Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

روانڈا 'ایکشن پلان' کا سبق

افریقی ملک روانڈا کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک ایسے ملک کا تصور اُبھرتا ہے جہاں خانہ جنگی، سیاسی انارکی، اشرافیہ کی غںڈہ گردی، قبائلی جھگڑے، لاقانونیت کی اجارہ داری، قومی خزانے کی لوٹ مار، چوری، ڈاکے، راہ زنی اور معاشی پسماندگی کا دور دورہ ہو۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بلا شبہ روانڈا ماضی قریب میں تمام متذکرہ اخلاقی، سیاسی اور قانونی بحرانوں اور برائیوں میں گھرنے کی بنا پر پتھر کے دور کا ملک سمجھا جاتا تھا مگر پچھلے ایک عشرے میں اس دور افتادہ ریاست نے جس تیزی کے ساتھ کایا پلٹی ہے وہ بہت سوں کے لیے حیران کن اور سبق آموز ہے۔

روانڈا براعظم افریقا کے غریب ملکوں میں گھرا مشرق سے وسط تک پھیلا ایک چھوٹا ملک ہے مگر اس کے مسائل اس قدر گھمبیر اور لا ینحل تھے کہ یقین نہیں اتا کہ محض ایک عشرے میں اس ملک نے اپنے بیشتر بحرانوں پرنا صرف قابو پا لیا بلکہ سیاسی استحکام، قانون کی بالادستی وعمل داری، خانہ جنگی کے خاتمے اور دن دگنی رات چگنی معاشی ترقی کے زینے طے کرنا شروع کر دیے۔ آج یہ ملک افریقا کی غریب اور معاشی طور پر پسماندہ ریاستوں کی صف سے نکل کر شاہراہ ترقی پر تیزی سے دوڑتے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔

روانڈا میں یہ تبدیلیاں کسی جادُو یا جِنات کی طلمساتی چھڑی گھمانے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایک' قومی ایکشن پلان' کا ثمر ہے۔ مُملکت خداداد پاکستان میں بھی پچھلے برس سے ایک ایکشن پلان پرعمل جاری ہے مگر ہم 'روانڈا' کے ایکشن پلان کا ذکر کر رہے ہیں۔

روانڈا میں سنہ 1994ء میں دو مقامی قبائل 'ہوٹو' اور "ٹوٹسی' کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی۔ ریاست اس قدر کمزور تھی کہ دو قبائل کے باہمی تصادم کو روکنے میں بھی نام رہی۔ عملاً یوں لگ رہا تھا کہ روانڈا میں صرف ان دو قبیلوں کی اجارہ داری ہے اور انہی کا سکہ چلتا ہے۔ قانون، عدالتوں اور حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ سنہ 2001ء تک روانڈا بدترین خونی خانہ جنگی سے گذرا جس کے نتیجے میں 11 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ تیس لاکھ بے گھر ہوئے اور ملک کا ہر دوسرا خاندان بالواسطہ یا براہ راست اس خانہ جنگی کا شکار ہوا۔ ملکی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکارتھی خانہ جنگی کے خونی پنچوں نے اسے نوچ نوچ کر مُردہ ڈھانچا بنا دیا تھا۔

مگراس ملک کی سیاسی قیادت، قبائلی عمائدین اور عوام آفرین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے طویل خون خرابے سے نکلنے کے لیے جس دانش مندی، ہوش مندی اور سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا وہ بڑے بڑے جمہوری ملکوں کے حصے میں نہیں آ سکا ہے۔

سنہ 2000ء میں اس وقت کی حکومت نے تمام نمائندہ طبقات کو جمع کرکے ایک جرگے کی شکل دی اور ملک کو تباہی اور بربادی کے گرداب سے نکالنے کے لیے جامع قومی لائحہ عمل کا آغاز کیا۔ خانہ جنگی سے سب ہی اُکتا چکے تھے اس لیے بحران کے حل کی کاوش کو سب نے سنجیدگی سے لیا۔ بحران کے حل کی مساعی کا نچوڑ ایک "قومی ایکشن پلان" اور "قومی میثاق" کی شکل میں سامنے آیا جسے مقامی زبان میں "غاکاکا" کا نام دیا گیا۔

"غاکاکا" ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ایک جامع ایکشن پلان کے ساتھ عبوری دستور اور ایک قومی میثاق قرار پایا۔ اس پلان کے تحت نہ صرف ملک کو خانہ جنگی کی دلدل سے نکالا گیا بلکہ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ پر بھی ڈال دیا گیا۔ "غاکاکا" نامی قومی ایکشن پلان کے دو مراحل وضع کیے گئے۔ پہلے مرحلے میں ملک کو خانہ جنگی سے نکالتے ہوئے قومی مفاہمت کا عمل آگے بڑھانا تھا اور دوسرے مرحلے میں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے اقدامات کرنا تھے۔

خانہ جنگی کی بھٹی میں جلنے والے روانڈا کے عوام، سیاسی قائدین اور قبائل نے "انصاف، اتحاد اور مصالحت" کا اصول اپنایا۔ جرائم پیشہ عناصر کو فوری سزائیں دینے، خانہ جنگی سے متاثرہ لوگوں کی بحالی اور آباد کاری کے ساتھ انہیں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے فوجی اور سول عدالتیں قائم کی گئیں۔ اگرچہ "غاکاکا" میں وضع کردہ قوانین میں پھانسی کی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ مگر دیگر تمام سنگین سزائیں اس نظام کا حصہ قرار پائیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فری ہینڈ دیا گیا جنہوں نے محض چار ماہ میں ڈٰیڑھ لاکھ جرائم پیشہ عناصر، خانہ جنگی میں ملوث اور لوٹ مار کرنے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔ قومی ایکشن پلان کے تحت جرائم پیشہ عناصر کو چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے گروپ میں بلا تخصیص ان تمام عناصر کو شامل کیا گیا جو اجتماعی قتل عام میں ملوث تھے۔ ان میں شہزادے بھی تھے اور شاہی خانوادے بھی، قبائیلی لیڈروں کے چہتے بھی تھے اور سیاسی پنڈٹوں کے نورتن بھی مگرعدل و انصاف کی رسی ہر ایک کے گریبان تک برابر پہنچائی گئی۔ 

پہلے گروپ میں شامل عناصر کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کیے گئے، جہاں سے انہیں ایک ایک قتل کے بدلے میں کئی کئی بارعمر قید کی سزائیں دی گئیں۔ ان کی جائیدادیں ضبط کر کے ان لوگوں کو دی گئی جو ان سیاسی اور قبائلی غنڈہ گردوں کے ظلم کا شکار ہوئے تھے۔ فوجی عدالتوں میں اجتماعی قتل، جسمانی اذیتیں دینے اور خواتین کی عصمت ریزی کرنے والوں کو بھرے بازار میں ذلیل ورسوا کیا گیا اور عوام نے دیکھا کہ قانون کس طرح بڑے بڑوں کو اپنے شنکجے میں جکڑے ہوئے ہے۔

دوسرے طبقے کے جرائم پیشہ عناصر میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا جو بالواسط طور پر قاتلانہ حملوں میں ملوث تھے۔ ان لوگوں کو بھی طویل اور کڑی سزائیں دی گئیں۔ ان کی تمام جائیدادیں متاثرہ شہریوں کو دے کر ہرجانہ ادا کیا گیا۔

تیسرے طبقے کے مجرموں کو فوجی عدالتوں کے بجائے سول عدالتوں میں پیش کیا گیا۔ ان میں وہ عناصر شامل تھے جنہوں نے قومی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔ ان کی اصلاح کی گئی اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے "غاکاکا" کے تحت قائم کردہ اصلاحی مراکز میں رکھا گیا۔ چوتھے طبقے میں اسٹریٹ کرائمز اور دیگر سماجی جرائم میں ملوث افراد کو شامل کیا گیا۔ ان عناصر کے اصلاح کی حتی المقدور کوشش کی گئی۔ جس شخص پر چوری، ڈکیتی یا راہ زنی کا جرم ثابت ہوا اس کی جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ اسے جرائم سے توبہ تائب کرایا گیا۔

'غاکاکا' کے اصول کے تحت قانون کی عمل داری کے ساتھ انصاف کی فرمانروائی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کسی بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے اس نظام پر تنقید نہیں کی گئی۔ جرائم کی تقسیم کے تحت چاروں طبقات کے مجرموں کو اپنے خلاف جاری کردہ فیصلوں کو روانڈا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے اور وکلاء کی خدمات کا بھرپور حق مہیا کیا گیا۔ جن مجرموں کی عمریں 18 سال سے کم اور 14 سال سے زیادہ تھیں ان کی قید کی سزائوں میں تخفیف کی گئی۔ 14 سال سے کم عمر کے ملزمان کو معاف کر دیا گیا مگران کے اہل خانہ اور دیگر اقارب اور سرکردہ شخصیات کی جانب سے آئندہ کے لیے ان کی ضمانتیں لی گئیں۔

چونکہ انصاف کی فراہمی، قانون کی حکمرانی اور انارکی کے خاتمے کے لیے پوری قوم اور اس کے تمام طبقات ایک صفحے پر تھے۔ اس لیے روانڈا میں "غاکاکا" نامی قومی ایکشن پلان اور "قومی یکجہتی ومفاہمت" کا فارمولہ کامیاب رہا۔

یہ فارمولہ صرف خانہ جنگی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا پلان نہیں بلکہ ریاست کو کسی بھی شکل میں نقصان پہنچانے والوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام تھا۔ لوٹ مار کرنے والے سیاست دانوں سےایسا کڑا احتساب کیا گیا کہ لوٹی گئی ایک ایک پائی قومی خزانے میں جمع کرائی گئی۔ دس سال کے دوران احتساب کے عمل میں روانڈا میں چھ ارب ڈالر لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں جمع کرائی گئی۔ لوٹنے والوں نے خود احتسابی کا راستہ اپنایا اور جس جس نے جتنا کچھ لوٹا تھا وہ خود ہی پیش کر دیا۔

ایکشن پلان کے تحت اضلاع کی سطح پر "مصالحتی کونسلیں" قائم کی گئیں جنہیں مجسٹریٹ کے اختیارات سونپے گئے۔ ان کونسلوں میں علاقے کے چیدہ چیدہ اور دیانت دار لوگوں کو شامل کیا گیا، جنوں نے اپنے دائرے میں آنے والے لوگوں کو ایک چھلنی سے گذار کر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیا۔ انہی کونسلوں کی جانب سے جنگی جرائم میں ملوث عناصر کی بلا تفریق نشاندہی کر کے انہیں فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا۔ بدعنوانی کے مرتکب بڑے بڑوں کو احتساب کے لیے پیش کیا گیا۔ ان کی سال ہا سال کی کرپشن کا حساب چکایا گیا۔

 ملک سے بھاگنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے تھے اور جو بھاگ گئے تھے انہیں انٹر پول کی مدد سے پکڑ کر واپس لایا گیا اور انصاف کے عمل سے گذارا گیا۔ یوں روانڈا میں "ایکشن پلان" کے ذریعے جھاڑو پھیرا گیا اور آج روانڈا کا شمار پسماندہ ملکوں کے بجائے تیزی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ممالک میں ہوتا ہے۔

پاکستان میں پچھلے ایک برس سے ایکشن پلان جاری ہے جس کے تحت دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف فوجی عدالتوں میں قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ مگر کیا یہ ایکشن پلان روانڈ کے ایکشن پلان سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ریاست میں ہر قسم کے جرائم کے خلاف قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے۔ قابل اصلاح عناصر کو اصلاح کے عمل سے گذارا جائے۔ لوٹ مار کرنے والوں کو ان کے موجودہ یا سابقہ عہدہ ومنصب کی رعایت دیے بغیر قانون و انصاف کی چھلنی سے گذارا جائے، تاکہ ہر کھوٹا اور کھرا سامنے آجائے۔ روانڈا اس کی بہترین مثال ہے۔

عبدالقیوم فہمید

Post a Comment

0 Comments