Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ہمارے سیاسی رہنما جرنیلوں کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالتے ہیں؟...شاہنواز فاروقی

مشہور لطیفہ ہے، ایک صاحب نے دست شناس کو ہاتھ دکھایا اور قسمت کا حال معلوم کیا۔ دست شناس نے ہاتھ دیکھا اور کہا کہ ”آپ بارہ سال تک غربت میں مبتلا رہیں گے۔ 
”اس کے بعد؟“ ان صاحب نے بیتابی سے پوچھا۔
”اس کے بعد آپ کو غربت کی عادت ہوجائے گی۔“ دست شناس نے اطمینان سے جواب دیا۔
یہ بھی مشہور لطیفہ ہے، پاکستان کے کئی سیاست دانوں نے دست شناس کو ہاتھ دکھایا۔ دست شناس نے کہا 
”آپ 30 سال تک جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے۔ 
”اور اس کے بعد؟“ سیاست دانوں نے امید بھرے لہجے میں پوچھا۔
”اس کے بعد آپ کو ہتھیار ڈالنے کی عادت ہوجائے گی۔“ دست شناس نے کہا۔

میاں نوازشریف اِس بار اقتدار میں آئے تھے تو ان کے پاس ایک بار پھر بھاری مینڈیٹ تھا۔ میاں نوازشریف کا کیمپ کہہ رہا تھا کہ میاں صاحب اب بدلے ہوئے میاں صاحب ہیں، انہوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے، وہ اپنے اقتدارِ اعلیٰ کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور ہر قیمت پر اس کا تحفظ کریں گے۔ میاں صاحب نے ابتدا میں ان خیالات کی تائید کی کوشش بھی کی۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی نہج پر استوار کرنے کی کوشش کی۔

اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ میاں صاحب نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں جائیں، مگر میاں صاحب نے مودی کے دربار میں حاضری لگانا ضروری سمجھا۔ ابتدا میں میاں صاحب طالبان کے خلاف آپریشن کے حق میں بھی نہیں تھے۔ وہ مذاکرات چاہتے تھے اور انہوں نے بے دلی کے ساتھ ہی سہی، مذاکرات کا اہتمام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن بعدازاں میاں صاحب بھارت کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی سے پوری طرح ہم آہنگ ہوگئے اور انہوں نے جنرل راحیل شریف کے فوجی آپریشن کو گود لے لیا۔
جیو کے ساتھ تنازعے میں بھی میاں صاحب نے ابتداً جیو کی حمایت کی کوشش کی، مگر وہ چند گھنٹے ہی اس پوزیشن پر کھڑے رہ سکے۔ اور اب صورت حال یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف اس طرح غیر ملکی دورے فرما رہے ہیں جیسے وہ سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت ہوں۔

انہیں غیر ملکی دوروں میں غیر معمولی پروٹوکول دیا جارہا ہے۔ دوسرے ممالک سے آنے والے اعلیٰ سطح کے وفود پاکستان آتے ہیں تو میاں نوازشریف کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل شریف سے بھی ضرور ملاقات کرتے ہیں۔

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جنرل راحیل شریف میاں نوازشریف کے ”اقتدار شریک بھائی“ بن کر ابھر چکے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے اس صورت حال کو دل و جان سے قبول کرلیا ہے۔ ان کا بھاری مینڈیٹ ایک بار پھر ہلکا ثابت ہوچکا ہے۔ ان کا اقتدارِ اعلیٰ ایک بار پھر اقتدارِ ادنیٰ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ان کی خودی خود کا مونث بن چکی ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی ذہنی و نفسیاتی حالت کا عکاس اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر پرویزرشید کا وہ بیان ہے جو 4 مئی 2015ءکو روزنامہ جنگ کراچی میں صفحہ ¿ اوّل پر تین کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہوا۔

اس بیان میں پرویز رشید نے فرمایا: ”ہم سب ایک ہیں۔ عسکری قیادت حکومت کا حصہ ہے اور قومی معاملات میں عسکری قیادت کی رائے شامل ہوتی ہے اور ان کے ساتھ مشاورت ہی سے قومی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ 
تجزیہ کیا جائے تو پرویزرشید کا یہ بیان جمہوری اور سیاسی شرمندگی کی ایک پوٹ ہے۔ ملک کے آئین میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ الگ الگ شعبے ہیں، لیکن پرویزرشید صاحب فرما رہے ہیں کہ ”ہم سب ایک ہیں“۔ 
پرویزرشید نے ”انکشاف“ کیا ہے کہ عسکری قیادت حکومت کا حصہ ہے۔

یہ بجائے خود ایک افسوس ناک بات ہے۔ اس لیے کہ آئین میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عسکری قیادت حکومت کا حصہ ہو۔ لیکن غور کیا جائے تو اصل صورت حال یہ ہے کہ عسکری قیادت حکومت کا نہیں، حکومت عسکری قیادت کا حصہ ہے۔ جب ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسی حکومت کے ہاتھ میں نہ ہو تو آخر حکومت کو کس بنیاد پر حکومت کہا جائے؟ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے سیاسی رہنما جرنیلوں کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالتے ہیں؟

اس سوال کا ایک جواب فوج کی طاقت اور بالادستی ہے۔ فوج ملک کا طاقت ور ترین ادارہ ہے اور اس کا اثر زندگی کے ہر شعبے پر ہے۔ فوج، فوج میں ہے۔ فوج حکومت میں ہے۔ فوج ذرائع ابلاغ میں ہے۔ فوج کاروباری اداروں میں ہے۔ فوج کا امیج یہ ہے کہ فوج ملک کا سب سے محب وطن ادارہ ہے۔ فوج کی ساکھ یہ ہے کہ فوج ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے۔ ہر ادارہ غلط ہوسکتا ہے مگر فوج کبھی غلط نہیں ہوسکتی ۔

پاکستان کے سیاسی رہنما شعوری یا لاشعوری طور پر ان تمام باتوں کے زیراثر ہوتے ہیں، چنانچہ جیسے ہی فوج اپنی حیثیت پر اصرار شروع کرتی ہے، سیاسی رہنما جرنیلوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔ فوج کی بالادستی اور غلبے کے نتیجے میں ملک نے چار فوجی آمریتیں بھگتی ہیں۔ لیکن فوج جب اقتدار میں نہیں ہوتی تو بھی فوج ہی کی بالادستی ہوتی ہے۔

امریکہ اور جرنیلوں کا گٹھ جوڑ وطن عزیز کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ امریکہ کہنے کو جمہوریت کا عَلم بردار ہے مگر اُس کا اصل مسئلہ آزادی، جمہوریت اور مساوات نہیں بلکہ اُس کے مفادات ہیں۔ امریکہ کا مفاد ہو تو وہ ایک لمحے میں جمہوری حکومت کو ترک کرکے فوجی آمریت کو اختیار کرلیتا ہے۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ءمیں مارشل لا لگایا مگر وہ 1954ءسے امریکہ کے رابطے میں تھے۔ وہ امریکہ کو باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کی اصل طاقت سیاسی حکومت نہیں، فوج ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے ایک بار بھی جنرل ایوب کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔

چنانچہ امریکہ کی حمایت سے شہہ پاکر جنرل ایوب نے 1958ءمیں مارشل لا لگا دیا۔ لیکن یہ صرف جنرل ایوب کی کہانی نہیں ہے۔ جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویزمشرف کا قصہ بھی یہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بسا اوقات امریکہ سول حکومت اور فوج کو باہم لڑانے کے لیے سول حکومت کی پشت پناہی بھی کرتا رہا ہے، مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ جرنیلوں کے غلبے کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ جونیجو کے سلسلے میں یہی ہوا، اور میاں نوازشریف کے ضمن میں بھی تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دوہرایا۔

ہماری سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کی صلاحیت صفرہے۔ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کی مزاحمتی صلاحیت دو چیزوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک بلند اخلاقی ساکھ سے اور دوسرے منظم اور مرتب ہونے سے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی اخلاقی ساکھ کمزور ہوتی ہے۔ ان پر بدعنوانی کے الزامات ہوتے ہیں، اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ہوتے ہیں۔ اور یہ الزامات ان کی مزاحمتی صلاحیت کو کھا جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کا منظم اور مرتب نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں بھٹو صاحب اور میاں نوازشریف کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بھٹو صاحب قائدِ عوام تھے، قائدِ ایشیا تھے۔ مگر ان کی جماعت اوّل و آخر جاگیرداروں اور وڈیروں کی جماعت تھی۔ اس جماعت کی نہ کوئی اخلاقی تربیت ہوئی تھی نہ یہ علمی تربیت کے کسی مرحلے سے گزری تھی۔

چنانچہ بھٹو صاحب نے کہا تو تھا کہ مجھے پھانسی ہوئی تو سندھ میں خون کی نہریں بہہ جائیں گی مگر جب بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو سندھ میں خون کیا پانی کی نہر بھی نہ بہہ سکی۔ میاں نوازشریف اکتوبر 1999ءمیں جنرل پرویزمشرف کے ہاتھوں برطرف ہوئے تو ان کے پاس ”بھاری مینڈیٹ“ تھا۔ میاں نوازشریف کا تعلق سندھ سے نہیں 
پنجاب سے تھا، لیکن میاں صاحب کی کوئی منظم جماعت نہ تھی۔

چنانچہ میاں صاحب کا بھاری مینڈیٹ چند لمحوں میں بھاپ بن کر اڑ گیا۔ میاں صاحب برطرف ہوئے تو لاہور سمیت کہیں بھی کوئی مظاہرہ نہ ہوسکا۔ میاں صاحب کی برطرفی کے پندرہ بیس روز بعد کراچی میں ریگل چوک پر ایک مظاہرہ ہوا، مگر اس مظاہرے میں پندرہ بیس لوگوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ بھٹو صاحب اور میاں صاحب کے پاس منظم جماعتیں ہوتیں تو انہیں اقتدار سے باہر کرنا ناممکن ہوجاتا، اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اُسے اس کی بھاری قیمت چکانی پڑتی۔ لیکن چونکہ بھٹو صاحب اور میاں صاحب کے پاس منظم جماعتیں نہیں تھیں اس لیے انہیں برطرف کرنے والے فوجی آمروں کو اپنے کھیل میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔

ہمارے سیاسی اور سول حکمرانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں اقتدار اور اختیار کے بجائے حکومت کی صورت میں ایک تعیش درکار ہوتا ہے۔ وہ ایوانِ وزیراعظم میں رہنا چاہتے ہیں، ہر روز اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی اسکرین پر طلوع ہونا چاہتے ہیں، وہ چند سو یا چند ہزار لوگوں کو نوکریاں دلانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے اقتدار اور اختیار پر سودے بازی کرلیتے ہیں۔

شاہنواز فاروقی 


Post a Comment

0 Comments