Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فلسطین میں نیا انتفاضہ

کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کی عجیب کارستانیاں ہوتی ہیں۔ اول تو ایسی تحریکیں جن میں خونریزی کی بجائے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی حریت پسندانہ جدوجہد حاوی ہو، انہیں میڈیا کی کوریج کم ہی ملتی ہے، حکمرانوں کے مسلسل جبرواستحصال سے ایسی تحریکیں جب بھڑک اٹھتی ہیں تو انہیں خون میں ڈبونے والے یہی حخمران ہوتے ہیں اور ریاستی دہشت گردی کا وحشیانہ استعمال کیا جاتا ہے، آگ اور خون کی اس ہولی کو میڈیا کی ہیڈ لائنز پر جگہ تو ملتی ہے لیکن ذمہ دار مظلوموں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ پھر یہ خونریزی جب معمول بن جائے تو یہی کارپوریٹ میڈیا کسی نئی سنسنی خیزی کی تلاش میں سارے ایشو کو یوں فراموش کر دیتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

کشمیر ہو یا فلسطین ، ایسے سلگتے ہوئے تنازعات جن کا حل اس نظام کے سامراجی اور مقامی حکمرانوں کے پاس نہیں ہے، ٹیلی وژن سکرین اور اخبار کی شہ سرخیوں سے یکسر غائب کر دیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی سلگتے ہوئے مسئلے کو کوریج نہیں مل رہی تو اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے اور تضادات ختم ہو گئے ہیں۔ تحریکوں اور تصادم کی آگ تو کبھی زیادہ کبھی کم شدت سے سلگتی ہی رہتی ہے ۔ حکمرانوں کے لگائے ہوئے زخم رستے رہتے ہیں، محکومی اور استحصال کے خلاف بغاوت اور نفرت کے عوامی جذبات بھڑکتے رہتے ہیں۔

آپسی مقابلہ بازی اور ریٹنگ کی دوڑ میں کارپوریٹ میڈیا کو کبھی حریت کی تحریکوں کی کوریج پر مجبور بھی ہونا پڑے تو اسکا زاویہ ایسا ہوتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کو پامال کرنے والے کسی حل کی سوچ نہ پنپ سکے۔ مسئلہ فلسطین کے ساتھ یہ سلوگ گزشتہ سات دہائیوں سے کیا جارہا ہے۔ میڈیا جب مسئلہ فلسطین کی کوریج کرتا بھی ہے تو اسکے تجزیہ نگار اور ماہرین ایسا حل پیش کرتے ہیں جو سامراجی مفادات اور علاقائی سٹیٹس کو سے مطابقت رکھتا ہو اور بالکل بھی قابل عمل نہ ہو! اسرائیل فلسطین تنازعے میں امریکی سامراج کے پیش کئے گئے۔
دوریاستی حل کو گزشتہ 30 برس کے تجربات اور واقعات نے بالکل نامرد ثابت کیا ہے۔ لیکن ایک ریاست میں رہنا بھی فلسطینیوں کی غؒامی کا غاتمہ نہیں کر سکتا۔ یہ درحقیقت ایک ایسا تنازع ہے جسکا کوئی حل سرمایہ دارانہ نظام کی ریاست ، سیاست اور سفارت میں ممکن ہی نہیں ہے۔ اس نظام زر میں محکوم قوموں کو آزادی دینے ہی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس مسئلے کو عالمی اور علاقائی حکمران حل کر سکتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اپنے مفادات اور حاکمیت کی طوالت کے لئے سب اسے استعمال کرتے ہیں۔

یروشلم میں ایک مرتبہ پھر تصادم اور قتل و غارت گری پھوٹ پڑی ہے۔ جبر، محرومی اور تضحیک کے ستائے فلسطینی نوجوان بے بسی کی انتہا پر صہیونی ریاست کے حامیوں پر چاقوؤں کے وار کر کے جواب میں گولیاں کھا کر مرر ہے ہیں۔ انکا جینا کس قدر دشوار ہوگا، زندگی کتنی اذیت ناک ہوگی، کہ بے موت مر جانے پر وار کر کے مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ سے لے کر مہذب مغرب کے حکمرانوں تک ، سب کے سب اس صہیونی فسطائیت پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ پس پردہ اسکی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ مذہبی جنون اور وحشت کو سلگا سلگا کر نتین یاہو جیسے دائیں بازو کے حکمران اسرائیل کی بقا کے نام پر سات دہائیوں سے ظلم اور بربریت کا کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں نا صرف قدیم دیو ملائی داستان کو جواز بنا کر فلسطینیوں سے انکی زمین چھین لی گئی بلکہ اب تو انہیں دنیان کے سب سے اوپن ائیر قید خانے (غزہ ) میں قید کر دیا گیا ہے۔

امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود صہیونی ریاست کے سامنے بے بس نظر آتا ہے ۔ اس ریاست کے ہر ظلم کو تسلیم کر کے اسکی حمایت کرنا مغربی سامراجیوں کی مجبور اور کلیدی پالیسی بن چکی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر پر تین عرب اسرائیلی جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان جنگوں سے فلسطین کی غلامی میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اپنے وحشی اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کرنے والے یہی عرب حکمران آج اسرائیلی حکمرانوں سے خفیہ اور سر عام خوب یارانے بڑھا رہے ہیں۔
اگر ان عرب آمروں اور بادشاہوں کی دولت اور عیاشی کا موازنہ فلسطین کے تباہ حال عوام سے کیا جائے تو اس امت مسلمہ کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے۔ خلیج سے لے کر مصر تک ، یہ شاہی اور فوجی فرعون پورے خطے کو پاگل درندوں کی طرح چیر پھاڑ رہے ہیں۔ امت مسلمہ جس طرح آج آپس میں برسرپیکار ہے اس سے عیاں ہوجاتا ہے کہ مسلمان قوم پرستی کتنا بڑا سراب تھا۔

فلسطین مٰن ایک طرف کٹھ پتلی صدر محمود عباس اسرائیلی حکمرانوں سے مذاکرات کا ناٹک رچا رہا ہے تو غزہ کے مذہبی بنیاد پرست، حماس سے لے کر اسلامی جہاد تک اسرائیلی دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے ہر ترقی پسند سوچ اور انقلابی نظریئے کو بےدردی سے کچلنے میں مصروف ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ مذاحمت یا موت۔ محکومی اور زندہ لاشوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اور محکومی صرف مذہبی یا قومی ہی نہیں ہوتا، بلکہ معاشی و سماجی محکومی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔

لیکن فلسطینیوں کی مسلح جدوجہد مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی میں اضافے کا باعث بنی ہے ۔ مذاکرات مٰں صرف مذاکرات ہی ہوتے ہیں، امیر فلسطینی حکمرانوں کو سفارتی نمائش ملتی ہے اور محنت کشوں کو گمنامی اور ذلت کے اندھیرے ۔

اس نظام زر کے اقتدار کے تقاضے ہر اصول، سچائی اور ضمیر کا سب سے پہلے قتل کرواتے ہیں۔ فلسطینی عوام کو ہر طرف سے غداری اور بےوفائی ہی ملتی ہے لیکن پھر بھی وہ جھکنے اور گٹھنے ٹیکنے سے انکاری ہیں۔ فلسطینی سماج میں بار بار موج بےکراں ابھرتی ہے جسے ساحل نصیب نہیں ہوتا۔ مزاحمت کی یہ لہر اگلی بار پھر سے ابھرنے کے لئے پسپا ہوجاتی ہے۔ سب حکمران پر رکھے ہوئے ہیں۔ رنگ نسل مذہب مسلک اور قومیت کے تمام رشتے فریبی ثابت ہوئے ہیں۔ اس نظام کی نمائندہ ہر شخصیت ادارے اور ریاست نے اس مسئلے کو اپنے مفادات کے لئے ہی استعمال کیا لیکن کب تلک؟

مشرقی وسطیٰ میں 2011ء کے انقلابی طوفان جہاں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے وہاں یہ پتا دیا ہے کہ اپنا کون ہے اور پرایا کون۔ اپنے وہی ہیں جن کے حالات زندگی اور مسائل مشترک ہیں۔ جنکی جڑت کی بنیاد قوم یا مذہب نہیں بلکہ غربت ، بے روزگاری اور بھوک ہے۔ انکی مشترکہ قدران کا طبقہ ہے ۔ فلسطین میں انتفاضہ پہلے بھی 1987ء اور 2000ء میں ابھرا تھا اور یہ عوامی بغاوت پھر سے بھڑکنے کے آثار پھر پیدا ہورہے ہیں۔ پچھلے ستر سال میں آزادی فلسطین اور غلامی سے نجات کیلئے مسلح جدوجہد، انفرادی دہشت گردی، جنگ اور مذاکرات کے جتنے بھی طریقہ کار اختیار کئے گئے ہیں وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں اور مسئلہ زیادہ گمبھیر ہی ہوا ہے۔

اگر جدوجہد کا کوئی طریقہ کار ثابت ہوا ہے تو وہ ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں پر مبنی اجتماعی عوامی مزاحمت یا بغاوت کا طریقہ تھا جو دوبار انتفاضہ میں نظر آیا۔ ان تحریکوں نے صہیونی حکمران کو مذاکرات مٰن رعایتیں دینے اور بہت سے قیدی رہا کرنے پر مجبور کیا لیکن انتفاضہ بکھرنے کے بع دیہ رعایتیں واپس لے لی جاتی ہیں اور جبر پھر سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ حتمی آزادی اور نجات صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جو اس نظام کو ختم کر کے دم لے گا۔

صہیونی ریاست کے ستم سے گھائل اور عرب حکمرانوں کی غداریوں سے چور فلسطینی عوام اب اگر بغاوت میں ابھرتے ہیں تو انہیں جس جنگ کو جیتنا ہوگا وہ قومی یا مذبی نہیں بلکہ طبقاتی جنگ ہے۔ یہ جنگ تب ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی جب صہیونی ریاست کے ساتھ ساتھ ان سے مادی مفاد میں منسلک رجعتی عرب حکمرانوں کے تخت بھی اکھاڑ دے۔ مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو یہ فریضہ ریاستوں کی کی جعلی لکیروں کو روندتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ادا کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی رضاکارانہسوشلسٹ فیڈریشن ہی خطے میں آزادی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ یہی 2011ء کے عرب انقلاب کی تکمیل ہوگی جو یروشلم سے قائرہ، تیونس سے تل ابیب تک اور بحرین سے حیفہ تک ابھرا تھا

 لال خان
بہ شکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘

Post a Comment

0 Comments