Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مہاجرین کے مسئلے کا حل کیا ہے؟

یورپی یونین نے تسلیم کیا ہے کہ سنہ 1990 کی بلقان جنگ کے بعد تارکینِ وطن کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے اُن کے انتظامات ناکافی ہیں۔
بحیرۂ روم میں تارکینِ وطن کی حالت زار اور دکھ بھری داستانوں نے یورپ کو غمگین کر دیا ہے۔ تارکین وطن کی اکثریت جنگ زدہ ملک شام سے تعلق رکھتی ہے اور وہ اس وقت انسانی سمگلروں کے ہاتھوں حراساں ہو رہے ہیں۔
کیا یورپی حکومتیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے بجائے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات کر سکتی ہیں؟

ذیل میں پانچ ایسے اہم موضوعات بیان کیے گئے ہیں جو یورپی یونین کے معاہدے کے تحت اس بحران کو قدرے کم کر سکتے ہیں۔

پناہ کے لیے متفقہ قوانین

ہنگری بھی یونان اور اٹلی کی طرح تارکینِ وطن کے لیے اہم جگہ بن گیا ہے اور ہزاروں افراد یورپی یونین میں پناہ لینے کے لیے ان ملکوں میں داخل ہو رہے ہیں۔
ان ’فرنٹ لائن‘ ممالک میں استقبالیہ کے مراکز لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں اور حکام پناہ کی درخواستوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
متفقہ قوانین کا مطلب یہ ہے کہ تارکین وطن کے کوائف جیسے فنگر پرنٹس اور شناختی کارڈ وغیرہ کی معلومات کا تبادلہ کیا جائے تاکہ ان کی نقل و حرکت کا پتہ لگایا جا سکے۔

یورپی یونین کی خصوصی ٹیمیں تارکین وطن کی چھان بین اور ان کی درخواستوں کو جلد نمٹنے میں حکام کی مدد کریں۔
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ’ڈبلن ضابطہ‘ کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ اس ضابطے کے تحت تارکین وطن جس ملک میں داخل ہوں گے وہ وہیں درخواست دینے کے پابند ہیں۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے اب تک کوئی سسٹم نہیں بنایا گیا۔
یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ ڈبلن ضابطہ کام نہیں کر رہا ہے کہ اور سنہ 2014 میں 75 فیصد تارکینِ وطن نے پناہ کی درخواست دی ہے۔
ہنگری اپنے ہمسایہ ممالک آسٹریا اور جرمنی سے شکایت کر رہا ہے کہ ان ہزاروں افراد کی رجسٹریشن کون کرے گا؟
 
ڈبلن ضابطے کے تحت تارکین وطن جس ملک میں داخل ہوں گے وہ وہیں درخواست دینے کے پابند ہیں۔
’فرنٹ لائن‘ ممالک اور اُن کے مشرقی یورپی ہمسایوں کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت جرمنی، برطانیہ اور سویڈن جیسے امیر ممالک جانا چاہتی ہے۔ تو پھر وہ اپنے ملک میں ایسے تارکین وطن کو کیوں رجسٹر کریں جو اُن کا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔

لیکن اس جواب میں جو دلیل دی گئی وہ یہ ہے کہ حکومتوں کو انسانیت کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔عالمی قوانین کے تحت مہاجرین کو دوسرے ممالک میں پناہ کا حق حاصل ہے اور کچھ نہ کرنا یا معمولی اقدامات کرنے سے اُن کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گا۔
پناہ کا قومی کوٹہ

یورپی یونین میں تارکین وطن کے حوالے سے قومی کوٹے پر بہت بات کی جا رہی ہے تاکہ تارکین وطن کا بوجھ برابر تقسیم ہو جائے۔
یورپی کمیشن ضروری کوٹہ سسٹم کے لاگو کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے جس کے تحت آئندہ دو برسوں میں 40 ہزار شامیوں کو رجسٹر کیا جائے گا۔ یورپی ممالک 32500 کو رضاکارانہ طور پر اپنانے کو تیار ہیں۔
برطانیہ اس معاملے میں کسی کوٹے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ مشرقی یورپی حکومتوں کی اکثریت کوٹہ سسٹم کی مخالف ہے اور کہتی ہیں کہ تارکین وطن کو اُن کے ملکوں میں قیام نہیں کرنا چاہیے۔

سلواکیہ، ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے چار ستمبر کوجاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ ’ایسی کوئی بھی تجویز جس میں کوٹہ کو لازمی قرار دیا جائے، اُسے تسلیم نہیں کریں گے۔‘
سلواکیہ اور ہنگری کے حکام عیسائیوں کے بارے میں پالیسی پر سوال کر رہے ہیں کیونکہ یورپ میں تارکین وطن کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جو شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے مسلمان اکثریتی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
لیکن کوٹے کا یہ منصوبہ ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ فرانس، جرمنی اور اٹلی اس کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
یورپی یونین کو تارکینِ وطن کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے
یورپی کمیشن جلد ہی پناہ گزینوں کی درخواستوں کو 28 ممالک میں تقسیم کرنے کے طریقہ کار کو لاگو کرنے والا ہے۔
اس کوٹے کا اطلاق صرف شام اور اریٹیریا کے مہاجرین پر ہو گا اس لیے یہ طریقہ کار بحران کے حل میں تو معاون نہیں ہے۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹیسکاونت کے لیے سب سے اہم ہدف ایک لاکھ تارکینِ وطن کی ’مساوی تقسیم‘ ہے۔

نقل مکانی کے مسئلے کو بنیاد سے پکڑا جائے

یورپی یونین نے لیبیا کے ساحل کے قریب سمندر میں گشت و نگرانی کو بڑھا دیا ہے۔ انسانی سمگلروں کی کشیوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔
برطانیہ کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو نقل مکانی کے آغاز ہی سے اُسے کنٹرول کرنے پر زور دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ یورپ آنے والا یہ خطرناک راستہ بند ہونا چاہیے۔
یورپ میں داخل ہونے کا راستہ مہلک ہے اور اس کی روک تھام کے یورپی یونین کو طویل مدتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
شام میں جنگ بندی سے صورتحال تبدیل ہو جائے گی لیکن یہ بھی فوری طور پر ممکن نہیں ہے ۔ یورپ آنے والوں کی اکثریت شامیوں کی ہے۔
تارکینِ وطن کی اکثریت بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ میں داخل ہوتی ہے۔
تقریباً 40 لاکھ شامیوں نے ترکی لبنان اور دوسرے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی ہے۔ ان مہاجرین کو سب سے زیادہ امداد دینے والے یورپی ممالک اور برطانیہ ہے اور ان ممالک کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو مشرق وسطیٰ کو ترجیح دینا چاہیے۔
امیر خلیجیٰ ریاستوں نے بہت کم شامیوں کو پناہ دی ہے اور اسی لیے اُن پر کئی حلقے تنقید بھی کر رہے ہیں۔

افریقی ملک اریٹیریا میں جہاں انسانی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں سے بھی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان لڑائی ختم ہونے سے بھی مہاجرین کی تعداد کم کرنے میں مدد ملے گی لیکن اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے اس معاملے پر بھی یورپ منقسم دکھائی دیتا ہے۔
نیم صحرائی افریقی علاقوں میں یورپ کی امداد سے ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اس طرح اقتصادی مقاصد کے لیے کی جانے والی نقل مکانی میں کمی آ سکتی ہے۔

لیکن بہت سے افراد نائجیریا، سوڈان، صومالیہ اور جمہوریہ کانگو سے نقل مکانی کر رہے ہیں ان ممالک میں معیشت کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔ اس لیے یورپی یونین کو مربوط جارحانہ خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔
نقل مکانی کے قانونی راستے

یورپی یونین کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں استقبالیہ مراکز بنائے تاکہ پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کی جا سکے۔
اس طرح بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ پیش آنے والے افسوسناک واقعات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
یورپی یونین کے صدر مسٹر ڈونلڈ نے کہا کہ استقبالیہ کے مراکز کو ’یورپ سے باہر جنگ زدہ علاقوں کے قریب ہونا چاہیے جہاں مہاجرین کے کیمپ ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان مراکز کے قیام سے یورپی یونین کو تارکینِ وطن کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔‘
مشرقی افریقی ممالک سے یورپ میں ہونے والی انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے یورپی یونین نائیجریا میں پائلٹ مرکز بنائے گا تاکہ یورپی میں پناہ کے قوانین اور مواقعوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
 
ڈبلن ضابطے کے تحت یورپی یونین نے لیبیا کے ساحل کے قریب نگرانی اور گشت بڑھا دی ہے
ہنر مند افراد کی یورپ میں ملازمت کے حصول کے لیے بلیو کارڈ سکیم موجود ہے لیکن یہ بہت محدود ہے کیونکہ اس کا مقابلہ قومی سکیموں کے ساتھ ہے اور برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
یورپ میں امریکہ کی طرز پر گرین کارڈ لاٹری سکیم کی ضرورت ہے جس کے تحت ہر سال 50 لاکھ غیر ملکیوں کو ویزا جاری کیا جائے۔
نوٹینگم ٹرینٹ یونیورسٹی سے وابستہ جین سیمیلاروجن کا کہنا ہے کہ ایسی سکیموں سے یورپ پر پناہ لینے والوں کے دباؤ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

زیادہ تر یورپی ممالک میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے لیکن یورپ میں مخصوص ہنر کے حامل افراد کی طلب بہت زیادہ ہے۔ جیسے جرمنی میں انجنئیرز اور کمپیوٹر کے شعبے کے ماہرین کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
تارکین وطن کو واپس بھیجوانا
یورپی ممالک کے حکام پناہ کی درخواستیں رد ہونے والے کے بعد بہت ہی کم تارکینِ وطن کو ملک بدر کرتے ہیں۔ انسانی سمگلر اس سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اکثر یورپ جانے والوں کو حراساں کرتے ہوئے اُن سے ہزاروں پاؤنڈ بٹورتے ہیں۔

سنہ 2014 میں پناہ کے لیے دائر کی گئی 45 فیصد درخواستیں رد کر دی گئیں۔ بعض ملکوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا تمام افراد کی درخواستیں منظور ہی نہیں کی گئیں۔
یورپی یونین پر اس بات پر بھی دباؤ ہے کہ وہ ’محفوظ ممالک‘ کے حوالے سے فہرست مرتب کریں تاکہ زیادہ تارکین وطن واپس بھیجوانے کے حوالے سے قانونی نکتہ فراہم کیا جائے۔
جرمنی میں آنے والے تارکینِ وطن کی اکثریت نے غربت کی وجہ سے مغربی بلقان کو خیر آباد کہا اور یہ مہاجرین نہیں ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے یورپ سربیا، کوسوو، البانیا بوسنیا ہیزوگوینا اور میسوڈونیا کو محفوظ قرار دے۔
یہ اُن ممالک کے لیے دقت طلب ضرور ہے۔جو یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرنا چاہیے ہیں۔ جہاں نقل و حرکت کی آزادی ایک اہم قدر ہے۔

لارینس پیٹر
بی بی سی نیوز

Post a Comment

0 Comments