Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان کی معاشی ترقی اور نوکرشاہی...

معاشی ترقی سے مراد ایسا عمل ہے جس کے تحت کوئی بھی ملک اپنے ذرائع کو بھرپور طریقے سے اس طرح استعمال کرتا ہے جسکے نتیجے میں ملک کے عوام کی حقیقی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔ ملک کے وسائل کو سستی اور مؤثر ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے مگر معاشی پیداوار میں اضافے کیساتھ ساتھ ملک کے صدارتی نظام میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کر دیتی ہیں جس سے موؤثر آبادی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔

 تعلیم اور ہنرمندی کے فروغ سے معاشرے میں متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آتا ہے اور اگر ملکی قیادت اور نوکر شاہی محب وطن ہو‘ ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہو تو وہ معاشی ترقی کے عمل میں معاشی مافیاز (Economic Cartles) وجود میں نہیں آنے دیتی ہے اور معاشی ترقی کے عمل میں زیادہ ثمرات سمیٹنے والوں پر ریاست براہ راست ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگا کر دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہیں ہونے دیتی ہے اور امراءپر لگائے گئے ٹیکسوں سے حاصل کردہ محصولات عام طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی معاشی اور سماجی منصوبوں پر لگائے جاتے ہیں جس سے جہاں لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع میسر آتے ہیں‘ ریاست اپنے غریب عوام کو تعلیم ‘ صحت اور خوراک کو کم نرخوں پر فراہم کرتی ہے یا نیشنل انشورنس کے ذریعے انتہائی مستحق اور بیروزگاروں کیلئے تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

امریکہ اور مغربی ممالک میں صحت عامہ کے نجی اور سرکاری مراکز کے ڈاکٹرز خود ادھیڑ عمر کے افراد کو فون کر کے سرکار کے خرچے پر طبی معائنہ کروانے کیلئے ترغیب دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاشی ترقی کا وہ عمل جو انتہائی کامیابی سے 1960ء میں شروع ہوا تھا اور دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام پر پاکستان نے بڑی تیزرفتاری سے معاشی ترقی کی تھی جس کی شرح 5.2 فیصد تھی۔

 اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق یہ شرح افزائش ترقی دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی اور یہ بات ملک کیلئے بڑی حوصلہ افزا تھی جس کی بنا پر پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن نے 20 سالہ تناظر میں معاشی منصوبہ تیار کیا مگر ہمیں ستمبر 1965ء میں بھارت سے جنگ لڑنا پڑی جس کی وجہ سے تمام وسائل ملک کے ترقیاتی کاموں سے ہٹ کر دفاع کی طرف منتقل ہو گئے اور پاکستان کی معاشی امداد کا سلسلہ بند ہو گیا اور بعدازاں اسی منصوبے کے بلیو پرنٹ پر عمل کرکے جنوبی کوریا معاشی ترقی کی منزل تیزی سے طے کر گیا مگر پاکستان کی نوکرشاہی نے ایک طرف ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کو مضبوط کرنے کیلئے پاکستان میں حقیقی سیاسی عمل کو جمہوری انداز میں پنپنے نہیں دیا جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں جہاں سیاسی محرومی کا احساس بڑھا‘ وہیں ایوب خان کے وزیرخزانہ محمد شعیب نے ایوب خان کو یہ یقین دلایا کہ پہلے چند صنعتکاروں کو زیادہ سے زیادہ مراعات دیکر انہیں سرمایہ اور دولت کا ارتکاز کرنے دیا جائے تو وہ جب کارخانے‘ فیکٹریاں لگائیں گے تو خودبخود دولت نچلے طبقے تک سرائیت کر جائیگی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمن نے یہ کہہ کر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف بنگالی عوام کے جذبات کو بھڑکا دیا کہ میرے دیس کے پٹ سن کی کمائی اسلام آباد کی سڑکوں پر لگا دی گئی ہے اور مجھے ان سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ 

ایوب خان کی نوکرشاہی کے اہم کارندوں قدرت اللہ شہاب‘ الطاف گوہر اور محمد شعیب نے ڈکٹیٹرشپ کا آلہ کار بن کر اس ملک میں ایسی معاشی ترقی کا عمل فروغ ہی نہیں پانے دیا جس میں معاشی ترقی کے ثمرات عام آدمی تک منتقل ہو سکتے۔

محمد شعیب عالمی بینک کے نمائندے کے طورپر ایسی معاشی پالیسیاں نافذ کرتے رہے جس کا تسلسل ڈاکٹر محبوب الحق‘ شوکت عزیز سے لیکر اسحاق ڈار تک جاری ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کی بیمار معیشت کو بہتر بنانے کے قرض در قرض اٹھاﺅ اور پھر پاکستان کی نوکرشاہی کے ذریعے ان کو ترقیاتی کاموں پر لگانے کی ناکام سعی کرو اور نااہل حکمرانوں اور کرپٹ نوکرشاہی اور بیرونی سامراجی مالیاتی اداروں سے مل کر 60 سے 70 فیصد پراجیکٹس کے فنڈز خوردبرد کر جاﺅ اور تیس فیصد رقومات کی سرمایہ کاری کرکے ادھورے پراجیکٹس چھوڑ کر پاکستان کے بیرونی ساہوکاروں کے قرضوں کے جال میں پھنسائے رکھو۔ سیاسی محاذ پر قدرت اللہ شہاب سے لیکر مسلم لیگ (ن) کا جونئر ڈی ایم جی گروپ اور الطاف گوہر سے لیکر آج کے پرویز رشید ایک ہی لڑی کے ایسے موتی ہیں جو اپنے آقا کی آواز کے ساتھ ہمیشہ ہم آہنگ رہتے ہیں۔ ایوب خان نے جب اقتدار پر قبضہ کرکے فوجی انقلاب برپا کیا تو اس وقت کسی شاعر نے اس وقت کی نوکرشاہی کے سب سے بڑے سرخیل کے متعلق کہا تھا
:...
جہاں انقلاب ہوتا ہے وہاں
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے

آج پاکستان میں معاشی ترقی کی پیمائش کیلئے غربت میں کمی‘ بیروزگاری میں کمی‘ دولت کی عدم مساوات کی بنیاد پر دنیا میں رائج کسی بھی قدر آلہ پیمائش چاہے وہ بنیادی ضروریات کا نظریہ ہو‘ معیار زندگی کا انڈکس ہو‘ فلاح و بہبود کا پیمانہ معاشی ترقی ہو‘ معاشی ترقی کا سماجی پیمانہ ہو یا انسانی ترقی کا انڈکس ہو تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عوام غربت کے منحوس چکر میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ عوام کی اکثریت کو نہ تو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہے اور نہ ہی انہیں تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا اور پہننے کیلئے صاف پانی میسر ہے۔ ڈاکٹر محبوب الحق کا کہنا ہے:
Reduction of mass Poverty be made a Crucial test of to realization of Economic Development''

وزیرخزانہ اسحاق ڈا رکے مطابق پاکستان کی 50 فیصد آبادی محض 2 ڈالر روزانہ پر گزارہ کر رہی ہے۔ ہاں یہ وہی اسحاق ڈار صاحب ہیں جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک سکوٹر اور اتفاق فاﺅنڈری کے چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹ کے طورپر کیا تھا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں معاشی ترقی کا عمل بیرونی اور اندرونی قرضوں کے ذریعے مصنوعی طورپر جو وقوع پذیر ہوا۔ اس میں صرف اور صرف حکمران طبقے اور بیورو کریسی کے کرتے دھرتوں کی قسمت تبدیل ہوئی ہے۔ بقول وزیرخزانہ انکے سوئس بنکوں میں دو ارب ڈالر جمع ہیں۔ اس ملک میں سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری کے مطابق روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو اب ایک ٹی وی اینکر کے مطابق 20 ارب روپے روزانہ پر پہنچ گئی ہے کیونکہ پورا ملک معاشی مافیاز کے شکنجے میں پھنس گیا۔ چینی مافیا کے ڈی ایم جی (ن) کے چیئرمین ایف بی آر طارق باجوہ نے چند گھنٹوں میں ساڑھے چھ ارب کی سبسڈی دیدی ہے۔ جہانگیر ترین اور اسحاق ڈار کے درمیان جوڈیشل کمیشن پر اتفاق نہ ہو سکا مگر جہانگیر ترین کو خوش کرنے کیلئے اسحاق ڈار نے جہانگیر ترین اور انکے غریب ساتھیوں کو ساڑھے چھ ارب روپے کی سبسڈی ضرور دلوا دی ہے کیونکہ پاکستان میں چینی کے کارخانوں کے مالکان شریف خاندان جہانگیر ترین‘ آصف زرداری‘ چودھری برادران اور ہمایوں اختر عبدالرحمن انتہائی غریب ہیں۔ جی ہاں ڈی ایم جی (ن) کے طارق باجوہ انتہائی ایماندار افسر ہیں۔ پانچ پانچ کروڑ کی تین گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ انکی لگائی گئی ایک خاتون کسٹمز کلکٹر روزانہ لاہور سے صبح کی فلائٹ پر نوکری کرنے اسلام آباد آتی ہے اور شام کو واپس چلی جاتی ہے۔

جب کسٹمز سپرنٹنڈنٹ چیئرمین کی گاڑیوں میں ہر ہفتے لاکھوں روپوں کا پٹرل بھروائیں گے اور کسٹمز سپرنٹنڈنٹس انکی خاتون کلکٹر جس کا گریڈ 20 ہے اور اسکی تنخواہ بمعہ مراعات زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ ہوگی‘ اس کو روزانہ لاہور سے اسلام آباد آنے کا بائی ایئر ٹکٹ دینگے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب روپے کی کرپشن پر قابو پایا جا سکے؟ کیسے ممکن ہے پٹرولیم مصنوعات کی بلیک مارکیٹنگ کو روکا جا سکے۔ یہ بیورو کریسی کی نااہلی ہی کا کمال ہے کہ نواز شریف جو بھی منصوبے بناتے ہیں۔ سرخ فیتے کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ کمیشن کے معاملات ہوتے ہیں۔ وزیراعظم نے گڈانی پاور پراجیکٹس کے 12 ارب ڈالرز کے کوئلے کے استعمال سے 6600 مگاواٹ کے منصوبوں کو شروع کرنے کا پچھلے سال بڑے زور و شور سے اعلان کیا مگر 10 کروڑ روپے کی فزیبلٹی پر خرچ کرنے کے بعد وزراءاور بیورو کریٹس کے چائنیز کمپنیوں کے ساتھ کمیشن کے معاملات نہ طے ہونے پر یہ منصوبے ختم ہوگئے ہیں۔ نندی پور پراجیکٹ بند پڑا ہے۔ تیل کے بحران کی بڑی وجہ وزارت بجلی و پانی یا پاور کمپنیوں کے سرکلر ڈیٹ کو کلیئر کرنے کیلئے 20 سے 25 فیصد کمیشن کے طلبگار ہیں جس طرح 500 ارب روپے بغیر کسی آڈٹ کے پاور کمپنیوں کو دیئے گئے اگر اس کا فرینزک آڈٹ ہو تو پتہ چلے کہ کس وزیر اور کس کس بیورو کریٹس نے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی میں کمیشن کمایا ہے۔

قارئین! پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے روایتی نوکرشاہی رہی ہے جن کی وجہ سے اگر کوئی حکمران اہم اور ضروری فیصلہ عوام کے مفاد میں کر بھی لے تو اس پر عملدرآمد سرخ فیتے کی نذر ہو جاتا ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے وفاقی وزیر مرتضیٰ جتوئی وزارت سے لاتعلق ہیں کیونکہ ان کا سیکرٹری انکی نہیں سنتا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے چیئرمین کا چارج لینے پر کوئی راضی نہیں کیونکہ یہ عملاً اسحاق ڈار صاحب کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان میں واپڈا‘ ریلوے‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل کی تبا ہی کی بڑی وجہ کرپٹ بیورو کریسی‘ نااہل اور کرپٹ وزراءاور طاقتور حکومتی خاندان کے افراد کی وہ تکون (Nexus) ہے جس میں وحشت زدہ درندے اس ملک اور عوام کی سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کی ہوس پوری کرنے کیلئے خون آشام چمگادڑوں کی طرح خون 67 سالوں سے پی رہے ہیں مگر اب یہ نوبت آپہنچی ہے کہ تجربہ کا سیاسی قیادت اور نیم خواندہ نام نہاد اور خود ساختہ ایمانداران ڈی ایم جی (ن) میں نواز شریف سے کوئی ایسا بدلہ لے رہی ہے جو شاید کوئی اپنے دشمن سے بھی نہ لیتا ہو۔ بقول حسن نثار ...

اس شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو سیدھا دکھائی دے گا

نعیم قاسم
"بہ شکریہ روزنامہ ’’نوائے وقت


Post a Comment

0 Comments