Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

الطاف بھائی اور کراچی....

ایم کیو ایم سیاسی طور پر مشکل میں ہے، الطاف بھائی ذاتی طور پر بھی مشکل میں ہیں، لندن میں منی لانڈرنگ کے کیس میں ان سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے، الطاف بھائی کی یہ مشکل کسی طور پر بھی سیاسی ہر گز نہیں یہ خالصتاً ذاتی مشکل ہے یہ معاملہ لندن کے ایک شہری اور حکومت کا ہے، جس کا فیصلہ لندن نے کرنا ہے۔ الطاف بھائی کو ایک مزید مشکل کا سامنا بھی ہے۔ یہ مشکل بھی ان کی ذاتی مشکل ہے ان کے ایک دیرینہ ساتھی کو لندن میں قتل کر دیا گیا۔ لندن پولیس کو ان قاتلوں کی تلاش ہے، اتفاق کی بات ہے کہ ابھی تک جن ملزمان کو پکڑا گیا ہے ان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ عمران فاروق کے قاتلوں کی گرفتاری پاکستان سے ہوئی ہے ان ملزمان کا معاملہ زیر تفتیش ہے۔ 

ایک سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا عمران فاروق کے قاتلوں کی پاکستان میں گرفتاری سے الطاف بھائی کو کوئی نقصان ہو سکتا ہے؟ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ان ملزمان کے کسی بھی طرح کے بیان کی پاکستان میں کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کے بیان کی وجہ سے الطاف بھائی ملزم ثابت ہو سکتے ہیں، البتہ یہاں تفتیش مکمل ہونے کے بعد اگر ان لوگوں کو لندن کے حوالے کر دیا جائے اور پھر وہاں پر کسی بھی سطح پر تفتیش کے دوران یہ لوگ الطاف بھائی کے حوالے سے کوئی بیان ریکارڈ پر لاتے ہیں تو پھر الطاف بھائی کے لئے مشکل ہو سکتی ہے۔

فی الحال الطاف بھائی کی ان مشکلات کو پاکستان میں صرف سیاسی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، قانونی طور پرانہیں ملزم یا مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ پاکستان میں ان پر جو مختلف کیس درج ہیں ان کا معاملہ دوسرا ہے، مگر یہاں ایک بات یہ بھی لکھ کر رکھنے والی ہے کہ الطاف بھائی کسی بھی قیمت پر واپس پاکستان نہیں آئیں گے، اس حوالے سے بھی بات یہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر بہت سے امراض کا شکار ہیں اور ان امراض کی وجہ سے کراچی کا ماحول اور آب و ہوا ان کے لئے راس نہیں ہے۔ وہ طویل عرصے سے لندن کے ایک ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہیں، جہاں کی آب و ہوا ان کے لئے بہت راس ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم پر اب ان کی گرفت کمزور ہو چکی ہے وہ ایک طویل عرصے تک ایم کیو ایم کو فردِ واحد کے طور پر چلاتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو ایک تنظیمی شکل دینے کے باوجود تنظیم کا کوئی عہدیدار ان کے حکم کے آگے سر نہیں اُٹھا سکتا اور پھر انہوں ن کبھی بھی ایسی کوشش نہیں کی کہ جس کے ذریعے یہ پتہ چلے کہ الطاف بھائی کی موجودگی میں بھی فلاں فلاں شخص قیادت کے منصب پر موجود ہے۔

مثال کے طور پر رابطہ کمیٹی کے نام سے جو لوگ ایک عرصے سے کراچی کی تنظیم چلاتے رہے ہیں وہ ’’لوکل‘‘ سطح کے فیصلے کرنے کا بھی اختیار نہیں رکھتے اور ان لوگوں میں سے اگر بعض لوگوں نے پاکستان کی سیاست میں خود کو منوانے کی کوشش کی ہے تو الطاف بھائی کے ایک ’’حکم‘‘ نے انہیں زمین بوس کر دیا ،ان لوگوں کو میڈیا کے سامنے ایک کھلے اجلاس میں ایک عام سطح کے کارکن نے اچھا خاصا ذلیل کر کے رکھ دیا، حتیٰ کہ بعض دفعہ تو ہاتھ اٹھانے کی بھی نوبت آ گئی اب اگر عام نظر سے دیکھا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ایم کیو ایم میں ایم این اے یا ایم پی اے ایک عام ورکر کے برابر ہیں، مگر حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے، مثال کے طور پر ایک ایم این اے جس نے قومی اسمبلی کے فلور پر قومی ایشو پر بات کرتی ہے۔ ایک ایم پی اے جس نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے سیاسی مفادات کی بات کرتی ہے اور پھر مختلف ایشوز پر حکومت اور حکومت سے باہر اپنی جماعت کی ترجمانی کرتی ہے ایسے شخص کو اگر ایک عام کارکن کھلے عام ڈانٹ ڈپٹ کرتا نظر آئے تو پارٹی کے عہدیدار کی کیا عزت ہو گی؟اور باقاعدہ جوتا مار دے توکیا ہو؟

بظاہر اس سے ثابت ہوتا ہے یا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ الطاف بھائی ہی ایم کیو ایم کے اول بھی ہیں اور آخر بھی، مگر اس سے نقصان یہ ہوتا ہے یا ہو رہا ہے کہ الطاف بھائی کے بغیر ایم کیو ایم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کا دوسرا نام الطاف حسین ہے اور اگر الطاف حسین کے ساتھ کوئی سنگین معاملہ ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر لندن میں منی لانڈرنگ کے کیس میں اگر الطاف بھائی کو سزا ہو جاتی ہے تو کیا ایم کیو ایم ختم ہو جائے گی، بطور ایک سیاسی جماعت کے ایم کیو ایم کا خاتمہ بعض سیاسی جماعتوں کے لئے نیک شگون ہو سکتا ہے، مگر ایم کیو ایم کا بطور جماعت خاتمہ پاکستان کے لئے نیک شگون نہیں ہو سکتا، ایم کیو ایم میں ہزاروں ایسے کارکن موجود ہیں، جنہیں بہترین سیاسی تربیت حاصل ہے۔ 

ایک سیاسی کارکن کے طور پر ان لوگوں نے اپنی تنظیم کے لئے بہت خدمات سرانجام دی ہیں اور اس طرح کے کارکن دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی قابل قبول ہیں، مگر ایم کیو ایم میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے لاٹھی اور گولی کی سیاست کو فروغ دیا اور یہی لوگ ایم کیو ایم کے لئے بدنامی کا باعث بھی ہیں۔

ایم کیو ایم میں یہ لوگ کہاں سے آئے، کن لوگوں نے ان کی تربیت کی اس حوالے سے تو کسی بھی سوال کا جواب الطاف بھائی ہی دے سکتے ہیں، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب ایسے لوگ خود الطاف بھائی کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ کراچی کے اپریشن کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اپریشن کے حوالے سے الطاف بھائی بہت مطمئن ہیں اور ان کے بیانات کی حیثیت محض سیاسی ہے بعض لوگوں کی طرف سے اس ’’انکشاف‘‘ کے بعد الطاف بھائی پر لازم ہے کہ اپنے ’’محض سیاسی بیانات‘‘ سے بھی گریز کریں اور مُلک کے حساس ادارے یا صوبائی حکومت کراچی کے امن و امان کو اپس لانے کے لئے کوشیں کر رہی ہے تو پھر الطاف بھائی کھلے الفاظ میں ان اداروں کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے کہ وقت بدل چکا ہے اور بدلے ہوئے حالات میں بطور قائد ایم کیو ایم انہیں اب اپنی بعض سیاسی پالیسیاں ترک کر دینا چاہئیں، اب انہیں محض ’’قومیت‘‘ کے نام پر سیاست نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ’’قوم‘‘ کے مسائل کے حل کے لئے آگے بڑھنا چاہئے وہ بے شک مہاجر قوم کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئیں، مگر ’’اہلِ زبان‘‘ کے کھوئے ہوئے کلچر کو بھی واپس لانے کی کوشش کریں، اس وقت، جبکہ کراچی کے ایک ضمنی الیکشن کی مہم جاری ہے انہیں درست طور پر اپنی قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے۔

کسی بھی تحریک یا الیکشن کی کامیابی کے لئے ضروری نہیں ہے کہ لاشیں بھی گریں گھیراؤ جلاؤ بھی ہو، مار دھاڑ بھی کی جائے، تحریک کے مقاصد اور الیکشن میں کامیابی کے لئے کئی مثبت پیغام بھی دیئے جا سکتے ہیں اور پھر الطاف بھائی کا کراچی کے ضمنی الیکشن کے لئے یہ بیان درست ہے کہ کراچی میں ’’مقابلہ نہیں مقابلی‘‘ ہو گی۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایم کیو ایم کے مقابل ہیں اور ایم کیو ایم کی کامیابی کے لئے یہی کافی ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف دونوں ہی اپنی حیثیت میں موجود ہیں۔ عمران خان نے 19اپریل کو کراچی میں جلسہ عام کا اعلان کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی وہاں جلسہ کر چکے ہیں، تحریک انصاف کے امیدوار روزانہ کی بنیاد پر جلسے کر رہے ہیں، مگر ان کے لب و لہجے میں وہ چاشنی نہیں ہے جو کراچی کے ’’اہلِ زبان‘‘ کے دل نرم کر سکے۔ الطاف حسین کا خیال ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے کراچی پر ’’یلغار‘‘ کر رکھی ہے، مگر یہ لوگ کراچی میں اپنے قدم نہیں جما سکیں گے۔ آخری بات یہ ہے کہ کراچی کے ’’اہلِ زبان‘‘ کو اس وقت ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو کراچی میں ان کے درمیان ہر وقت موجود ہو، وہ کسی ایسے لیڈر کے ساتھ نہیں چل سکتے، ’’جو پل میں تولہ اور پل میں ماشا‘‘ بن جائے، بدقسمتی سے عمران خان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کب ’’گولی‘‘ داغ دیں اور کب پستول پھینک دیں یا پھر گالی پر اُتر آئیں

محمد افضل عاجز

Post a Comment

0 Comments