Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جادو گر بلے باز…اے بی ڈی ویلیئرز....

’’برینڈن کیا تم جانتے ہو تم اس وقت کس سے بات کر رہے ہو ؟‘‘معروف جنوبی افریقہ ریڈیو کے نمائندے ڈیرن سمپسن جو ’’ویک ہیڈ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں نے نو عمر بچے برینڈن ہیڈن سے ٹیلی فون پر یہ سوال کیا تو برینڈن کی مسرت بھری آواز میں جواب آیا کہ میں اے بی ڈی ویلیئرز سے بات کر رہا ہوں ۔معصوم بچے کے جذبات کو محسوس کر کے دونوں ہی ہنس پڑے ۔لیکن آپ یہ قصہ پڑھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکیں گے ۔

ہوا کچھ یوں کہ ڈیرن سمپسن یعنی کہ ویک ہیڈ ایک جگہ پر شو کرنے کے لئے موجود تھے وہیں یہ بچہ برینڈن بھی اسکے پاس آیا اور اسکے پروگرام کے ایک سیگمنٹ کرسمس سپیشل کے لئے اپنے لئے ایک بیٹ کی فرمائش کر ڈالی ۔ویک ہیڈ کرسمس پر ہر سال مستحق بچوں میں اس قسم کے تحائف تقسیم کرتا تھا ۔اس
نے برینڈن سے سوال پوچھا کہ بھلا تمہیں بیٹ کی اتنی ضرورت کیوں ہے ؟؟

برینڈن نے بتایا کہ میں نے کافی عرصہ رقم اکٹھی کر کے یہ بلا لیا تھا مگر لینے کے صرف ایک ہی مہینے بعد وہ چوری ہو گیا ۔کیونکہ مجھے صرف اے بی ڈی ویلیئرز کا کوکا برا’’کہونا‘‘ بیٹ ہی پسند ہے اس لئے میں ویسا ہی بیٹ دوبارہ لینا چاہتا ہوں کیونکہ اے بی میرا رول ماڈل ہے ۔ویک ہیڈ کے لئے اس قسم کی فرمائش پوری کرنا ایک انوکھا کام تھا ۔مگر اس نے رسک لیا اور اے بی کو ڈائریکٹ فون کر کے برینڈن کی یہ فرمائش اور پوری کہانی بتائی ۔ 

اب ویک ہیڈ نے برینڈن کو فون کیا کہ تم سے بات کرنے کے لئے ڈی ویلیئرز خود موجود ہے ۔اس پرستار بچے کے لئے یہ بات ایک خوشگوار ترین سرپرائز تھی۔وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا ۔مزید سرپرائز ابھی اور بھی آنے تھے ۔ڈی ویلیئرز نے نہ صرف اس بچے کے لئے وقت نکالا بلکہ اپنے کٹ بیگ سے کوکا برا بیٹ نکال کر اس بچے کو دینے کا وعدہ بھی کیا اور اس نے تین دن بعد بنگلہ دیش سے ہونے والے میچ میں گراؤنڈ پر میچ دیکھنے کا بندوبست بھی کیا ۔یہی نہیں وہاں پر ڈی ویلیئرز نے اس بچے کو زیادہ تر کھلاڑیوں سے بھی ملوایا اور ڈریسنگ روم میں بھی لے کر گیا اور آخر میں تمام کھلاڑیوں سے اس بیٹ پر سائن
لے کر برینڈن کو بیٹ دیا ۔

جب برینڈن کو اس پروگرام کا پتہ چلا تو اپنے ہیرو کی یہ ادا اسکی آنکھوں میں آنسو لے آئی ۔فون پر اسکی آواز لرزنے لگی۔اسکی ماں کو آ ن کر بتانا پڑا کہ برینڈن تو رو رہا ہے ۔اپنے پرستاروں کے لئے اتنے نرم دل ڈی ویلیئرز دنیا بھر کے لئے بولرز کے لئے اپنے دل میں قطعا کوئی نرم گوشہ نہیں پاتے ۔بلا شبہ وہ اس وقت تمام فارمیٹس میں دنیا کے نمبر ایک بلے باز ہیں ۔شاید ٹی ٹوینٹی میں گیل ان سے زیادہ خطرناک بیٹسمین ہوں وگر نہ اس وقت اے بی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔

 ڈی ویلیئرز کا کہنا ہے کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں جانٹی رہوڈز کا انضمام کو نا قابل یقین رن آوٹ کرنا انکے دل کو بھا گیا اور وہ کرکٹ کے عاشق ہو گئے ۔یاد رہے ڈی ویلیئرز دنیا کے بہترین ایتھلیٹ ہیں ۔انکی سپورٹس میں صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ جنوبی افریقہ کے نیشنل انڈر نائنٹین بیڈ منٹن چیمپن رہے ہیں ۔ہاکی میں انڈر سولہ تک جنوبی افریقہ کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں ۔جنوبی افریقہ کی جونیئر رگبی ٹیم کے کپتان بھی رہ چکے ہیں ۔اپنے سکول
میں انکے قائم کردہ چھ سوئمنگ کے ریکارڈز ابھی تک قائم ہیں ۔

مزید حیران ہونے کے لئے تیار رہیں کہ یہ جنوبی افریقہ کی قومی جونیئر فٹبال ٹیم کے لئے بھی شارٹ لسٹ ہو چکے ہیں ۔ا سکے علاوہ یہ اپنے سائنس پراجیکٹ پر منڈیلا میڈل بھی جیت چکے ہیں ۔ ڈی ویلیئرز کے حیران کن سٹروکس دیکھ کر اب اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام کھیلوں نے خوب حصہ ڈالا ہو گا ۔تیز ترین ون ڈے ففٹی اور سینچری کے ریکارڈ پر قبضہ کرنے کے بعد ڈی ویلیرز اس وقت اپنے کیریئر کے عروج پر ہیں ۔لیکن ایسا ہمیشہ نہیں تھا ۔انکی تکنیک کا کچھ جائزہ لیتے ہیں ۔ سٹانس اور بیک لفٹ انکا سٹانس اپ رائٹ ہے ۔

گارڈ لیگ سٹمپ کا لیتے ہیں لیکن بوقت ضرورت ،مڈل کا بھی لے لیتے ہیں ۔بلا وکٹ کی اونچائی تک کھڑا کرتے ہیں ۔گھٹنے گیند کی ریلیز سے قبل ہلکے سے بینڈ کرتے ہیں ۔انکا سر مکمل 'سائیڈ آن ' پوزیشن پر ہوتا ہے ۔یعنی کہ یہ اپنے بائیں کندھے کی سیدھ میں گیند کو دیکھتے ہیں ۔گیند کی ریلیز سے پہلے پہلے یہ اپنا پچھلا پیر کافی پیچھے لے کر جاتے ہیں اور' شفل ' کرتے ہیں ۔انکی بیک لفٹ مناسب درمیانی سی ہے ۔لیکن بیٹ اونچا رکھنے کی وجہ سے انھیں سٹروکس کھیلنے میں آسانی رہتی ہے ۔ 

تکنیک ،خوبیاں اور خامیاں ڈی ویلیئرز کیونکہ شفل کرتے ہیں اور انکا پچھلا پاؤں کافی پیچھے اور آکراس آتا ہے اس لئے ان سوئنگ پر انکو ہمیشہ مسلہ ہو سکتا ہے ۔کیریئر کے آغاز میں میک گرا اور پھر محمد آصف دونوں نے عمدہ ان سوئنگ پر ڈی ویلیئرز کو بار بار آوٹ کیا ۔اب انکی یہ خامی اتنی نمایاں نہیں ہے ۔اسکی ایک وجہ تو اب انکا مڈل آرڈر میں کھیلنا ہے ۔پہلے یہ زیادہ تر اوپننگ کرتے رہے تھے خوبی یہ کہ عمدہ پوزیشن میں کھڑے ہوتے ہیں اور گیند سے پہلے بھی اس عمدہ پوزیشن کو قائم رکھتے ہیں ۔

ٹیلینٹ اتنا بھرپور ہے کہ یہ پورے گراؤنڈ میں کہیں بھی چھکا چوکا لگانے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ لگا بھی چکے ہیں ۔سینچورین میں کھیلنے کی وجہ سے انکا کٹ اور پل بہت مضبوط ہے ۔اب انکا ڈرائیو بھی بہت شاندار ہو چکا ہے۔یوں اب وہ مکمل بیسٹمین ہیں ۔کیریئر کے آغاز میں انکو سپنرز کے خلاف بھی کھیلنے میں دشواری ہوتی تھی۔لیکن اب وہ سپنرز کے خلاف دنیا کے چند بہترین بیٹسمینوں میں شمار ہوتے ہیں ۔سپنرز کے خلاف وہ ہر قسم کا جارحانہ اور دفاعی انداز اپنا سکتے ہیں ۔

کچھ عر صہ پہلے آسٹریلیا کے خلاف ا یڈیلیڈ ٹیسٹ میچ کو بچانے کے لئے ڈی ویلیئرز نے تقریباً دو سو سے زاید گیندوں پر شاید چالیس رنز بنائے تھے کیوں کہ اس وقت مقصد میچ بچانا تھا اور جنوبی افریقی ٹیم اس میں کامیاب بھی رہی اور اب وہی ڈی ویلیرز 31گیندوں پر سینچری بھی بنا چکے ہیں ۔اس سے انکی ٹیم کے لئے کھیلنے کی اپروچ کا اندازہ ہوتا ہے ۔ہر قسم کی پچز اور ممالک میں رنز کر چکے ہیں ۔ عظیم بیٹسمین تو ہیں ہی ،اس لئے اب آگے کا سفر انکی عظمت کے لیول کا ہی تعین کرے گا ۔

 مائنڈ سیٹ انکے اپنے بقول یہ بولرز کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے ۔انکا پورا کھیل جارحیت پر مبنی ہے ۔ایک بات جو انہیں دنیا کے تمام بلے باز وںسے ممتاز کرتی ہے وہ انکے"پہلے سے طے شدہ سٹروکس کھیلنے کی سب سے بہتر اندازہ لگانے اور پھر اسکو کھیلنے کی صلاحیت ہے ۔"یہ بولرز کا ذہن اسکے گیند کے پھینکنے سے پہلے ہی پڑھ لینے میں دنیا کے تمام بیٹسمین سے آگے ہیں ۔خاص کر اننگز کے آخری اوورز میں انکا کھیل حیرت انگیز ہوتا ہے ۔

عمدہ کنٹرولڈ جارحیت کے ماسٹر ہیں ۔کھیل کو خوبی سے بناتے ہیں ۔ مستقبل کے ٹارگٹ اے بی اگلے چار سے پانچ سال تو با آسانی کھیل سکتے ہیں ۔امید کی جا سکتی ہے کہ اپنے کیریئر کے اختتام پر یہ دنیا کے کئی ریکارڈز توڑ چکے ہوں گے ۔کم سے کم یہ جنوبی افریقہ کے عظیم ترین بلے بازوں کی صف میں ممتاز ضرور ہوں گے ۔یاد رہے اس لسٹ میں کیلس،بیری رچرڈز،گریم پولاک ،سمتھ ،آملا وغیرہ شامل ہیں بیحد محتاط اندازے کے مطابق بھی ۔ٹیسٹ میچز میں یہ مزید بارہ سے پندرہ سینچریاں تو سکور کر ہی سکتے ہیں ایک روزہ میں بھی اتنی ہی مزید سینچریوں کی توقع کی جا سکتی ہے ۔

ٹیم ٹارگٹس میں جنوبی افریقہ کے ون ڈے میچ کپتان ہونے کے ناتے انکی خواہش ہو گی کہ اس بار ورلڈ کپ جیت کر پروٹیز سے چوکرز کا ٹیگ ہٹوا ہی دیں ۔ اپنی ٹیم کے بعد پاکستانی شائقین کی اگلی فیورٹ ٹیم ہمیشہ ویسٹ انڈیز ہی رہی ہے ۔اس بار بھی شاید ایسا ہی پاکستانی شائقین کی ہمدردیاں کسی کمزور ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں ۔لیکن جنوبی افریقہ کبھی بھی پاکستانی شائقین کی فیورٹ ٹیم نہیں رہی مگر اے بی ڈی ویلیئرز ،سٹین ،آملا اور ڈی کاک کی پاکستان میں مقبولیت کو دیکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے کہ اس بار کافی پاکستانی شائقین خدا نخواستہ پاکستانی ٹیم کی نا کامی کی صورت میں جنوبی افریقہ کو سپورٹ کریں گے ۔اب آگے ناک آوٹ میچز میں جا کر چوک نہ کرنا ہی پروٹیز کا سب سے بڑا امتحان ہو گا ۔

ثاقب ملک

Post a Comment

0 Comments