Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بڑا اینکر بنا پھرتا ہے جو ’بھا ئی‘ سے ڈرتا ہے....

وطن عزیزکی ’صحافت‘سیاسی رہنماؤں کو انسان تو سمجھتی ہی نہیں۔ فرشتہ سمجھتی ہے یا شیطان۔سوائے ایک الطاف بھائی کے۔ الطاف بھائی کو اُن کے حلقۂ مریدین و معتقدین ہی میں نہیں’ صحافت‘ میں بھی’پیرصاحب‘کہاجاتا ہے۔دُنیائے شعروادب میں پیرجی کو بالعموم شیخ جی کہاجاتا ہے۔۔۔اور شیوخِ کرام کو؟۔۔۔ہمارے یہاں تو کچھ نہیں کہا جاتا مگر موجودہ بھارت کے صوبہ یوپی میں واقع ایک مشہور شہر الٰہ آبادکا ایک مرحوم شاعر۔۔۔ کہ نام اُس کا اکبرؔ تھا۔۔۔شیوخ کو اکثر یوں کہاکرتا تھاکہ:
 
شیخ اور شیطان دونوں ایک ہیں
شیخ سے شیطان قدرے نیک ہیں

اکبرؔ کا پتا اتنی تفصیل سے سمجھانے کی ضرورت ہم نے اِس وجہ سے محسوس کی کہ کہیں ایسانہ ہوکہ بھائی لوگ یہ شعر پڑھ کراکبرِؔ گستاخ کو ڈھونڈنے نکل کھڑے ہوں۔ خواہ مخواہ خود بھی ایک زحمت میں مبتلا ہوجائیں اور جس شاعرکے نام میں اکبرؔ لکھا پائیں اُسے پکڑپکڑکرشہر کے ہر سیکٹرآفس میں ’اندر‘ تک کھینچ کھینچ لائیں۔’سامان ‘ دکھا کرکلام سنانے کو کہیں تو اُس کے مُنہ سے ۔۔۔’ای ای۔۔۔ یایا ۔۔۔ یویو‘ ۔۔۔ کے سوا کچھ نکل نہ پائے۔ 

اوراگر وہ خوش قسمتی سے سیکٹرآفس سے باہر نکل پائے تودونوں ہاتھوں سے دونوں کان پکڑپکڑ کر شاعری سے اپنی اور اپنے باپ دادا (رحمہم اﷲ) کی توبہ کرتاہوا اور جان بچنے پر (الطاف بھائی کی بجائے) اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتاہواباہر نکلے۔آپ کو یاد ہوگاکہ گزشتہ سے پیوستہ مارشل لاء کے دور میں اکبرؔ کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہوچکے تھے۔ تلاشِ بسیار کے بعدبھی جب مفرور ملزم کہیں نہ ملا تو کسی نے’ سرسری سماعت کی فوجی عدالت‘ کے، بریگیڈیر رینک کے، قبلہ ’جج‘ صاحب کے حضور یہ رپورٹ جمع کروائی کہ ملزم بہت عیار ہے، مارشل لا حکومت کے خلاف شعر کہہ کرحکومت آنے سے پچاس ساٹھ برس پہلے ہی فوت ہوچکاہے۔

نیز چالاک ملزم نے اپنی قبر بھی ہمسایہ ملک بھارت میں کھدوائی ہے کہ جہاں مارشل لاء کا بیلچہ نہیں پہنچ سکتا، ورنہ ہم اُسے قبر سمیت کھود لاتے۔وطن عزیز میں قائداعظمؒ سے لے کر قائدِ تحریک تک تک جتنے سیاست دان اب سے پہلے گزرے ہیں، جتنے آج کل گزرنے کی کوشش کررہے ہیں یاجتنے سیاسی قائدین اِس رہ گزر سے آئندہ گزریں گے، اُن سب میں الطاف بھائی کو ایک منفرد اور ممتاز’ مارشلّائی مقام‘ حاصل ہے۔

وہ مقام یہ ہے۔۔۔ اے قارئین کرام۔۔۔ کہ آپ قائدِ اعظمؒ سمیت سب سیاسی قائدین کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں،مگر الطاف بھائی کونہیں۔خواہ وہ مارشل لا لگانے کا جمہوری مطالبہ ہی کیوں نہ کر بیٹھیں۔ تنقید تو دور کی بات ہے۔ابھی دو برس پہلے کی بات سن لیجیے۔ آپ معروف اینکر پرسن کاشف عباسی کوتو جانتے ہی ہوں گے ۔۔۔’ اُن‘ سے یہ ہوگئی خطا بارگہِ جمال میں ۔۔۔ کہ جب شہرہ آفاق ’مہران بینک اسکینڈل‘ کا معاملہ سپریم کورٹ میں اُٹھا اور اخبارات میں اس کی تفصیلات شایع ہوئیں تو اسکینڈل کے استفادہ کنندگان کی فہرست میں دیگرناموں کے ساتھ چھپا ہوا (دوکڑور روپئے رقم یافتہ) الطاف بھائی کانام بھی پڑھ گئے۔ حیدر عباس رضوی آن لائن تھے۔ذہین، سمجھ دار، عاقبت اندیش اور دُور اندیش آدمی ہیں۔ کاشف عباسی کو پڑ گئے کہ تم نے الطاف بھائی کا نام لیا کیسے؟۔۔۔ ’معافی مانگو‘۔۔۔ اب وہ لاکھ کہے کہ’ میں نے‘ نام نہیں لیا ہے۔ فہرست میں چھپاہوا ہے۔ وہیں سے پڑھا ہے۔ مگر وہ سر ہوگئے کہ۔۔۔ ’معافی مانگو۔۔۔ فوراً معافی مانگو‘۔۔۔

 پھر ناظرین نے دیکھا اور سنا کہ اُن کے مُنہ سے گولی کی رفتار سے بھی تیزرفتاری سے آواز کے گولے مسلسل اور متواتر برستے رہے کہ ۔۔۔۔۔۔’ معافی مانگو۔۔۔ فوراً معافی مانگو‘ ۔۔۔ یہ تکرار بالکل اُسی انداز میں جاری تھی، جس انداز میں ’ریکارڈکی سوئی اٹک جانے‘ کی صورت میں جاری رہتی ہے۔ آخر کاشف عباسی کو معافی مانگتے ہی بنی۔ یوں دونوں کی جان بچی۔اگر حیدر عباس رضوی صاحب دانشمندی سے کام نہ لیتے اورکاشف عباسی صاحب سے معافی نہ منگواتے تودونوں میں سے ایک کی جان توگئی ہی تھی۔

 کیا عجب کہ دونوں کی جاتی۔ فہرست پڑھنے والے کی یا/اوراُس پڑھاکُو سے بیٹھ کر فہرست سننے والے کی۔ کاشف عباسی کا یہ انجام دیکھ کر تمام چینلوں نے سبق لیا۔ اپنی اپنی فہرست میں سے از خود الطاف بھائی کانام۔۔۔کسی عدالتی فیصلے کے بغیرہی۔۔۔ خارج کردیااور ایک دوسرے کی طرف بے بسی سے دیکھتے ہوئے یہ بھی کہا :’’بھاڑ میں جائے ایسی آزادئ صحافت اور جہنم میں جائے ایسی حق گوئی و بیباکی۔ نیز بھٹ پڑے(یعنی بھٹی میں پڑے) وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان‘‘۔ وغیرہ وغیرہ۔

کسی عدالتی فیصلے کے بغیر ہی الطاف بھائی کی اس علی الاعلان ’بے گناہی‘ پر ایک جشن بپا ہوگیا جو ’کراچی بھر‘ میں منایاگیا۔ یہ ترکیب مذکورہ فہرست کے دیگرسیاسی شرکاء کوکبھی نہیں سوجھی۔ فہرست میں نام تو جماعت اسلامی کا بھی تھا۔ وہ بچاری ملک بھرمیں چیختی پھری کہ:’’ کس کو پیسے دیے ہیں؟ ۔۔۔نام تو بتادو۔۔۔ہمیں پتا تو چلے کہ ہمارے نام پر پیسے لے کر کون چمپت ہوا؟۔۔۔بھئی تم نے کس کو پیسے دیے ہیں۔۔۔نام تو بتادو۔۔۔ کیامنصورہ کے گیٹ پر بیٹھے کسی گداگر کودے گئے ہو؟۔۔۔ نام تو بتادو۔۔۔ کہ جماعت اسلامی کے نام پر کس کو پیسے دے بیٹھے ہو؟ ورنہ ثبوت کے بغیر جماعتِ اسلامی پر جھوٹاالزام تو نہ لگاؤ‘‘۔ اس کے باوجودچینلوں پر جماعت اسلامی کا نام چلتارہا۔ 

قصوراس میں بھی خود جماعت اسلامی ہی کا ہے۔ اُس نے اپنے یہاں ایساکوئی عباس حیدر رضوی تیار ہی نہیں کیا جس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھی اینکر پرسنز کے لیے ’کلاشنکوف کی گولی‘ کاکام کریں۔ ورنہ اُسے اِس کیس میں عدالت جاکر فریق بننے کی کبھی ضرورت نہ پڑتی۔ عدالت نے بھی تسلیم کیا کہ ’جماعت اسلامی‘ کے سوا کوئی بھی عدالت میں اپنی صفائی دینے نہیں آیا۔ہمارے صحافی بھائی۔۔۔ جو ہر طرح کے دانا ہیں، ہر ہنر میں یکتا ہیں۔۔۔ نہیں بُوجھ پاتے تو بس ایک ہی پہیلی نہیں بُوجھ پاتے۔

 مشہورِ عالم ’12مئی‘ کو۔۔۔ جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چودھری کو بقول پرویز مشرف’عوامی طاقت کے مظاہرے‘ کے ذریعہ سے ’الطاف بھائی کے شہر‘ کراچی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔۔۔ تو اُس روز بھی ایک ’مشہورعالم اینکر پرسن‘ اﷲ جانے (یاوہ خود جانیں) کہ کس کے حملہ کے نتیجہ میں اور کس کی ’ انتہا پسندی کی وجہ سے‘ میز کے نیچے گھس گئے تھے اور وہیں سے ’ براہِ نشریات‘ کر رہے تھے۔ تمام دُنیا کی معلومات رکھنے کے دعویدار اُنھیں آج بھی ’نامعلوم افراد‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ بلکہ پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس میں تو خود فاروق ستار بھائی نے بھی یہی اطلاع دی کہ اُن کے (دہشت گرد) کارکنوں کو مارنے کے بعد ’نامعلوم‘ افراد کی حیثیت سے دفن کیا جاتا ہے۔

یوں تو ہمارے الطاف بھائی بھی طنز ومزاح کا مخصوص ذوق رکھتے ہیں جس کے ثبوت ’یوٹیوب‘ پر جابجا پڑے ہوئے ہیں۔مگر اس کے باوجود ہمارے طنز و مزاح نگار ۔۔۔ ہمارے ملک کے کالم نگار۔۔۔ قائدِ تحریک سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ مارے پیار کے اُن پر ایک فقرہ بھی لکھنے کی جرأت نہیں کرتے۔آج کل ہمارے بچے ایک مخصوص ترنم سے یہ نغمہ گاتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ ’’بڑا اینکر بنا پھرتا ہے جو ’بھا ئی‘ سے ڈرتا ہے‘‘۔۔۔ ہماری دُنیائے ابلاغیات کا’ آئینِ جواں مرداں‘ دیکھیے۔۔۔ اورجرأت وحق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیے کہ ۔۔۔ ایک برس جب حسبِ معمول ایک روز نائن زیرو پر الطاف بھائی کے ٹیلی فونی خطاب کا اہتمام کیا گیا۔تویہ خطاب تین گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا اور پانچ گھنٹے مسلسل جاری رہا۔

ہمارے تمام ’جرأت مندانِ اظہار‘ نے اس جلسے کو’ مسلسل آٹھ گھنٹے‘ بلاانقطاع اورخطاب کو’ مسلسل تین گھنٹے‘ بلاانقطاع نشر کیا۔یہ اعزاز قائدِ اعظمؒ سے لے کر قائدِ تحریک تک کسی دوسرے سیاسی رہنما کو تو کجا کسی سربراہِ مملکت کو بھی نصیب نہیں ہوا ۔۔۔ ’یہ نصیب اﷲ اکبر۔۔۔(ہنس ہنس کر)۔۔۔ لوٹنے کی جائے ہے‘۔۔۔۔آٹھ گھنٹے۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔ مسلسل آٹھ گھنٹے۔۔۔یہ ’بے باک و جری‘ یرغمال بنے بیٹھے رہے! پانچ گھنٹوں کے اُس خطاب میں الطاف بھائی نے سر پر قرآن بھی رکھا، ٹھمکا بھی لگایا اور ڈانس بھی کیا۔

اِس پر ہمارے ایک عددذہین، سمجھ دار، عاقبت اندیش اور دُور اندیش رضوی بھائی ہی نے ایک نجی محفل میں بڑے دُکھ سے کہا:’’ذوالفقار مرزاکی پریس کانفرنس نے تنظیم کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا نقصان’بھائی‘ کی اس تقریر نے پہنچادیا ہے‘‘۔ہمیں اِن نوبتوں کو سچ پوچھیے تو ہماری صحافت ہی نے پہنچایا۔یہ وبا پھیلانے کی ابتدااِسی کوچے سے ہوئی تھی۔ وہ ساری کہانی ہمیں ’منہ زبانی‘ یاد ہے۔کسی کو سننے کا شوق ہوا تو سُنا بھی دیں گے۔ 

مگر فی الحال توہم اِس بات کے منتظر ہیں کہ ہماری دُنیائے صحافت کی زمام ’دیوتاؤں، فرشتوں اورشیطانوں‘ کے ہاتھ سے نکل کر ’انسانوں‘ کے ہاتھ کب آئے گی؟اوّل الذکر کے ہاتھ میں اِس دُنیا کی زمام تھمانے کا کام بھی۔۔۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔۔۔ہماری ’صحافت‘ ہی نے کیا تھا اوراس ’مافوق الفطرت مخلوق‘ سے چھین کر ’انسانوں‘کے ہاتھ میں تھمانے کا کام بھی ’صحافت‘ ہی کرسکتی ہے۔رہ گیا ہمارا کام۔۔۔ توہماراکام۔۔۔ اپنی ’صحافت‘کو یہ یاددِلاناہے کہ اُس کا کام فقط ’بت بنانا‘ اور ’بت گرانا‘ نہیں۔

ابونثر

Post a Comment

0 Comments