Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟

جنوری دو ہزار چودہ کو اگر بھٹو ہوتے تو چھیاسی برس کے ہوتے۔ لیکن یہ شاید میری خواہش ہے۔ کیونکہ آج تک پاکستان میں جتنے بھی گورنر جنرل یا صدر بنے ان میں سوائے فضل الہی چوہدری (بیاسی سال) اور غلام اسحاق خان (اکیانوے سال ) کسی نے بھی اسّی کا ہندسہ پار نہیں کیا جبکہ وزیرِ اعظم تو ایک بھی ایسا نہیں گذرا جس نے اسّی واں برس دیکھا ہو۔

مگر بھٹو صاحب آج بطورِ خاص یوں یاد آئے کہ جب وہ کال کوٹھڑی میں تھے تو انہیں دانتوں کی شدید تکلیف ہوتی رہی۔ تاہم ضیا حکومت نے جیل کے ہسپتال میں ہی ان کا علاج جاری رکھا اور ان کے ذاتی ڈینٹسٹ ڈاکٹر ظفر نیازی کو کبھی زحمت نہیں دی جبکہ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال بھی اڈیالہ سے ایک پتھر کی مار پے تھا۔

واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر نواب محمد احمد خان کے قتل میں بھٹو صاحب شاید اس سے کم ملوث تھے جتنے پرویز مشرف اکبر بگٹی کے قتل یا جامعہ حفصہ کی کاروائی میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مگر بھٹو کی ضمانت نہیں ہوسکی اور مسعود محمود کی سلطانی گواہی نے بھٹو کو تختہِ دار تک لے جانے کا جواز بھی فراہم کردیا۔

لیکن جب سے اصلی گواہوں کے غائب یا منحرف ہونے کا فیشن ہوا ہے کوئی کسی مقدمے میں سلطانی گواہ بننے کو بھی تیار نہیں۔ بلکہ گواہ کیا فی زمانہ تو بہت سے وکیل تک کسی انفرادی، اجتماعی یا ادارتی دباؤ کی تاب نہیں لا سکتے اور اپنے وکالت نامے خود ہی منسوخ کر لیتے ہیں۔

کون پسند کرے گا ۔۔۔

بھلا کون پسند کرے گا کہ کسی کو انصاف دلاتے دلاتے خود ہی اپنے بیڈروم کے پنکھے سے جھول جائے یا تفتیش کرتے کرتے پھولے پیٹ کے ساتھ کسی نہر کے پل کے نیچے کسی جھاڑی میں اٹکا پایا جائے یا اتفاقاً اپنا ہی ریوالور اس طرح چل جائے کہ گولی اپنی ہی کنپٹی پھاڑتی نکل جائے۔

بلکہ وکیل کیا متعدد جج بھی تاریخوں پر تاریخیں ڈالتے چلے جاتے ہیں تاکہ ان کا تبادلہ ہوجائے یا وہ چھٹی لے لیں یا پھر ترقی پا کر مقدمہ کسی اور کے حوالے کرجائیں۔ بلکہ جج ہی کیا خود کئی انویسٹی گیٹرز اپنی ہی تفتیش کے نتائج سے خوفزدہ ہو کر مجرم کے قدموں کے نشانات کا رخ دروازے تک پہنچنے سے ذرا پہلے ہی احتیاطاً جنگل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

بھلا کون پسند کرے گا کہ کسی کو انصاف دلاتے دلاتے خود ہی اپنے بیڈروم کے پنکھے سے جھول جائے یا تفتیش کرتے کرتے پھولے پیٹ کے ساتھ کسی نہر کے پل کے نیچے کسی جھاڑی میں اٹکا پایا جائے یا اتفاقاً اپنا ہی ریوالور اس طرح چل جائے کہ گولی اپنی ہی کنپٹی پھاڑتی نکل جائے۔

یا مرنے کے بعد چوتھی منزل سے کود جائے۔آج کل تو عزرائیل بھی نقاب پوش ہو کر نائن ایم ایم پستول لگا کے موٹرسائیکل پرگھومتا ہے۔ چنانچہ فی زمانہ جو یہ کہتا ہے کہ کاغذ پر بندوق کی نال سے دستخط نہیں ہوسکتے ذرا سامنے آ کر تو کہے۔

چار اپریل انیس سو اناسی تک جنتا کو تین طرح کے دھماکہ خیز مواد رٹے ہوئے تھے۔ یعنی ڈائنامائیٹ، آر ڈی ایکس اور پلاسٹک ایکسپلوسیو۔ آج تو اللہ جانے کتنے قسم کے پھاڑو موادات و مفسدات مہیا ہیں۔ حتیٰ کہ فرینڈلی آئی ای ڈیز ( امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس) بھی آ گئے ہیں جو پھٹتے وٹتے نہیں صرف ڈرانے ورانے کے کام آتے ہیں۔ (ملزم سمجھنے والوں کو ڈرانے اور ملزم کو ورانے کے لیے)

ایسے ماحول میں ایسے میڈیائی پنڈتوں کو دیکھ سن کے بڑا اچھا لگتا ہے جو معصوم معصوم سوالات سے باسکٹ بال کھیل رہے ہیں۔ مثلاً کیا مشرف صاحب کے باڈی گارڈز ایم بی بی ایس بھی تھے جنہوں نے سینے میں درد اٹھتے ہی ہارٹ اٹیک بھانپ لیا اور ہنگامی طبی امداد کے لیے اچھی بھلی عدالت جاتی گاڑی کا رخ دو منٹ کے فاصلے پر واقع پولی کلینک یا آٹھ منٹ دور پمز ہسپتال کی جانب موڑنے کے بجائے پچیس منٹ کی ممکنہ جان لیوا مسافت پر قائم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف کر دیا۔ حالانکہ دل کے دورے کے بعد مریض کی زندگی کے لیے ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے۔

یہ سوال اس وقت پوچھنا چاہیے تھا

یہ سوال کہ صرف مشرف ہی کیوں؟ انہوں نے اکیلے تو سب کچھ نہیں کیا۔ باقی شریکِ گناہ کہاں ہیں؟

مگر یہ سوال تو اس وقت بھی پوچھنا چاہیے تھا جب جوہری بم ساز ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر کہلوایا گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا جوہری مواد کی سمگلنگ میں ملوث ہیں لہٰذا اکیلے ہی شرمندہ ہیں، لہٰذا اکیلے ہی معافی مانگتے ہیں۔

یا یہ سوال کہ صرف مشرف ہی کیوں؟ انہوں نے اکیلے تو سب کچھ نہیں کیا۔ باقی شریکِ گناہ کہاں ہیں؟

مگر یہ سوال تو اس وقت بھی پوچھنا چاہیے تھا جب جوہری بم ساز ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر کہلوایا گیا تھا کہ وہ تنِ تنہا جوہری مواد کی سمگلنگ میں ملوث ہیں لہٰذا اکیلے ہی شرمندہ ہیں، لہٰذا اکیلے ہی معافی مانگتے ہیں۔

آسان اردو میں اس کا ترجمہ یوں ہوگا کہ فوج کی نگرانی میں جاری جوہری پروگرام کے ناظمِ اعلیٰ سے لے کر کہوٹہ کے گیٹ پر اونگھنے والے سنتری تک کسی کو کبھی بھنک نہیں ہوئی کہ میں سینکڑوں سینٹری فیوج اور حساس نقشے بش کوٹ اور پتلون کی جیبوں میں اڑس کے اڑنے والے قالین پر بیٹھ کر پیونگ یانگ، تہران اور دوبئی آریا ہوں جاریا ہوں، جا ریا ہوں آریا ہوں۔

ڈاکٹر قدیر تو تنِ تنہا جوہری ہوڈینی بن سکتے ہیں مگر کمانڈو مشرف ایک معمولی سا آئین بھی اکیلے نہیں توڑ سکتے؟ واہ سائیں واہ۔

یا یہ دلیل کہ بارہ اکتوبر ننانوے کو حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف نے ٹیک اوور کیا اور تین نومبر دو ہزار سات کی ایمرجنسی اور آئین کی جزوی معطلی بھی چیف آف آرمی سٹاف کا کام تھا لہٰذا ان پر کسی سول عدالت میں مقدمہ نہیں چل سکتا بلکہ کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

بات یہ ہے کہ اگر کورٹ مارشل اتنا ہی آسان ہوتا تو جنرل یحییٰ خان اور جنرل نیازی کا بھی ہوجاتا۔

برہمن، سید اور جنرل اور جنرل اگر سید بھی ہو تو؟؟؟ بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی چنانچہ مٹ

وسعت اللہ خان

 

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments