Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاک فوج کے اصل دشمن.....


جو چیلنج اس وقت افواج پاکستان کو درپیش ہے، وہ شاید ہی دنیا کی کسی اور فوج کو درپیش ہو۔ مشرقی سرحد پر سائز میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کی فوج کا سامنا۔ مغربی بارڈر پر ایک اور طرح کی بھیانک جنگ کا سامنا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی امریکہ کے ساتھ دوستی بھی اور دشمنی بھی (Love and hate relations) کا چیلنج ۔ دنیا کے کسی ملک کی فوج اس وقت اپنے ملک کے اندر مختلف محاذوں پر سرگرم عمل نہیں ہوگی، جس طرح کہ پاکستانی افواج ہیں۔ بلوچستان میں ایک اور نوعیت کی مصیبت، فاٹا اور سوات میں ایک اور طرح کی مصروفیت، کراچی میں ایک اور طرح کا الجھاو اور اب اسلام آباد جیسے شہروں میں آرٹیکل 245 کے تحت ایک اور طرح کی آزمائش ۔ فوج سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں کے چیلنجوں کا تو کوئی شمارہی نہیں ۔ فرقہ واریت کا چیلنج، لسانیت کا چیلنج، دہشت گردی کا چیلنج، غیرملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کا چیلنج ۔ سی آئی اے یہاں مصروف عمل، را یہاں سرگرم عمل ، ایرانی انٹیلی جنس یہاں فعال، عرب ممالک کی انٹیلی جنس یہاں مستعد جبکہ افغان انٹیلی جنس کی اپنی حرکتیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے لے کر برطانوی اور یورپی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے کارندوں اور سرمائے کا رخ یہاں موڑ دیا ہے۔

ان چیلنجوں کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے کہ قوم کا ہرفرد اپنی افواج اور اس کے اداروں کی پشت پر کھڑا ہو اور قوم کی طرف سے وہ مطلوبہ حمایت اور محبت اس فوج اوراس کے اداروں کے حصے میں تب پوری طرح آتی ہے جب وہ اپنے کام یعنی ملکی دفاع تک محدود رہیں۔ جو لوگ ان کو سیاست یا صحافت میں ملوث کرتے ہیں، وہ دوست کی شکل میں کیوں نہ ہوں دراصل اس فوج کے دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ لوگ یا تو اس فوج کے دشمن ہیں جو اسے ملکی سیاست میں ایمپائر بنانا چاہتے ہیں اوردعوتیں دے دے کر اسے سیاست کے گند میں ہاتھ ڈالنے کا کہتے ہیں ۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ ہماری فوج اور اس کے ادارے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں مکمل خاموش ہیں ۔فوج کے یہ دشمن یا نادان دوست تین حلقوں میں موجود ہیں۔ سیاسی میدان میں تحریک انصاف ، مسلم لیگ (ق) ، پاکستان عوامی تحریک اور چند بیروزگار سیاستدان اس فہرست میں شامل ہیں ۔ میڈیا میں بعض اخباری مالکان، بعض اینکرز اوربعض کالم نگار یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جبکہ تیسرا طبقہ ریٹائرڈ فوجی افسران کا ہے۔ عمران خان دنیا کے سامنے قسمیں اٹھاتے تھے کہ وہ اگست میں میاں نوازشریف کو رخصت کریں گے لیکن ہر کسی کو علم تھا کہ ان کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں ۔ یہ بھی ہر کسی کو علم تھا کہ عوامی طاقت سے وہ حکومت گرا نہیں سکتے کیونکہ بعض اوقات وہ تین ہزار لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر نواز شریف کی رخصتی کی خوشخبریاں سناتے رہے ۔ وہ ہر وقت ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کی دہائیاں دیتے رہے ۔

اب کسی ایسے ویسے فرد نے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے گواہی دی کہ کور کمیٹی کی میٹنگز میں عمران خان یہ بتاتے رہے کہ وہ فوج کے کہنے پر میدان میں اترے ہیں اور آخر میں فوج مداخلت کرکے سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ اب اگر فوج یا اس کے کسی ادارے میں موجود کسی فرد نے تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا تو وہ فوج کے خلاف غداری کا مرتکب ہوا ہے اور اگر عمران خان ، شاہ محمود قریشی یا پھر جہانگیر ترین جھوٹ بولتے رہے تو پھر وہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ یہی معاملہ گجرات کے چوہدھریوں اور شیخ رشید احمد کا بھی ہے ۔چوہدری صاحبان ہی قادری کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ’’ان‘‘ سے بات ہو گئی ہے اور وہ جو فائیو اسٹار کینٹینر میں بیٹھ کر ہزاروں بچوں اور خواتین کو مرواررہے ہیں تو اس امید پر مروارہے ہیں کہ فوج آ کر نواز شریف کو رخصت کرے گی ۔ان لوگوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے، اسے متنازع بنانے اور بدنام کرنے کی حد کر دی ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے ثالث یا گارنٹر بننے پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی لیکن ملاقات سے واپسی پر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے پوری قوم کے سامنے یہ غلط بیانی کی کہ آرمی چیف نے ثالث اور گارنٹر بننے کا کہا ہے ۔

اب وزیر اعظم کی غلط بیانی سے متعلق تو آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز آ گیا لیکن ان دونوں کی اس غلط بیانی کی تردید آئی ایس پی آر کی طرف سے آج تک نہیں ہوئی ۔ اسی طرح فورسز کے بعض ریٹائرڈ افسران ٹی وی چینلز پر آ کر ایک طرف فوج کی وکالت کرتے ہیں اور دوسری طرف حکومت کے خلاف تلخ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو فوج کا مزاج شناس باور کراتے ہیں بلکہ خلوتوں میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ وہ فوج کی ترجمانی کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر ائرفورس کے ایک سابق افسر (ائرمارشل شہزاد چوہدری نہیں) کوئی ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے حالانکہ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ان کے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔

گزشتہ روز وہ حامد میر صاحب کے پروگرام کیپیٹل ٹاک سے رخصت ہو رہے تھے ۔ اس پروگرام میں طاہرالقادری کے ترجمان بھی آئے تھے ۔ جیو کے دفتر سے رخصت ہوتے وقت اندھیرے کی وجہ سے ان کا خیال نہیں رہا لیکن ہمارے اسٹاف کے دو بندے ان کی گفتگو سن رہے تھے ۔ وہ کیپیٹل ٹاک میں ان کے ساتھ آئے ہوئے عوامی تحریک کے ترجمان کو نصیحت کررہے تھے کہ وہ پولیس سے نمٹ کر چڑھ دوڑیں اور یقین دلا رہے تھے کہ فوج انہیں کچھ نہیں کہے گی ۔ اسی طرح یہ طبقہ اب اہل صحافت میں بھی سامنے آ گیا ہے جو فخر سے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ سب کچھ عسکری اداروں کے اشارے پر کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ دن رات نہ صرف فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں بلکہ فوج کو دیگر اداروں کے ساتھ صف آرا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے آرمی چیف کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے مشورے کی جھوٹی خبر دی، یہی تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن کے بارے میں پیشنگوئی کی کہ اس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف قراردادیں پیش کی جائیں گی لیکن یہ سب جھوٹ نکلا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنی ساکھ کے بارے میں انتہائی حساس فوج اور اس کے ادارے ان لوگوں کے بارے میں خاموش ہیں ۔

حامد میر صاحب کے معاملے میں جیو کی طرف سے زیادتی ہوئی تھی جس پر جیو اور جنگ کی طرف سے معافی بھی مانگی گئی، جرمانہ بھی ادا کیا گیا، اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ‘ اس کے کارکنوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالی گئیں اور آج تک وہ ان خطرات سے دوچار ہیں لیکن دوسری طرف فوج اور آئی ایس آئی کو دن رات بدنام کرنے والے اور سویلین اداروں کو ان سے لڑانے کی سازش کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں حکومت ‘ فوج اور اس کے ادارے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ بسا اوقات وہ چہیتے بھی نظرآتے ہیں ۔ اسی طرح تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کو کوئی غدار کہہ رہا ہے اور نہ ان کی زبان بندی کی کوئی سبیل نکالی جارہی ہے۔افواج پاکستان کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف نہ صرف شریف ہیں بلکہ ایک پروفیشل سپاہی اور جرنیل بھی ہیں ۔ پوری قوم جانتی ہے کہ نوازشریف حکومت نے اپنی نااہلی اور عسکری اداروں کے ساتھ سیاست بازی کے ذریعے فوجی مداخلت کے کئی مواقع پیدا کئے لیکن جنرل راحیل شریف نے فوج کو اس کے آئینی دائرے تک محدود رکھا۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کے لئے عمران خان صاحب کی بھرپور کوششوں اور قادری صاحب کی التجائوں کے باوجود انہوں نے جس صبر کا مظاہرہ کیا ‘ اس کی وجہ سے قوم کی نظروں میں ان کی اور فوج کی قد بہت بلند ہوئی ہے لیکن بعض چیزیں اب بھی غلط فہمیاں پیدا کررہی ہیں ۔

ایک سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہاہے کہ آئی ایس پی آر کے ہر پریس ریلیز میں حکومت کو تو نصیحت موجود ہوتی تھی لیکن فوج کو بدنام اور قوم کو ذہنی عذاب میں مبتلا کرنے والے عمران خان اور قادری صاحب کو کسی پریس ریلیز میں کوئی نصیحت نہیں کی گئی ۔ دوسرا سوال ذہنوں میں یہ اٹھ رہا ہے کہ ایک غلطی کی بنیاد پر جیو اور جنگ کو دیوار سے لگانے والے ادارے فوج اور آئی ایس آئی کو سیاست میں دھکیل کر انہیں بدنام کرنے والے چینلز ‘ اینکرز اور نام نہاد عسکری ماہرین کو کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے ؟۔ جاوید ہاشمی کے الزامات معمولی الزامات نہیں ہیں ۔ وہ جس جماعت پر فوج کے ساتھ حکومت کے خلاف میچ فکسنگ کا الزام لگارہے ہیں، خود اس جماعت کے مرکزی صدر ہیں ۔ فوجی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کریں ۔

اگر ہاشمی صاحب جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے ۔ اگر عمران خان، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین وغیرہ نے اپنی کورکمیٹی سے جھوٹ بولا ہے تو ان کے خلاف فوج کو بدنام کرنے کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے اور اگر کسی عسکری ادارے کے کسی فرد یا افراد نے تحریک انصاف کے قائدین کو جھوٹی امیدیں دلائی تھیں تو ان سے بازپرس ہونا چاہئے ۔ اس جنگی فضا میں وہ قوم یکسو ہوکر اپنے قومی اداروں کے ساتھ کیسے کھڑی ہو گی کہ ان اداروں کی نظروں میں ’’جیو‘‘ کے لئے الگ اور کسی اور چینل کے لئے الگ قانون ہو اور جس میں بعض سیاستدانوں کو تو کسی ایک فقرے پر غدار قرار دیا جا رہا ہو لیکن کچھ سیاستدانوں کو فوج سے متعلق سب کچھ کہنے کی اجازت ہو۔

سلیم صافی

بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ


 

Post a Comment

0 Comments