Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

برطانوی امریکی استعماری ٹولے کا جاسوسی جال

بڑے میاں (باراک اوباما) تو بڑے میاں چھوٹے میاں (ڈیوڈ کیمرون) سبحان اللہ۔ برطانوی خفیہ ایجنسی یا برطانیہ کے کرائے کے مقامی جاسوس پاکستان کے سرکاری راز چُرا کر اپنی حکومت کو دیتے ہیں۔ اس جاسوسی نظام کا جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے شہریوں کے ٹیلی فون، نجی مراسلات، ای میل اور انٹرنیٹ تک ان کی دسترس میں ہیں۔ گویا پاکستان کے سرکاری راز معلوم کرنے کے لیے برطانیہ اور امریکہ کو کوئی دقت نہیں پیش آتی تاہم یہ استعماری ٹولہ عسکری سے لے کر معیشت، صحافت، جامعات، سائنسی تحقیقات، صنعتی تنصیبات، کان کنی تک پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

البتہ پاکستان کے جوہری اسلحہ خانے اور اس کے دفاعی منصوبوں تک ان شکاری کا گزر نہیں ہے۔ اس ضمن میں اکثر میں اپنے کالموں میں وقتاً فوقتاً دو اہم واردات کا ذکر ضرور کرتا ہوں تا کہ جہاں حکمرانوں کی کوتاہیوں سے استعماری ٹولے کو ریاست کے راز معلوم ہو جاتے ہیں وہاں قارئین کو یہ بھی معلوم ہو کہ قوم کے جوہری منصوبے کی حفاظت ایسے محب وطن حکام کے آہنی ہاتھوں میں ہے کہ وہاں امریکی، برطانوی، فرانسیسی ، جاسوسوں کا گزر تو کجا ان کا سایہ بھی نہیں پڑ سکتا۔

 جنرل ضیاء الحق کے دورحکومت میں فرانسیسی سفیر ’’اسلامی بم‘‘ کی بو سونگھتے ہوئے کہوٹہ کی ایٹمی تجربہ گاہ کے گردو نواح تک پہنچ گئے لیکن جونہی انہوں نے سرخ لکیر پار کی تو انہیں ’’پر اسرار بندوں‘‘ نے پکڑ لیا پھر کیا تھا ان کے دانت توڑ دیئے۔ اس سانحے کو لگ بھگ اڑھائی عشرہ بیت گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ موصوف افرانسیسی سفیر اب بھی حیات ہیں یا نہیں یا اگر حیات ہیں تو حاضر ملازمت ہیں یا ریٹائر ہو چکے ہیں۔
میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو اس واردات کی تحقیق کرنی ہے تو ان کے نقلی دانتوں کا معائنہ کرے بشرطیکہ موصوف اپنے جبڑے نہ بھینچ لیں۔ کم از کم ہمارے کمانڈروں (کمانڈوز نہیں کیونکہ اردو میں زنگا کر واحد کو جمع نہیں بنایا جا سکتا جیسا روزنامہ اسلام کے ’’انگریزی داں‘‘ میرے مضامین کی ’’اصلاح‘‘ کرتے وقت تحریف کر دیتے ہیں) نے سفیر موصوف کو ویانا کنونشن برائے سفارتی تعلقات 1961ء کی شقوں کو ان کے ذہن نشین کر دیا۔

دوسری واردات بی بی سی کے رپورٹر کرس شرویل کی ہے۔ نہ جانے کیوں بڑی بی (بی بی سی) کو خبر رسانی چھوڑ کر مخبری کی سوجھی کہ اپنے مذکورہ رپورٹر کو جاسوسی کے لیے کہوٹہ بھیج دیا۔ وہاں اس کی ملاقات تجربہ گاہ کے نگران محافظوں سے موت کی طرح برحق تھی۔ شرویل شراب پیئے ہوئے تھا اور ایک بازاری عورت کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور اسے اسی حالت میں تھانے لے جایا گیا۔ اس وقت تک اس کا نشہ ہرن ہو چکا تھا۔

ہمارے ملک کے پاسبانوں کے ذریعے ڈاکٹر شکیل آفریدی ایک غیر ملکی مالی امداد پر پلنے والی جعلی تنظیم کی جانب سے پولیو کی مہم کی آڑ میں کاکول اکادمی کی نواحی بستی بلال ٹاؤن میں اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کے خون کے نمونے لینے پہنچ گیا اور اس کی اطلاع اپنی ایجنسی کو نہیں بلکہ اپنے آقا کی ایجنسی کو دے دی جس کے باعث اس مکان پر امریکی قزاقوں نے حملہ کر دیا اور جب عدالت نے اس غدار کو اس کے جرم کی پاداش میں سزا سنائی تو چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد کے مصداق امریکی صدر اور وزیر خارجہ نے سخت احتجاج کیا۔ خیر چور تو مچاتا ہے شور۔ جب غدار شکیل آفریدی غداری کے الزام میں سزا کاٹ رہا تھا تو جیل کے عملے نے اسے قواعد و ضوابط کے خلاف اپنے آقا سے رابطے کے لیے موبائل فون اور رابطے کی دیگر سہولیات فراہم کی ہوئی تھیں۔

ادھر امریکی صحافی سیمور ہرش نے سنسنی خیز انکشاف کیا کہ پاکستان کا ایک افسراسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے میں داخل ہوا اور اسامہ بن لادن کی سراغرسانی میں اعلان شدہ انعام کی رقم اپنا حصہ طے کرنے کے بعد ان کی نشاندہی کر دی اور اب واشنگٹن میں امریکی مخبر ایجنسی کے معتبر کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بارے میمو گیٹ سکینڈل کا ذکر ہو جائے۔ آصف زرداری کے نامزد کردہ سفیر برائے امریکہ حسین حقانی سے ایک مراسلہ منسوب کیا جاتا ہے جس میں موصوف نے امریکی جنرل جونس کے توسط سے امریکی فوج کے سربراہ کو تحریر کیا تھا کہ اگر پاکستان کی فوج منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے تو وہ اس کا سدباب کرے۔ اس پر سفیر موصوف کی پیشی بھی ہوئی جس میں انہوں نے عارضی طور پر امریکہ جانے کی اجازت طلب کی تھی اور واپسی پر عدالت میں حاضری دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ نے اسے اجازت دے دی۔ لیکن امریکہ جانے کے بعد وہ واپس ہی نہیں آئے نیز بلال ٹاؤن پر امریکی حملے کی تحقیقات کے لیے ایبٹ آباد کمیشن بھی قائم ہوا لیکن اس کی رپورٹ ہنوز شائع نہیں ہوئی۔ یہ قوم کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ شہری کو اطلاعات تک رسائی ہونی چاہیے۔ اس کے لیے  موجود ہے۔

ابھی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ میڈیا میں بڑا چرچہ تھا کہ پاکستان کے بعض اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل کے چند صحافیوں کو مبینہ طور پر غیر ملکی ذرائع، رقوم فراہم کرتے ہیں اسی طرح پی ٹی سی ایل کے حصص کی فروخت پر یہ ’’افواہ‘‘ بازگشت کر رہی تھی کہ اس میں جاسوسی آلات نصب کر دیئے گئے ہیں جن کے ذریعے سرکاری راز غیر ملکی ایجنسیوں کو پہنچ جاتا ہے۔

 کچھ عجب نہیں کہ اس بہتی گنگا میں بھارت بھی ہاتھ دھو رہا ہو اور جہاں تک وکی لیکس کا تعلق ہے تو اس نے تو یہ چشم کشا انکشاف کیا تھا کہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان میں متعین امریکی سفارتکاروں کو ہدایت کی تھی کہ پاکستان کے وزراء و حکام کی معمول کی نقل و حرکت حتی کہ ان کے اندرون و بیرون ملک دوروں، فضائی سفر، ان کی پروز نمبروں، عارضی قیام اور منزل مقصود تک کی مخبری کریں۔ وہ آئندہ صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ اس پر ہم صرف اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں؟

پروفیسر شمیم اختر
بہ شکریہ روزنامہ نئی بات

Post a Comment

0 Comments