Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

زندہ جلائے جانے والوں کا جرم۔۔۔؟..


اسلام، امن اور رواداری کا دین ہے، مسلم وہ ہے جو سراپا امن و سلامتی ہو، دینِ امن(اسلام) کی بنیادی تعلیم ہے کہ ’’ساری مخلوق الٰہی کنبہ ہے‘‘۔ کسی کو ایذا نہیں پہنچانی، ہمسایوں کا بہرحال خیال رکھنا اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو تمام قوم،اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک بھیانک سازش قرار دیتی اور اس کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ بدبخت دہشت گرد، پوری پاکستانی قوم کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے حملے ہر طبق قوم پر ہوتے ہیں، وہ غیر مسلموں سے زیادہ مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں مسجدوں اور دیگر محترم مقامات پر حملے نہ کئے گئے ہوں اور نمازیوں و مذہبی مسلمانوں کو شہید و زخمی نہ کیا ہو، اس لئے وہ شخص نہایت نادان ہے جو کسی غیر مسلم مقام پر کسی دہشت گردانہ حملے کو، مذہبی تقسیم میں بانٹ کر دیکھے گا۔ لاہور کے علاقے یوحنا آباد کے دو گرجا گھروں پر جو حملے ہوئے ہیں، اس پر پوری پاکستانی قومی سراپا احتجاج ہے، مسلم مذہبی رہنماؤں نے ’’ان حملوں کو گرجا گھروں سے زیادہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی روایات پر حملہ قرار دیا ہے اور حکومت و عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ ہر حال میں پاکستان کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کے معاشرتی حقوق کا خیال رکھا جائے‘‘۔ 

کوئی دردِ دل رکھنے والا انسان، دکھائی نہ دے گا جو گرجا گھروں پر حملے اور انسانی جانوں کے نقصان پر غمزدہ و رنجیدہ نہ ہو۔ واقعتا یہ بہت بڑا سانحہ تھا، مگر اس عظیم سانحہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ بعض عاقبت نہ اندیش لوگوں نے اس سانحہ پر احتجاج کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نشانے پر آئی ہوئی پاکستانی قوم کو دو طبقات میں تقسیم کرنے اور پھر دونوں میں نفرت کے بیج بولنے کی کوشش کرتے ہوئے دو بے گناہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا، نہ صرف دو بے گناہوں کو زندہ جلایا گیا، بلکہ پاکستان کے جھنڈے بھی جلائے گئے اور پاکستان مخالف نعرے لگائے گئے۔ 

ہمیں کامل یقین ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں لازماً دشمن کے لوگ ہوں گے، جو جلتی پر تیل ڈال رہے ہوں گے اور جن کی کوشش ہو گی کہ پاکستانی قوم کو تقسیم در تقسیم کر کے آپس میں لڑایا جائے۔ یہ دشمن جو پاکستانیوں کو آپس میں دست و گریبان کرانا چاہتے ہیں بم دھماکے کرنے والوں سے بڑے تخریب کار ہیں۔ جھنڈا جلانے والے بے گناہوں کو زندہ جلانے والے غلط کردار لوگوں کی بجائے، ہم ان مذہبی قائدین کے سامنے سراپا التماس ہیں جو اپنے اپنے طبقہ اور متوسلین میں بہرحال عقیدت کا بھرپور اثر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے لوگوں کو باورکرائیں، اچھی طرح سمجھائیں کہ ’’مسجد اور گرجا گھر میں دھماکے کرنے والے،ایک ہی قسم کے دشمن ہیں، ان کا کام صرف خون بہانا ہے‘‘۔ تمام مذہبی رہنما (بالخصوص مسیحی رہنما) اپنے فرض کو بخوبی سمجھیں اور اپنے لوگوں کو اچھی طرح سمجھائیں کہ ’’گرجا گھروں پر حملے ہوئے تو پہلے وہ محافظ شہید ہوئے جو ان گرجا گھروں کی سیکیورٹی پر تھے اور وہ مسلمان تھے‘‘۔

 دہشت گرد، پاکستان کی بے شمار مساجد پر بھی تباہ کن حملے کر چکے ہیں اور تقریباً تمام شہروں میں اَن گنت مسلمانوں اور نمازیوں کے خون سے بھی ہولی کھیل چکے ہیں۔ ایسے میں احتجاج کرتے ہوئے کسی دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے کو (محض اس کے تعلق کی وجہ سے) مار دینا بھی اِسی طرح دہشت گردی ہے جس طرح عبادت گاہوں اور عوامی مقامات پر بم دھماکے کرنا۔ جس طرح دو بے گناہوں کو جلایا گیا وہ واضح طور پر خطرناک اثرات کا حامل سانحہ ہے۔ اس کو ’’فطری ردعمل‘‘ قرار دینا درحقیقت دہشت گردی کی ’’منطق‘‘ کی وکالت ہے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’ہم اپنے اوپر ظلم و جبر کے ردعمل میں یہ کارروائیاں کرتے ہیں‘‘۔

 مذہبی قائدین اور دانشور و تجزیہ کار سوچیں، اگر ’’فطری ردعمل‘‘ کی ’’منطق‘‘ قبول کر لی گئی تو ’’انتقام در انتقام‘‘ کا سلسلہ کہاں تک دراز ہو جائے گا۔ دُنیا میں کہیں بھی کوئی مسلمان قتل ہو گا تو تخریب کار تو ہتھیار اٹھا لیں گے،(جبکہ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا) نہ ہی کبھی مسلم قیادت نے کبھی ایسا سوچا ہے۔ 

حکومت پنجاب کو چاہئے وہ فوراً زندہ جلائے گئے دو بے گناہوں کے مجرموں کو اِسی طرح گرفتار کرے جس طرح سیالکوٹ کے دو لڑکوں کو ڈنڈے مار مار کر مار دینے والوں کو پکڑا گیا اور قرار واقعی سزا دی گئی۔ موقع پر موجود پولیس اور انتظامیہ کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حکومت کو شاید احساس نہ ہو کہ ان دو بے گناہوں کے حوالے سے عوام میں کتنی بے چینی اور درد موجود ہے، سوشل میڈیا میں اضطراب کی ایک شدید لہر(بلکہ بھونچال) کو دیکھا جا سکتا ہے،ایسے میں اگر مجرم گرفتار نہ ہوئے تو خدشہ ہے کہ کوئی ’’عاقبت نہ اندیش‘‘ کوئی اور تخریبی کارروائی نہ کر گزرے۔(بم دھماکوں کے مجرموں کی نسبت ان زندہ جلائے جانے والوں کے مجرم تو سامنے ہیں)۔

حکومت مجرموں کی گرفت کے ساتھ ساتھ ، غیر مسلم لیڈروں سے بھی مکالمہ کرے اور ان کو پابند کرے کہ وہ دہشت گردی کو صرف اپنے خلاف نہ جائیں اور اپنے متعلقین کو سمجھائیں کہ ان کی صفوں میں شامل ہو کر اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگانے والے اور پاکستانی جھنڈے جلانے والے، ان 
کے ہمدرد نہیں۔۔۔؟

رانا شفیق پسروری

Post a Comment

0 Comments