Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایسے فن کار دنیا میں اور کہاں کہاں دستیاب ہیں بھلا ؟


معلوم نہیں آپ میں سے کتنوں نے امریکی فلم ساز مائیکل مور کی سن 2004 میں ریلیز ہونے والی دستاویزی فلم ’فارن ہائٹ نائن الیون‘ دیکھی ہے۔

اس میں ایک منظر یہ بھی ہے کہ مائیکل مور امریکی کانگریس کے باہر کھڑا ہوجاتا ہے اور اندر سے نکلنے والے ہر رکن سے بس ایک سوال پوچھتا ہے ۔کیا آپ کا کوئی بیٹا عراق میں لڑ رہا ہے ؟

پاکستان میں جماعتِ اسلامی سمیت متعدد مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اولاد افغانستان اور کشمیر میں جا کے لڑی اور کچھ کے بچے اس وقت بھی طالبان کے ہمراہ ہیں لیکن میرا سوال پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1174 منتخب اراکین سے ہے کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا یا بیٹی فوج ، نیم فوجی اداروں یا پولیس میں ہوتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کام آیا یا اپاہج ہوا؟

چلیں بس یہی بتا دیں کہ سنہ 2002 کی اسمبلیوں کے جن ارکان نے مشرف حکومت کی ’وار آن ٹیرر‘ حکمتِ عملی کی حمایت کی یا سنہ 2008 کی جن اسمبلیوں نے اس حکمتِ عملی کو کاما اور فل سٹاپ بدلے بغیر جاری رکھا یا سنہ 2013 کی اسمبلیوں میں موجود جماعتوں نے طالبان سے ’پہلے مذاکرات پھر کچھ اور‘ کے فارمولے کی متفق علیہ حمایت کی ان میں سے کس کس کے بچے یا بھائی بہن وغیرہ کسی خودکش حملے، دھماکے یا ٹارگٹ کلنگ میں کام آئے؟ یہ سوال اس پس منظر میں ہے کہ اب تک لگ بھگ 50 ہزار پاکستانی شہری کثیر الجہتی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ریاست کی بالادستی

ان میں سے ایک چوتھائی پیسے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں غیر سیاسی میرٹ کی بنیاد پر ریکروٹمنٹ ، کاؤنٹر ٹیرر ازم کے پیشہ ورانہ تربیتی نظام، معیاری حفاظتی، مواصلاتی و عسکری و فرونزک آلات کی مناسب فراہمی و ٹریننگ، سائنٹفک انٹیلی جنس کے فروغ ، متعلقہ اداروں کے مابین حسد و پیشہ ورانہ چپقلش سے پاک تعاون کے موثر ڈھانچے کے قیام ، عملی زندگی میں کام آنے والی تعلیم ، بلا امتیاز روزگار اور تیز رفتار و شفاف عدالتی انصاف یقینی بنانے جیسے اقدامات پر لگ جاتے تو آج ریاست کی بالادستی کا تصور ٹکے ٹوکری نہ بِک رہا ہوتا۔

جی ہاں آپ بے نظیر بھٹو کا نام لیں گے، بشیر بلور سمیت عوامی نیشنل پارٹی کے متعدد ارکانِ اسمبلی، کارکنوں اور میاں افتخار حسین کے بیٹے کا ذکر کریں گے۔ تحریکِ انصاف کے تین ارکانِ اسمبلی کے جاں بحق ہونے کا بھی حوالہ دیں گے مگر میرا سوال ہے کہ نائن الیون سے اب تک پاکستان میں تین مرتبہ بننے والی اسمبلیوں میں کل ملا کے جو 3422 سینیٹرز اور ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان میں سے کتنوں کے عزیز از جان خون کے رشتوں تک دہشت گردی کی تپش پہنچی ؟ 50 ہزار میں سے 15، 25 یا 50 بس۔

اچھا تو پھر ان 50 ہزار مرنے والوں کے کتنے لواحقین اس کے حق میں ہیں کہ جس انداز کی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ صرف مذاکرات سے ہی دور ہوسکتی ہے ۔کیا ان میں سے کچھ لواحقین نے کبھی کہیں جلوس نکالا یا جلسہ کیا یا دھرنا دیا کہ بس بہت ہوگیا مذاکرات کرو اگر وہ نہیں کرتے تب بھی کرو۔ دوطرفہ نہیں تو یکطرفہ ہی کرلو۔سامنے نہیں آتے تو سائے سے ہی کرلو۔

دہشت گردی کی دلدل سے نکلنے کی اگر یہی گیدڑ سنگھی ہے تو غیر مشروط مذاکرات کی پیش کش تو نائن الیون سے اب تک ملنے والی 26 ارب ڈالر کی امریکی امداد لیے بغیر بہت پہلے بھی ہو سکتی تھی کہ جس میں سے 17 ارب ڈالر سے زائد کی امداد اسلحے، تربیت اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے کرائے کی شکل میں ملی۔

سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ

خیبر پختونخوا کی پولیس کے لیے تین برس پہلے سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ اور آلات خریدے جاتے ہیں اور ان میں سے پونے دو ارب روپے کے لگ بھگ بے غیرتی کے دھاگے سے سلی جیبوں میں چلے جاتے ہیں مگر زور اس پر ہے کہ پیسے واپس کردو تو جان چھوٹ جائے گی۔

اگر ان میں سے ایک چوتھائی پیسے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں غیر سیاسی میرٹ کی بنیاد پر ریکروٹمنٹ ، کاؤنٹر ٹیرر ازم کے پیشہ ورانہ تربیتی نظام، معیاری حفاظتی، مواصلاتی و عسکری و فرونزک آلات کی مناسب فراہمی و ٹریننگ، سائنٹفک انٹیلی جنس کے فروغ ، متعلقہ اداروں کے مابین حسد و پیشہ ورانہ چپقلش سے پاک تعاون کے موثر ڈھانچے کے قیام ، عملی زندگی میں کام آنے والی تعلیم ، بلا امتیاز روزگار اور تیز رفتار و شفاف عدالتی انصاف یقینی بنانے جیسے اقدامات پر لگ جاتے تو آج ریاست کی بالادستی کا تصور ٹکے ٹوکری نہ بِک رہا ہوتا۔ اس قدر امداد اور پونے چار لاکھ پاکستانی پولیس کے پاس 15 ہزار بلٹ پروف جیکٹس تک نہیں۔

خیبر پختونخوا کی پولیس کے لیے تین برس پہلے سات ارب روپے کا غیر معیاری اسلحہ اور آلات خریدے جاتے ہیں اور ان میں سے پونے دو ارب روپے کے لگ بھگ بے غیرتی کے دھاگے سے سلی جیبوں میں چلے جاتے ہیں مگر زور اس پر ہے کہ پیسے واپس کردو تو جان چھوٹ جائے گی۔

حکومتِ سندھ اپنی پولیس کے لیے اسی سے زائد بلٹ پروف بکتربند گاڑیاں ایک مقامی ادارے سے خریدتی ہے اور ان میں سے 13 گاڑیوں میں آپریشن کے دوران کلاشنکوف کی گولیاں آر پار ہو کر اندر بیٹھے سپاہیوں کو لاشوں میں بدل دیتی ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔

چار سال پہلے نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی بنانے کا اعلان ہوتا ہے۔ تین برس اس کی قانون سازی میں لگ جاتے ہیں مگر میں نثار علی پر نثار تا دمِ تحریر یہی نہیں معلوم کہ اتھارٹی کی اتھارٹی کیا ہے اور اس نے اس دوران میں کون کون سی توپ چلائی ہے ؟

کوئی تو بتائے کہ جس نیشنل سیکورٹی پالیسی کا نقارہ پیٹا جا رہا ہے اس کی تفصیلات چھوڑ خلاصہ ہی کسی نے دیکھا ہو ؟

جن طرم خانوں کو مضبوط سیاسی ارادے کے گارے اور فولادی عزم کی اینٹوں سے فرنٹ لائن اٹھانی ہے وہ تو کالے شیشوں والی فرضی نمبر پلیٹ کی بم پروف گاڑیوں پر شانتی، دھیرج، صبر اور برداشت لکھوا کے سفر کر رہے ہیں اور خودکش بمبار سے لپٹنے کا فی سبیل اللہ کام 15 سالہ حسن اعتزاز نے اپنے ذمے لے لیا ہے یا پھر بغیر بلٹ پروف جیکٹ سپاہی بارودی جیکٹ کا سامنا کر رہا ہے۔

حضورانِ والاجات و صفات بس خراجِ تحسین جاری کرنے اور نہ کارکردگی کے پاجامے میں کارکردگی کا نیفہ چپکانے پر مامور ہیں۔

عام شہریوں کے لیے حب الوطنی کا راگ، طالبان سے ہاتھ زرا ہولا رکھنے کی فریاد اور امریکہ کو یہ ٹھمکا کہ ’مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے۔‘

ایسے فن کار دنیا میں اور کہاں کہاں دستیاب ہیں بھلا ؟

Post a Comment

0 Comments