Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

معاشرے کو جنگل سمجھنے والوں کی ذہنیت کیسے بدلے گی؟....


مرحوم صدیق خان کانجو ایک بھلے مانس آدمی تھے۔ اُن میں وڈیروں والی کوئی بات نہیں تھی، ہر وقت چہرے پر دلآویز مسکراہٹ بکھیرے رکھتے، ہر ایک سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے، مجھے اُن سے کئی بار ملنے کا اتفاق ہوا۔ کبھی ملتان، کبھی لودھراں اور کبھی کہروڑ پکا میں۔ جس روز اُنہیں قتل کیا گیا ہم کہروڑ پکا پہنچے، شہر میں سوگ کی فضا تھی،اُن کے ڈیرے پر گئے تو عوام کا جم غفیر بھی جمع تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یہ ان کے ہر دلعزیز ہونے کی دلیل تھی۔ صدیق خان کانجو نے اپنے بیٹوں کو بیرون مُلک تعلیم دلوائی۔ اُن کے بڑے بیٹے عبدالرحمن کانجو اُن کی سیاسی گدی کے جانشین بنائے گئے۔ 

جب صدیق خان کانجو کا قتل ہوا، تو عبدالرحمن کانجو ایک نوخیز نوجوان تھے۔ اُنہیں سیاست کی کوئی شُدبدھ نہیں تھی، ابھی تازہ تازہ بیرون مُلک سے تعلیم مکمل کر کے آئے تھے، تاہم انہوں نے ایک شریف اور وضع دار نوجوان کی حیثیت سے خود کو منوایا۔ لوگوں نے پہلے انہیں ضلع لودھراں کا ناظم بنایا، بعد ازاں وہ ایم این اے بنے۔ آج بھی وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایم این اے ہیں۔ آج جب اسی خاندان کے ایک نوجوان اور عبدالرحمن کانجو کے بھائی مصطفی کانجو پر ایک معصوم نوجوان15سالہ زین کے قتل کا مقدمہ بنا ہے، تو مَیں سوچ رہا ہوں کہ کبھی کبھی اولاد کس طرح اپنے والدین کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ قتل ہو کر شہادت کا رتبہ پانے والے صدیق خان کانجو کا نام آج ایک قاتل کے باپ کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ صدیق خان کانجو نے اپنی زندگی میں کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا، جب اُن کے لاڈ پیار سے بگڑ جانے والا بیٹا قاتل بن کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔

پاکستان میں موجود بہت سی مکروہ اور قابلِ نفرت حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں طاقت کا گھمنڈ ایک عذاب کی صورت میں مسلط ہے۔ بدمست طاقت کو صرف قانون ہی لگام ڈالتا ہے، مگر ہمارے ہاں چند طبقوں نے قانون کو مینڈک بنا رکھا ہے، جو پھدکتا تو بہت ہے، لیکن کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ حیرت ہے کہ وڈیروں اور نو دولتیوں کی یہ بگڑی ہوئی اولادیں بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اندر سے وحشی ہی رہتی ہیں۔ مصطفی کانجو اس کی تازہ ترین مثال ہے۔اس سے پہلے کراچی میں شاہ زین قتل کیس میں بھی ایک بگڑے وڈیرے زادے نے قتل کرنے کے بعد وکٹری کا نشان بھی بنایا تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں اب وقت آ گیا ہے کہ اس گھمنڈ کو بھی توڑ دیا جائے۔

 اس کے لئے اگر زین قتل کیس کو ٹیسٹ کیس بنا لیا جائے اور اسے ملٹری کورٹ میں بھیج کر تیز رفتار انصاف کی چھلنی سے گزار کر نشانِ عبرت بنا دیا جائے، تو شاید آئندہ کسی وڈیرے کے بیٹے کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ صرف اپنی محبوبہ کو خوش کرنے کے لئے پورے محلے پر اندھا دھند گولیاں برسائے اور ایک ماں کے واحد سہارے کو چھین لے۔ اب خواص کے لئے ہر قسم کی رعایات اور قانونی موشگافیوں کا راستہ بند ہو جانا چاہئے۔ مُلک میں تبدیلی کے جو اشارے نظر آ رہے ہیں، اُن میں یہ ایجنڈا بھی شامل ہونا چاہئے۔

یہ تاثر اب ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ بڑے خاندانوں کے بگڑے ہوئے بچے جو چاہیں کریں، قانون اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔اب بال تو کیا گردن مروڑ نے کا وقت آ گیا ہے۔ معاشرے ایسے نہیں چل سکتے، جیسے ہم چلاتے آئے ہیں۔ گوجرانوالہ کے دو بھائیوں کو سرعام مارنے والوں کو پھانسی دی جا سکتی ہے تو ایسے لوگوں کو کیوں نہیں دی جا سکتی، جو سرعام فائرنگ کر کے خوف و ہراس بھی پھیلاتے ہیں اور بندہ بھی مار دیتے ہیں۔ پندرہ سالہ نوجوان زین کی ناگہانی موت کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں، وہ شرمناک بھی ہیں اور چونکا دینے والے بھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیولری گراؤنڈ جیسے حساس علاقے میں مصطفی کانجو نے اپنی علیحدہ ریاست بنا رکھی تھی۔ محلے والوں کے بقول وہ دہشت کی علامت تھا اور آئے روز شراب و شباب کی محفلیں سجاتا، مخالفت کرنے والوں کو اپنے گارڈز کے ذریعے اٹھوا لیتا اور گھر لے جا کر تشدد کا نشانہ بناتا، فائرنگ اُس کا معمول تھا، وڈیرا اور پھر ایم این اے کا بھائی ہونے کی وجہ سے کوئی اُس پر ہاتھ نہ ڈالتا۔

لاہور جیسے شہر میں اس قسم کے لوگوں کی موجودگی اور پھر قانون کی بے بسی کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ کراچی جیسے حالات تو ڈھکے چھپے انداز میں ہر جگہ موجود ہیں۔ عوام کا ایسے کیسوں کے بارے میں تجربہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے۔ ورثاء کو دھمکانے کا آغاز تو ابھی سے ہو چکا ہے۔ اگر اس کیس کو بھی عام طریقے سے چلایا گیا تو ورثاء کو انصاف ملتے برسوں لگیں گے۔ اس دوران اُن پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہے گا، پھر قتل کے ایسے مقدمات خود ورثاء کو لڑنے پڑتے ہیں۔ جوان بیٹا گنوانے والی بیوہ ماں کو اگر انصاف لینے کے لئے بھی لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑے، تو یہ دہرا ظلم ہو گا۔ ویسے بھی یہ کیس معاشرتی سدھار کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سے پورے مُلک میں خوف و دہشت کی فضا پھیلی ہے، اس کیس میں وہ تمام وجوہات موجود ہیں، جن کی بنا پر اسے ملٹری کورٹ میں بھیجا جانا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا اور عدالتی ہتھکنڈوں کے ذریعے اس کیس کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو مَیں سمجتا ہوں یہ نہ صرف زین کی ’’بہنوں اور بیوہ ماں‘‘ سے زیادتی ہو گی، بلکہ معاشرے کے ساتھ بھی ظلم ہو گا، جو لاقانونیت کی ہر شکل مٹانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر بڑی اور سنگین لاقانونیت کے ڈانڈے بالآخر سیاست کے ساتھ ہی کیوں جا ملتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اس تصور کو تبدیل نہیں کر سکے،کبھی کوئی ایم پی اے تھانے سے بندے چھڑا لیتا ہے، کبھی کوئی سیاسی وڈیرا اپنے علاقے کے سیاسی مخالفین کو اندر کروا دیتا ہے۔ کراچی سے پشاور تک جرم کے اکثر کیسوں کا کُھرا دیکھا جائے تو وہ کسی سیاست دان کے گھر ہی جاتا نظر آتا ہے۔ کہیں وہ ملزموں کو بچانے کے لئے موجود ہوتا ہے اور کہیں ملزموں کو جرم پر اُکسانے کے لئے۔ شاید یہی وہ سیاسی رویہ اور تصورِ سیاست ہے، جو سیاست دانوں کی اگلی نسل میں منتقل ہوا ہے۔ اُن کے بچے جب سب کچھ اپنے سامنے ہوتا دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قانون کس طرح اُن کے بڑوں کی بارگاہ میں ہر وقت جھکا رہتا ہے، تو پھر وہ اسی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ وہ جب اپنی گاڑی پر ایم این اے، ایم پی اے یا وزیر مشیر کی پلیٹ لگا کر سڑکوں پر آتے ہیں تو اُن کے دماغ عرش پر ہوتے ہیں۔ انہیں ساری مخلوق کیڑے مکوڑوں جیسی لگ رہی ہوتی ہے۔

کوئی ٹریفک وارڈن اگر اُنہیں روکنے کی گستاخی کر بیٹھے، تو اُسے نشانِ عبرت بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔ اُن کے ساتھ چار چھ مسلح گن مین چل رہے ہوتے ہیں، جنہیں یہ مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس کو چاہیں مار ڈالیں، کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے ڈرائیور کی ذہنیت بھی اپنے جیسی بنا دیتے ہیں، جو سامنے آنے والوں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ اِسی لاہور میں سابق وزیراعظم کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا ڈرائیور اوور ٹیک کرنے کی پاداش میں ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان کو کچھ عرصہ پہلے مار چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس ذہنیت کو کیسے بدلا جائے؟ کیا سیاست دانوں سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے سپوتوں کی اچھی تربیت کریں، انہیں قانون پسند بنائیں۔ کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں، کیا اُن کی اپنی سوچ اور ذہنیت اس قسم کی نہیں۔ وہ جب خود قانون کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، کوئی دوسرا باہر سے کیسے انہیں بدل سکے گا؟ جب تک بچے اپنے والدین کو ایک رول ماڈل کی صورت میں نہ دیکھیں، وہ کیسے سدھر سکیں گے؟

مَیں ایک مثال دیتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے بچے کبھی نہیں بگڑ سکتے، کبھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے، کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے گھر میں اس کی مثال ہی نہیں دیکھی، مگر اُن کے مقابلے میں وہ سیاست دان، خاص طور پر وہ سیاسی وڈیرے ،جو طاقت کو کامیاب سیاست کی بنیاد سمجھتے ہیں، وہ اپنے رہن سہن سے لے کر اپنے مجموعی معاشرتی رویے تک میں معاشرے کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ ہر قانون سے بالاتر ہیں۔ اُن کے اس رویے کا اثر و نفوذ اُن کے بچوں پر بھی ہوتا ہے اور وہ بگڑے نوابزادے بن کر معاشرے کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔ یہ توقع کرنا کہ سیاست دان خود قانون کی طاقت کو تسلیم کر لیں گے، ایک خوش فہمی تو ہو سکتی ہے، حقیقت نہیں۔

 قانون کو خود اپنی طاقت منوانا پڑے گی اور ایسی مثالیں قائم کرنا ہوں گی، جو اس تاثر کو ختم کر دیں کہ قانون طاقتوروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جس طرح کراچی میں قانون کی رٹ قائم ہوتی نظر آ رہی ہے، اُسی طرح بغیر کسی رو رعایت کے مُلک کے دیگر حصوں میں بھی اس کا بے رحمانہ نفاذ ہونا چاہئے۔ میری ذاتی رائے میں لاہور کا زین قتل کیس اس ضمن میں ایک بڑی مثال بن سکتا ہے اگر قانون سیاسی دباؤ یا مصلحتوں کے آگے گھٹنے نہ ٹیک دے۔

نسیم شاہد


Post a Comment

0 Comments