Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

نئی نسل کو تخریب سے بچانے اور تعمیر کی طرف لانے کی ...ضرورت


نام نہاد دولت اسلامی عراق و شام کے دونوں ملکوں میں مضبوط مراکز پر حملے کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو سبھوں نے نہ سہی، اکثر نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ نہ صرف یہ کہ اس تنظیم یا مسلک نے علاقے میں لوگوں کو بے پناہ مصائب سے دوچار کیا تھا بلکہ اس کی وجہ سے اسلام کا تشخص بھی بری طرح مجروح ہوا ہے اور اسلام کا غلط تاثر سامنے آیا ہے۔ داعش اسلامی نظریات کو مسخ کر کے پیش کرتی ہے اور انہی مسخ کردہ نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے خونی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے داعش سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو اپنا ہدف بناتے ہوئے انہیں عسکریت پسندوں کے طور پر بھرتی کرتی ہے۔ تاکہ عرب دنیا میں اپنا نفرت اور تشدد پر مبنی ایجنڈا پورا کرسکے
پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر طرز کی گلے کاٹنے اور سر قلم کرنے کی بائی گئی تصاویر اور ویڈیوز سامنے لائی جاتی ہیں۔ اس ظلم اور درندگی سے مسلمانوں کی اکثریت بھی کانپ کانپ جاتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ گمراہ مسلک کے اس گھناونے فعل سے ہر کسی کو گھن آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ میں اسلام کے خلاف اسلام کے خلاف غیر معمولی مہم جاری ہے اور وہ داعش کے مظالم کو اسلام کے خلاف مہم جوئی سے برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اس مہم کے نتیجے میں اسلام کے خلاف ایک گمراہ کن تصویر پیش کی جارہی ہے۔
\
اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک فوری اور دیر پا حل کی طرف آئیں۔ ہمیں ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے کہ ہم داعش کی طرف سے درپیش سنگین خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ داعش غیر معمولی طور پر طاقت پکڑ چکی ہے اور اب ہماری سرحدوں پر دستک دے رہی ہے۔

حملے ناکافی ہیں

بلا شبہ متحدہ عرب محاذ کی طرف سے فوجی حملے ضروری ہیں۔ لیکن یہ خیال رہنا چاہتے کہ صرف یہ حملے ہی کافی نہیں ہیں۔ داعش کی جڑوں کو نشانہ بنانے کے لیے اقدامات کی اہمیت دو چند ہے۔ تاکہ اس منحرف گروہ کا نظریاتی اثر و رسوخ کم کیا جاسکے۔ انتہا پسندانہ کلچر کے خاتمے کے لیے ہمیں مزید موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کے مقابلے میں بردباری اور تحمل کے کلچر کو بڑھاوا دینا ازحد ضروری ہے۔ اسی کے نتیجے میں مسلمانوں میں اعتدال پسندانہ رجحانات ممکن ہو سکیں گے۔

علاوہ ازیں جس چیز کی انتہائی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم اپنی اس نوجوان نسل کو داعش کے گمراہ کن نام سے بچائیں، جنہیں داعش جنت اور اچھی زندگی کے وعدوں کی بنیاد پر ساتھ ملا لیتی ہے۔ اس گمراہی کو روکنے کے لیے لازم ہے کہ نئی نسل کو اسلام کی صحیح تعلیم سے آشنا کرائیں، انہیں تشدد کو چھوڑنے کی راہ سے آگہی دیں، مکالمے کی اہمیت اور افادیت اجاگر کریں، نیزمختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لیے نئی نسل کو احترام کی طرف مائل کریں۔

سعودی عرب کو آگے بڑھانے کے لیے نظریاتی بحران کا حل نکالنا ہو گا، کیونکہ اسی بحران کی بدولت انتہا پسندانہ خیالات کے پنپنے کا موقع ہے۔ یہ اندوہناک بات ہے کہ پچھلے دو عشروں کے دوراان ہمارے معاشرے نے عدم تحمل اور مذہبی تعصب کا مشاہدہ کیا ہے، اس نے ہماری نئی نسل کو الجھاوے میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی کی وجہ سے نئی نسل کا پر امن زندگی کا اسلوب درہم برہم ہوا ہے۔ انہیں مساجد میں آئمہ کے سامنے آتشیں لب و لہجے میں بولتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ بچوں کو اس عرصے میں ذہنی غسل سے گذارا گیا ہے۔ انتہا پسند اساتذہ نے اس ناطے سمر کیمپس کا اہتمام کیا۔ سوشل میڈیا پر پر عجیب و غریب فتووں کی بھر مار نظر آئی۔ ان فتاوی میں زیادہ تر وہ فتاوی تھے جو خود ساختہ علماء کی طرف سے دیے گئے۔

غیر معمولی تاخیر

انتہا پسندی کو روکنے میں تاخیر کرنے کے باعث ہمیں اپنے پیاروں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب اس مسئلے کا علاج کرنے میں وقت درکار ہو گا۔ تاہم مسئلے کی درست تشخیص اور اس کی موجودگی کا اعتراف مسئلے کے حل کی طرف ایک بہتر قدم ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف الخیال لوگوں کو اپنی آواز سنانے کا ہر سٹیج پر موقع دیا جائے ۔ اپنے نوجوانون کو یہ سکھایا جائے کہ وہ دوسروں کی عزت کریں اور اختلاف رائے کو قبول کریں۔

اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا ، میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام کو متکبرانہ نظریات اور تشدد کے نقصانات سے آگاہ کرے۔ اس ناطے میڈیا میں ان لوگوں کو موقع دینے سے گریز کرنا ہو گا،ا جو نفرت پر مبنی تبلیغ کرنے والے ہوں۔ اس تناظر میں سعودی شاہ عبداللہ نے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان مکالمے کا آغاز کیا ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہمارا یہ مکالمہ دوسروں کے ساتھ کیونکر کامیاب ہو سکتا ہے، جب ہم اپنے ہاں اس مکالمے سے محروم ہوں اور ہمارے اپنے معاشرے میں باہمی مکالمے کا رجحان موجود نہ ہو۔ بلکہ انتہا پسند ہر اس آواز کو دبادیتے ہوں جو ان سے مختلف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں انتہا پسندانہ رجحانات کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

نئی نسل کو بچانے کے لیے

یہ بھی قابل غور ہے کہ جب ہم باہم ایک دوسرے کو قبول کرنے ، سمجھنے اور مسلم معاشرے میں تنوع کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تو ہم دوسرے معاشروں اور مذاہب کے ساتھ کس طرح مکالمہ کر سکتے ہیں۔ انتہا پسندی کو روک لگانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ٹھوس اقدامات کریں۔ مجرمانہ افعال کے علاج کے لیے عدالتی سطح پر اقدامات کریں۔ مذہب کی ٹھیکیداری کا حق کسی کو نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی کو دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ معاشرے میں اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے حکومت ، تجارتی و صنعتی شعبے اور عام لوگوں میں تعاون و ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی۔ نیز ہمارے تعلیمی شعبے کو چاہیے کہ اسلام کے اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر طلبہ کو نئے نئے علوم کی طرف مائل کریں۔ نوجوان نسل کا ہمارے اوپر قرض ہے کہ ہم انہیں انتہا پسندی سے بچائیں،انہیں زندگی سے پیار کی طرف لائیں تاکہ نئی نسل حسن زیست سے لطف اٹھا سکے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں بھی فرمایا گیا ہے ۔

Post a Comment

0 Comments