجلاس میں جی 20 ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، ترکی، برطانیہ، متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ شرکت کے لئے خصوصی طور پر آذربائیجان، اسپین، ملائیشیا ، سینگال، سنگاپور اور زمبابوے کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ دو روز جاری رہنے والے اس اجلاس کی کوریج کے لئے دو ہزار 469 میڈیا کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں جبکہ دیگر مہمانوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
سربراہی اجلاس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی متحدہ امریکہ کے صدر باراک اوباما سے ملاقات بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد صدر ایردوان نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ" دہشت گردی کا کسی مذہب، نسل اور وطن سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دہشت گرد پوری انسانیت کو اپنا نشانہ بنا رہے ہیں اس لئے دہشت گردی کواسلام سے منسوب کرنا کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ۔

 ہم نے شام میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف اتحادی ممالک سے مکمل طور پر تعاون کرتے ہوئے پورے علاقے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا تہیہ کررکھا ہے"۔ اس موقع پر صدر اوباما نے کہا کہ " ترکی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور خاص طور پر عراق اورشام میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جو تعاون فراہم کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے ۔ متحدہ امریکہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے آئندہ مزید سخت اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمیں اس سلسلے میں ترکی کے مزید تعاون کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ داعش ایک ایسی قوت بن چکی ہے جس نے انقرہ سے پیرس تک لوگوں کو دکھ اور تکلیفوں میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ترکی نیٹو کا رکن ملک ہونے کے ناتے اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض کو بڑی تندہی سے انجام دے رہا ہے ۔ سربراہی اجلاس سے قبل صدر اوباما اور روسی صدر پیوٹن کی غیر متوقع ملاقات سب کی توجہ کا مرکز بنی ۔ لابی میں تمام ہی رہنما موجود تھے جو کہ ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے اور اس دوران جب صدر اوباما اور صدر پیوٹن آمنے سامنے آئے پہلے تو انہوں نے کھڑے کھڑے بات چیت جاری رکھی لیکن موضوع "شام " ہونے کی وجہ سے دونوں رہنماؤں نے لابی ہی کے ایک گوشے میں اپنے اپنےمترجم کے ہمراہ طویل بات چیت کی اور اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

 یاد رہے روس بھی شام میں داعش کے خلاف عسکری کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم روس اورمتحدہ امریکہ شام کے صدر بشار الاسد کے مستقبل کے حوالے سے متضاد پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ روس کے مطابق اسد حکومت ہی داعش کا قلع قمع کر سکتی ہے، جب کہ متحدہ امریکہ کا خیال ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بغیر شام کا بحران حل نہیں کیا جا سکتا۔

اس سے قبل ترکی کے صدر ایردوان نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو اس کے خاتمے تک جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ" ان دہشت گردی کے واقعات کے مقابل ہمیں کولیشن کے اندر ایک بین الاقوامی جدوجہد کو شروع کرنا چاہئے۔

سربراہی اجلاس سے قبل صدر ایردوان نے تمام سربراہان کو فیملی فوٹو گراف کے لئے مدعو کیا اور صدر ایردوان جو پرچم کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں،نے اس اجلاس کے موقع پر کسی بھی ملک کے پرچم کو زمین پر رکھنے کے بجائے متعلقہ ممالک کے نام کی پلیٹ رکھ کر نئی جہت شروع کی جسے سب نے سراہا اور یوں انہوں نے پرچم کی بے حرمتی کی روایت کو ختم کردیا۔ اجلاس کے آغاز میں صدر ایردوان ہی کی جانب سے پیرس اور انقرہ میں دہشت گردی کے حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی ۔

 انہوں نے اس موقع پر پیرس حملوں کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہ کرنے والے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند کو تعزیت کا پیغام دیتے ہوئے دہشت گردی کے اس حملے کی شدید مذمت کی۔ صدرایردوان نے کہا کہ "جی 20 صرف اقتصادی بحران کے لئے قائم کردہ پلیٹ فارم نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس پلیٹ فارم سےمختلف توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے کیونکہ اقتصادیات کبھی بھی سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعبوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور ان سب کا گہرا تعلق انسانی زندگیوں سے ہے۔

ترکی گزشتہ چار ماہ سے شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردی سے چھٹکارے کے لئے اپنی بھر پور کوششیں صرف کررہا ہے۔ ترکی دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام ممالک کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے"۔ انہوں نے اس موقع پر تمام سربراہان کی توجہ شام کے پناہ گزینوں کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ مغربی ممالک، پنا ہ گزینوں کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرسکے جبکہ ترکی تنہا ہی دو ملین شامی پناہ گزین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ انہوں نے عالمی رائے عامہ سے اس مسئلے کی جانب فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔

جی 20 سربراہی اجلاس میں ترکی کی نمائندگی اس بار ترکی کے صدرایردوان کررہے ہیں حالانکہ اس سے قبل اب تک ترکی کی نمائندگی وزیراعظم ہی کرتے چلے آئے ہیں شاید ایردوان کے وزیراعظم سے صدر بننے کے بعد اس کی نمائندگی انہوں نے کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم وزیراعظم احمد داؤد اولو نے جی 20 سربراہی اجلاس کے مہمانوں کے لئے استقبالیے کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی موجودگی کا بھی سب کو احساس دلوادیا۔

اس سربراہی اجلاس میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شرکت کر رہے ہیں لیکن ترکی کے میڈیا نے جیسے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہو، ان کے بارے میں نہ تو کسی ٹی وی چینل پر کوئی خبر چلی ہے اور نہ ہی کسی اخبار نے ان کو اپنی خبروں میں کوئی جگہ دی ہے تاہم نریندر مودی نے صدر اوباما کو اپنا قریبی دوست سمجھتے ہوئے گلے لگانے کی کوشش کی لیکن اوباما نے اس بار ان کی پشت تھپتھپانے پر ہی اکتفا کیا۔ شاید اس کی وجہ مودی کا بڑھتا ہوا متعصبانہ رویہ ہے جس کے باعث وہ دنیا بھر میں " ہندو طالبان" کے طور پر مشہور ہوتے چلے جا رہے ہیں اور سیکولر ملک بھی ان کو اہمیت دینے سے کترانے لگے ہیں۔ 

ڈاکٹر فرقان حمید
بشکریہ روزنامہ 'جنگ'

Post a Comment

0 Comments