Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھارتی الیکشن کے بعد .......

امن کی آشا والے متوالے دانشور اور کاروبار کی آشا والے بے تاب حکمران شاید میری بات پسند نہ کریں (مگر اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے) کہ برصغیر پاک و ہند صرف نصف صدی کا جداگانہ راستہ طے کرنے کے بعد ایک بار پھر اسی پرانی دنیا کے خطرناک حالات میں لوٹ آنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کو مسترد کر کے انھوں نے الگ الگ دنیائیں بسا لی تھیں۔ بھارت کے الیکشن نے اس صورت حال کو یکسر بدلا ہے۔ یہ الیکشن ہندو مسلم دو قوموں کے درمیان الیکشن بن گئے۔

ایک مسلمان جو بھارت میں موجود ہیں دوسرے ہندو جو بھارت کو صرف ہندو ملک ہی سمجھتے ہیں۔ ان فیصلہ کن انتخابات کے نتائج رفتہ رفتہ برآمد ہوں گے اور جس قدر عجلت کے ساتھ ہم نے بھارت کو مبارکباد دی ہے اس سے کچھ اندیشے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان موجود نہ ہوتا تو ہم حالات کی سنگینی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پورے بھارت میں مسلمانوں کا وہی حال ہوتا جو وزیر اعظم مودی کی وزارت اعلیٰ میں گجرات کے مسلمانوں کا ہوا تھا یعنی قتل عام اور پاکستان میں موجود مسلمان بھارتی دھمکیوں کی زد میں ہوتے۔

ہمارے بزرگ رہنمائوں کو القاء ہوا تھا کہ انھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک الگ ملک بنا لیا اور یہ القاء یا الہام تھا کہ مسلمانوں نے اپنے تحفظ کے لیے ایٹم بم بنا لیا تھا اور دنیا کی ایک زبردست فوج تیار کر لی تھی جس پر بھارتی الیکشن کے ساتھ ہی حملے شروع کر دیئے گئے۔ ہماری فوج کے بازوئے شمشیر زن کو رسوا کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ وہ تو ہم پاکستانیوں نے تمام کوشش رد کر دی ورنہ ہمارے دشمنوں کے آلہ کار نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک بہت بڑا ملک ہے۔ رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے۔ خبریں بتاتی ہیں کہ اس نے اسلحہ کے انبار جمع کر رکھے ہیں اور اسلحہ کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ بظاہر اس کے دشمن ہیں ایک عوامی جمہوریہ چین دوسرا اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ بھارت کے اسلحہ کے یہ ذخیرے چین کے لیے بے معنی ہیں۔ قطع نظر پرانی دیوار چین کے جو اب صرف تاریخی عجوبہ بن کر رہ گئی ہے چین کو تو یہاں ہمالیہ کی صورت میں ایک اور حفاظتی دیوار بھی میسر ہے جو اس کو بھارت جیسے دشمنوں سے بچاتی ہے۔


ویسے بدنیت ہندوستان نے چین کے ساتھ کئی بار چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بارے اسے منہ کی کھانی پڑی جس کے نتیجے میں اسے اپنی فوج میں کئی تبدیلیاں اور نئی فوج کھڑی کرنی پڑی مگر بھارت کی شکست کے باوجود چینی اس سے غافل نہیں ہیں کیونکہ بھارت کے ہندو پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ صرف اپنی طاقت اور مزاحمتی استعداد پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ان لاکھوں جھونپڑیوں سے قطع نظر کرکے جو بھارت کی عام آبادی خصوصاً بڑے شہروں میں موجود ہیں اور مہان بھارت کا منہ چڑاتی ہیں بھارت بنیادی طور پر ایک کمزور ملک ہے۔ بقول اندرا کے ہزار سالہ مسلمانوں کی غلامی کی وجہ سے بھارتیوں کے دلوں میں ابھی تک مسلمانوں کا خوف نہیں گیا۔

بھارتی مسلمانوں کو ابھی تک اپنے سے زیادہ طاقت ور سمجھتے ہیں جن کو ختم کرنے کی وہ مسلسل کوشش میں رہتے ہیں۔ فلموں تک میں وہ اپنے ہیرو کو بے پناہ طاقت کا حامل بناتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مستقل جارحیت کی اصل وجہ مسلمانوں کا خوف ہے۔ میں یہاں تاجر اور دانشور پاکستانیوں کا ذکر نہیں کرتا جس کے لیے میں کسی الگ مضمون میں ذکر کروں گا جو محض روپے پیسے کے لیے بھارت کو پسند کرتے ہیں۔ ان صاحب ایمان اور سچے پاکستانیوں کا ذکر کرتا ہوں جن کی زندگیاں جہاد سے عبارت ہیں اور یہ جہاد محض میدان جنگ میں ہی نہیں ہوتا پوری زندگی کے ہر شعبے میں ایک مسلمان جہاد کے جذبے سے شریک رہتا ہے۔

علم حاصل کرنا بھی جہاد میں شمار کیا گیا ہے۔ برطانوی دور کے ایسے لاتعداد واقعات ملتے ہیں جب جہاد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کو جہادی سمجھا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے جان تک دے سکتے ہیں۔ یہ تاریخ کی ایک الگ بحث ہے کہ افغانستان میں روسی افواج کو اسی جہاد کے جذبے نے رسوا کیا تھا جس کو کسی گولی سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی ایسا بارود ایجاد ہوا ہے جو کسی جہادی کے ایمان کو شکست دے سکے۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستانی چالیس پچاس سال کی عمر کے بعد بدل جاتا ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے۔

مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ اب ایک بار پھر ہماری زندگی میں تحریک پاکستان جنم لے رہی ہے اور تحریک کا یہ دور ویسے ہی حالات کا تقاضا ہے جو قیام پاکستان سے پہلے موجود تھے اور جس کی شدت نے ایک تحریک پیدا کی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ لیکن کیا آج ہمارے پاس وہ قائدین موجود ہیں جو تحریک پاکستان کے روح رواں اور رہنما تھے۔ مجھے تو اپنی آج کی دنیا بدلی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور خوفزدہ ہوں کہ ہم کسی آزمائش کے اہل نہیں رہے۔ بھارتیوں کے دل کمزور ہوں یا طاقت ور انھوں نے اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے اسلحہ کے انبار لگا رکھے ہیں اور اسے ہی وہ اپنی طاقت سمجھ رہے ہیں اور وہ غلط نہیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لیے ہمارے پاس کیا ہے۔

آج کی جنگوں میں اسلحہ بڑا اہم سمجھا جاتا ہے لیکن میری معلومات کے مطابق ہمارے پاس بھارت جتنا اسلحہ نہیں لیکن ہماری ضرورت سے کم بھی نہیں ہے۔ بھارت کو خوب پتہ ہے کہ ہمارے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ ہماری کمزوری صرف بھارت میں مقیم مسلمان ہیں جن کا تحفظ ہمارے ذمہ ہے لیکن یہ بدلے ہوئے حالات سے بھارتی مسلمان بھی اپنی پالیسی بدل رہے ہیں اور اب یہ پاکستان کا فرض ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو تحفظ کا راستہ دکھلائے لیکن مودی صاحب سمجھ لیں کہ اب گجرات گجرات نہیں بنے گا۔ کیا ہمارے حکمران بھارتی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔

عبدالقادر حسن

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments