Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ورلڈ کپ 2015ء میں فیورٹ کون؟.....

ورلڈ کپ 2015ء میں فیورٹ کون؟ دنیائے کر کٹ کی آٹھ بہترین ٹیموں کا جائزہ ورلڈ کپ شروع ہونے میں لگ بھگ بیس روز رہ گئے۔ ٹیموں کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکیں۔ ورلڈ کپ کے لئے ہر ملک کی ٹیم کا اعلان ہوگیا ہے اور ماہرین ان کا جائزہ لے کر مثبت اور منفی پہلوئوں کا تعین کر رہے ہیں۔ مختلف ماہرین اپنی اپنی فیورٹ ٹیموں کے بارے میں بھی پیش گوئیا ں کر رہے ہیں۔

 زیادہ تر کی رائے میں آسٹریلیا، جنوبی افریقہ ، نیوزی لینڈ اور بھارت فیورٹ ہیں۔ ایک آدھ نے سری لنکا کی بات بھی کی ہے۔ پاکستان کو اس بار فیورٹ ٹیموں میں شامل نہیں کیا جا رہا ، جس کی وجوہات پر آگے چل کر بات ہوگی۔انگلینڈ، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کو بھی زیادہ لفٹ نہیں کرائی جا رہی ہے، ان کی وجوہات پر بھی بات کرتے ہیں۔ پاکستانی کوچ اور کپتان نے فیورٹ نہ ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ان کے خیال میں فیورٹ ٹیموں پر دبائو بھی زیادہ رہتاہے،جو ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔سب سے پہلے موسٹ فیورٹ ٹیموں کی بات کرتے ہیں۔

 آسٹریلیا کینگروز کے نام سے معروف آسٹریلوی ٹیم اس بار موسٹ فیورٹ سمجھی جا رہی ہے۔ بڑی وجوہات دو ہیں۔ ایک تو ورلڈ کپ میچز آسٹریلیا کی بائونسی پچز پر کھیلے جا رہے ہیں، جہاں کھیلنا کسی بھی دوسری ٹیم کے بلے باز کے لئے خاصا پریشان کن ہوتا ہے۔ دنیائے کرکٹ کے بہت سے نامور بلے باز ایسے ہیں، جو اپنے شاندار ریکارڈ کے باوجود آسٹریلیا میں رنزنہیں کر پائے۔آسٹریلیا میں کوئی بھی ٹورنامنٹ ہو، کچھ نہ کچھ ایڈوانٹیج تو آسٹریلوی ٹیم کو
فوراً ہی حاصل ہوجاتاہے کہ وہ اپنے میدانوں میں کھیلنے کے عادی ہیں ۔

دوسری بڑی وجہ آسٹریلوی ٹیم کا فارم میں ہونا اور ان میں کئی میچ ونر کھلاڑیوں کا شامل ہونا ہے۔ آسٹریلوی بیٹنگ بڑی مضبوط ہے اور اگر ان کے فٹ نیس کے مسائل سے دوچار کھلاڑی مائیکل کلارک اور شین واٹسن فٹ رہے تو ان کی قوت مزید بڑھ جائے گی۔ اوپنر ڈیوڈ وارنر شاندار فار م میں ہیں، وہ بڑے تواتر سے رنز کر رہے ہیں۔ جارحانہ انداز سے کھیلنے والے وارنر کی فارم ورلڈ کپ میں ان کی ٹیم کے لئے بہت اہم ہوگی۔ 

جیمز فالکنر میچ کا پانسہ پلٹ دینے والے ہٹر ہیں، تجربہ کار بریڈ ہیڈن بھی آج کل فارم میںہیں، سٹیون سمتھ نے اگلے روز انگلینڈ کے خلاف میچ وننگ سنچری بنائی۔ جارج بیلی بہت تجربہ کار بلے باز ہیں، ایرون فنچ کو موقعہ ملا تو وہ بھی حیران کر سکتے ہیں۔ گلین میکسویل بڑے خطرناک ون ڈے بلے باز ہیں، مگر ان پر آج کل بیڈ پیچ آیا ہوا ہے، اگر میکسویل فارم میں آگئے تو آسٹریلوی بیٹنگ کسی بھی بڑے ٹارگٹ کوآسانی سے حاصل کرسکے گی۔ آسٹریلوی بائولنگ اگرچہ بیٹنگ کے مقابلے میں قدرے کمزور ہے ، مگر اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

 مچل جانسن پچھلے دو برسوں سے بڑی تباہ کن فارم میں ہیں، مچل سٹارک آج کل اچھی بائولنگ کرا رہے ہیں،جیمز فالکنر اور دوسرے فاسٹ بائولر بھی اپنے ملک کی پچوں کے حساب سے اچھی بائولنگ کرا لیتے ہیں۔ ان کی واحد کمزوری یہ ہے کہ پہلی بار وہ کسی سپیشلسٹ سپنر کے بغیر ورلڈ کپ کھیلنے آئے ہیں۔ آئن چیپل نے اسے آسٹریلوی ٹیم کی بڑی کمزوری قرار دیا ہے۔ اگرچہ آسٹریلیا کے پاس بیٹنگ آل رائونڈرز کی شکل میں پارٹ ٹائم سپنر موجود ہیں، مگر کسی کانٹے دار میچ میں پارٹ ٹائم بائولر ٹیم کو پھنسا بھی سکتے ہیں۔ 

ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آسٹریلوی ٹیم ہوم گرائونڈ کا پریشر ہینڈل کر لے گی؟ بیس سال پہلے جب یہاں پر ورلڈ کپ ہوا تو آسٹریلوی ٹیم کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ، وہ سیمی فائنل میں بھی نہیں جا سکی تھی، اس وقت یہ کہا گیا کہ دوسری کمزوریوں کے علاوہ یہ ٹیم ہوم گرائونڈ پریشر بھی برداشت نہیں کر سکی۔ اس بار دیکھئے کیا ہوتا ہے ، اس وقت تک آسٹریلیا بہرحال فیورٹ ترین ٹیم ہے۔ ان کے پول میں دوسری نمایاں ٹیموں میں سے نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور سری لنکا کے ساتھ بنگلہ دیش بھی شامل ہے۔

 فارمیٹ کے مطابق چار ٹیموں نے کوارٹر فائنل میں جانا ہے، جہاں ان کا دوسرے پول سے آئی چار ٹیموں سے میچ ہوگا۔ جنوبی افریقہ جنوبی افریقی ٹیم کو بڑے ٹورنامنٹ کے فیصلہ کن میچز میں پرفارم نہ کر سکنے پر چوکرز کہا جاتا ہے۔ اس بار جنوبی افریقی ٹیم اس دھبے کو مٹانے کی نیت سے آسٹریلیا آ رہی ہے۔ جنوبی افریقہ بھی فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ہے۔ ان کے اپنے ملک میں تیز بائونسی پچز ہیں، اس لئے ان کے لئے آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ کی پچوں پر کھیلنا مشکل نہیں ہوتا، دوسرا جنوبی افریقی ٹیم بھی آج کل بڑی اچھی فارم میں ہے۔

 ان کے کپتان اے بی ڈی ویلئیرز آج کل غیرمعمولی فارم میں ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے ویسٹ انڈین بائولنگ کا بھرکس نکالتے ہوئے ون ڈے کی تیز ترین سنچری بنائی۔ جنوبی افریقی ٹیم کی بیٹنگ لائن بھی بڑی مضبوط ہے۔ بہترین تکنیک سے کھیلنے والے ہاشم آملہ، ڈی ویلیئرز، ڈی کاک ، ڈوپلیسی، ڈومنی اور ڈیوڈ ملر جیسے تیز اور وکٹ پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھنے والے بلے بازوں کا حسین امتزاج ان کے پاس ہے۔ہاشم آملہ اورفاف ڈوپلیسی بھی اچھی فارم میں ہیں، پال ڈومنی تسلسل سے رنز کرتے رہتے ہیں۔ 

ان کی بائولنگ بھی اچھی ہے۔ دنیا کا بہترین فاسٹ بائولر ڈیل اسٹین ان کے پاس ہے، اس کے علاوہ فلینڈر،طویل قامت مورکل جیسے فاسٹ بائولر اوروین پارنیل جیسا آل رائونڈر بھی ہے۔ پاکستانی نژاد عمران طاہر کی شکل میں انہیں ایک سپیشلسٹ لیگ سپنر کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ آسٹریلیا کی پچز پر لیگ سپنر بائونس حاصل کرتے اور پریشانی پیدا کر سکتے ہیں، عمران طاہر کا خاص ہتھیار ان کی فنگر گگلی ہے جو عبدالقادر نے انہیں سکھائی تھی۔ 

جنوبی افریقہ کے پول میں پاکستان، بھارت اور ویسٹ انڈیز نمایاں ٹیمیں ہیں۔ بھارت بھارتی ٹیم نے اپنی طرف سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا اور ورلڈ کپ سے پہلے ڈھائی تین ماہ کا دورہ آسٹریلیا پلان کر لیا۔ وہ آسٹریلیا کے ساتھ چار ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیل چکے ہیں، جبکہ آج کل انگلینڈاور آسٹریلیا کے ساتھ تین ملکی ون ڈے ٹورنامنٹ کے میچز کھیل رہے ہیں۔ بھارت کے پاس چند ایسے بہترین بلے باز ہیں جو دنیا کی کسی بھی پچ پر رنز کر سکتے ہیں۔

 ویرات کوہلی ان میں سے ایک ہیں۔ کوہلی نے ٹیسٹ میچز میں چار سنچریاں بنا کر ہر ایک کو حیران کر دیا۔ اجنکیا رہانے بھی اچھی فارم میں ہیں، انہوں نے عمدہ سنچریاں بنائی ہیں۔روہیت شرما کچھ عرصہ قبل ڈبل سنچری بنا کر عالمی ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ سریش رائنا تجربہ کار ون ڈے بلے باز ہیں۔ کپتان ایم ایس دھونی قابل اعتماد بلے باز ہیں، جو مشکل وقت میں رنز بنا نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تشویشناک بات ان کے اوپنر شیکھر دھون کی بری فارم ہے۔ 

دھون پچھلے کچھ عرصے سے بالکل ہی رنز نہیں کر پا رہے۔ بھارت کے ون ڈے سپیشلسٹ آل رائونڈر رویندرا جدیجابھی پوری طرح فٹ نہیں، اگر وہ صحت یاب نہ ہوئے تو بھارتی ٹیم کوآل رائونڈر اکثر پٹیل پر انحصار کرنا پڑے گا ،جو ابھی تک بیٹنگ میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔سٹورٹ ِبنی بھی اچھے آل رائونڈر ہیں۔ بائولنگ اس وقت بھارتی ٹیم کی کمزوری بنی ہوئی ہے۔ عام طور پر بھارت اپنے سپنرزپر خاصا انحصار کرتا ہے ، مگر آسٹریلوی پچز پر ایشون جیسا سپنر بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ 

فاسٹ بائولنگ میں وہ امیش یادو، بھونیشور کمار ،محمد شامی اور ایشانت شرما پر تکیہ کئے ہوئے ہیں، مگر یہ بائولرز مخالف ٹیموں کو کم رنز پر آئوٹ کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہ کمزور بائولنگ بھارت کے راستے کی رکاوٹ بنے گی۔ ان کی بیٹنگ کواس بار زیادہ بڑا ٹارگٹ سیٹ کرنا ہوگا ۔بھارت کے لئے طویل دورہ منفی بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ ان کے کھلاڑی اب تھکے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ورلڈ کپ میں آگے جانے کے لئے بھارتی ٹیم کو ان کمزوریوں سے نبردا ٓزما ہونا پڑے گا۔ بھارت کے پول میں پاکستان، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز نمایاں حریف ہیں۔ نیوز ی لینڈ کیویز کے نام سے معروف یہ ٹیم اس بار ورلڈ کپ فیورٹ کے طور پر شریک ہورہی ہے۔ 

نیوزی لینڈ عام طور پر اتنی طاقتور ٹیم شمار نہیں ہوتی، اس بار مگر دو تین باتیں ان کے حق میں گئی ہیں۔ ایک تو میچز ان کی ہارڈ بائونسی پچوں پر ہو رہے ہیں،جہاں مخالف ٹیموں کے لئے ایڈ جسٹ کرنا آسان نہیں۔ دوسرا نیوزی لینڈ کی بائولنگ لائن بڑی مضبوط ہوچکی ہے۔ انہیںبہت اچھے اور جینوئن فاسٹ بائولرز کا ساتھ حاصل ہے۔ دنیا کا تیز ترین فاسٹ بائولر ایڈم ملن جو150کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تیز بائولنگ کر سکتا ہے، مخالف ٹاپ آرڈر کے لئے دردسر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کائل ملز، ٹرینٹ بولٹ اور ٹم سائوتھی جیسے عمدہ فاسٹ بائولرز موجود ہیں۔ ڈینئل جیسا نہایت تجربہ کار لیفٹ آرم سپنر اور ناتھن میکولم آف سپنر بھی ان کے پاس ہے، ولیمسن کا بائولنگ ایکشن کلئیر ہوچکا ہے اور وہ پارٹ ٹائم سپن بائولنگ کرا سکتے ہیں۔

 ان کے کپتان برینڈم میکولم اکیلے ہی میچ کا پانسہ پلٹ دینے والے بلے باز ہیں،نائب کپتان کین ولیمسن بہت عمدہ فارم میں ہیں، گزشتہ روز انہوں نے سری لنکا کے خلاف میچ وننگ سنچری بنائی۔ روز ٹیلر، مارٹن گپٹل جیسے بلے بازوں کا بھی انہیں ساتھ حاصل ہے۔ لیون رانچی آخری اوورز میں اچھی ہٹنگ کر سکتے ہیں، کورے اینڈرسن ون ڈے میچز کی دوسری تیز ترین سنچری کا اعزاز رکھتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم اس وقت واقعی مضبوط ہے اور اسے ہرانا آسان نہیں۔ ہوم گرائونڈ اور ہوم کرائوڈ کا پریشر ان پر بھی ہوگا،ورلڈ کپ میں آگے جانے کے لئے کیویز کو یہ پریشر ہینڈل کرنا ہوگا۔ 

ان کے پول میں نمایاں ٹیمیں انگلینڈ، آسٹریلیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش ہیں۔ انگلینڈ انگلینڈایک خاص سطح کی اچھی ٹیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار بھی انہیں نظر انداز کرنا غلطی ہوگا، مگر ماہرین انہیں فیورٹ ٹیم میں شمار نہیں کر رہے۔ انگلینڈ ٹیم پچھلے کچھ عرصے سے اندرونی خلفشار کا شکار رہی ہے، کیون پیٹرسن نے ٹیم سے نکالے جانے پر اپنی آپ بیتی میں جو زہر اگلا، اس کے اثرات انگلش ڈریسنگ روم پر ابھی تک نظر آ رہے ہیں۔ ان کے کپتان کو آخری موقعہ پر بدلنا پڑا۔ ایلیسٹر کک کی جگہ اب مورگن کپتان ہیں۔

 مورگن کو کپتانی کا زیادہ تجربہ نہیں، ورلڈ کپ پریشر بھی اپنی جگہ ہوگا، اس لئے یہ انگلش ٹیم کا منفی پوائنٹ تصور ہو رہا ہے۔ ان کے پاس بعض اچھے میچ وننگ پلئیرز البتہ موجود ہیں۔ بیل اچھی فارم میں ہیں، گزشتہ روز انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف اچھی سنچری بنائی۔ معین علی مفید آل رائونڈر ہیں۔ جو روٹ کو ورلڈ کپ میں پرفارم کرنا ہوگا، روی بوپارہ تجربہ کار ون ڈے سپیشلسٹ ہیں۔انگلش بائولنگ میں پہلے جیسی کاٹ نہیں۔ اگرچہ سٹیون فن، جیمز اینڈرسن ، سٹورٹ براڈ سب اچھے بائولر ہیں، مگر مخالف ٹیم پر دبائو ڈالنا ان کے لئے اب زیادہ آسان نہیں گریم سوان جیسا کرشمہ ساز سپنر بھی ریٹائر ہوچکا۔ انگلش ٹیم کو ورلڈ کپ میں پرفارم کرنے کے لئے ایک یونٹ بننا ہوگا۔

 انگلینڈ کوارٹر فائنل تک پہنچتی صاف نظر آ رہی ہے۔ اصل امتحان تب شروع ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کالی آندھی کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ آپس کے جھگڑوں اور ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کی ناقص منصوبہ بندی نے اس بار کمزور ویسٹ انڈین ٹیم ورلڈ کپ میں اتاری ہے۔ براوو جیسا میچ ونر کھلاڑی اور ریکارڈوپاول جیسا تجربہ کار ون ڈے سپیشلسٹ ٹیم میں شامل نہیں کئے گئے۔ کرس گیل نے ان کو سلیکٹ نہ کرنے پر برملا اپنی ناراضی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لگتا ہے کہ گیل خاصے ناخوش ہیں، کپتان ہولڈر بھی زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ تاہم ویسٹ انڈین ٹیم میں نائب کپتان مارلن سیموئلز، ڈیرن براوو، ڈیوائن سمتھ جیسے بلے باز موجود ہیں، دنیش رام دین بھی رنز کر رہے ہیں۔ 

بائولنگ میں مسٹری بائولر سنیل نرائن مخالف ٹیموں کے لئے خطرہ ثابت ہوں گے، کیمارروخ اچھے فاسٹ بائولر ہیں، ڈیرن سمی آخری اوورز میں میچ کا پانسہ پلٹ دینے والے آل رائونڈر ہیں۔ ویسٹ انڈین ٹیم اپنے اندرونی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ آسانی سے کوارٹر فائنل میں پہنچ سکتی ہے۔ سری لنکا سری لنکا ون ڈے کی اچھی ٹیم ہے، انہیں اس بار زیادہ فیورٹ نہ سمجھنے کی ایک وجہ آسٹریلوی اور نیوزی لینڈ کے گرائونڈ ہیں، جہاں سری لنکن زیادہ اچھا پرفارم نہیں کرتے رہے۔ سری لنکا کو دنیا کے بہترین بلے بازوں میں سے دو بلے بازوں سنگا کارا اور مہیلا جے وردھنے کا ساتھ حاصل ہے۔ دونوں اپنے آخری ورلڈ کپ کو یادگار بنانے کی پوری کوشش کریں گے۔ 

دلشان اچھے جارحانہ بلے باز ہیں۔نائب کپتان تھرامائنے اور چندی مل بھی اچھے کھلاڑی ہیں، تاہم بائونسی پچز پر ان کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔سری لنکا کو اپنے کپتان اینجلو میتھیوز کی غیرمعمولی کارکردگی کا ایڈوانٹیج ہے۔ میتھیوز بڑے تسلسل سے رنز کر رہے ہیں، مشکل حالات میں وہ اکیلے ہی ٹیم کو سنبھال لیتے ہیں۔ بائونسی پچوں پر البتہ وہ زیادہ رنز نہیں کر پارہے۔ ان کی بڑی پریشانی تجربہ کار فاسٹ بائولر مالنگا کا ان فٹ ہونا ہے۔ مالنگا آخری اوورز میں اپنے نپے تلے یارکرز کے ذریعے مخالفوں کو پریشان کر دیتے ہیں۔ لیکمل اور کالو سکیرا پر سری لنکا انحصار کرے گی۔ 

ان کے سپنر سچترا سرانائیکے کا ایکشن کلئیر ہوچکا ہے،پریرا بھی اچھے آل رائونڈر ہیں۔ سری لنکا کو ورلڈ کپ میں کچھ کرشمہ دکھانے کے لئے بہت محنت کرنی پڑے گی۔ پاکستان پاکستانی ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ ہارڈ بائونسی پچز پر بلے بازوں کا نہ چلنا ہے۔ یہ پاکستان کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ اس بار تو مصیبت یہ بھی ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں نے عرصے سے تیز پچوں پر کھیلا ہی نہیں، زیادہ تر سیریز متحدہ عرب امارات کی سلو پچز پر کھیلیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی وکٹیں یکسر مختلف ہیں۔ اوپننگ بھی ایک نمایاں مسئلہ ہے۔ محمد حفیظ بطور اوپنر ساتھ ہیں، مگر ہر ایک کو اندازہ ہے کہ وہ تیز بائولنگ پر کمزور ہیں اورشائد کامیاب نہ ہوسکیں۔ سلیکشن ٹیم کے خیال میں وکٹ کیپر سرفراز ایسی صورتحال میں اوپننگ کر سکتے ہیں۔

 اگرچہ سرفراز اچھی فارم میں ہیں، مگر سلو پچوں پر سوئپ شاٹس کھیلنے اور نئی گیند سے تیز بائولروں کا سامنا کرنے میں بڑا فرق ہے۔ تجربہ کار بلے باز یونس خان اور کپتان مصباح الحق کے کندھوں پر بھاری زمہ داری ہے۔ صہیب مقصود بھی اچھے سٹروک پلئیر ہیں، حارث سہیل نے اپنے آپ کو ثابت کیا ہے، تیز پچوں کے ساتھ ورلڈ کپ پریشر ان کے لئے ایک امتحان ہے۔ پاکستانی بائولنگ بھی اس بار کمزور ہے۔ جنید خان آخری وقت پر ان فٹ ہوگئے۔ سعید اجمل جیسا تجربہ کار بائولر پابندی کے باعث ساتھ نہیں ۔ 

حفیظ کا ایکشن اگر کلئیر نہ ہوا تو پانچویں بائولر کا مسئلہ رہے گااور حارث سہیل، احمد شہزاد جیسے نوآموز بائولروں کو استعمال کرنا پڑے گا۔ شاہد آفریدی بھی کچھ عرصے سے وکٹ لینے والے بائولر نہیں رہے۔ محمد عرفان واحد سٹرائیک بائولر ہیں۔ پاکستانی ٹیم کے لئے پلس پوائنٹ یہی ہے کہ کوئی ان سے زیادہ کی توقع نہیں کر رہا۔ ایسے میں وہ کھل کر کھیل سکتے اور دنیا کو حیران کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے پول میں بھارت، ویسٹ انڈیز اور جنوبی افریقہ اہم ٹیمیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ چار ٹیموں نے کوارٹر فائنل میں جانا ہے تو پاکستان سمیت یہ چاروں ٹیمیں آسانی سے آگے جا سکتی ہیں۔ 

تاہم زمبابوے، آئرلینڈ اور متحدہ عرب امارات کو ہر حال میں شکست دینا ہوگی۔ اسی طرح دوسرے پول سے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور سری لنکا کے آگے آنے کے امکانات ہیں،اگرچہ بنگلہ دیش بھی اپ سیٹ کرنے کی خواہش لئے وہاں موجود ہے۔ کوارٹر فائنل مقابلے اس لحاظ سے بڑے کانٹے دار مقابلے ہوں گے۔ کرکٹ کو بائی چانس کھیل کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ٹیم کوارٹر فائنل والے دن اچھا کھیل کر موسٹ فیورٹ ٹیم کو بھی باہر کر سکتی ہے، مگر ورلڈ کپ جیتنے کے لئے سیمی فائنل اور فائنل کے امتحانات سے بھی کامیابی سے گزرنا ہوگا۔

عامر خاکوانی

Post a Comment

0 Comments