Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

افغان باقی کہسار باقی


 



19ویں صدی کی تیسری دہائی کے اواخرمیں برطانیہ نے درہ بولان کے راستے قندھار کی طرف پیش قدمی کی تھی، جس کی سلطنت کا سورج غروب ہونے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اس نے سرزمین افغانستان اور اس میں بسنے والے اہل اسلام کو دوسرے ممالک کی طرح سمجھ کر غلطی کی تھی ۔ وہ پاک سر زمین افغانستان کو بھی اپنے ناپاک قدموں تلے روند کر ممالک مقبوضہ کی کالونی میں اس سنگلاخ دھرتی کو شامل کر کے ان کی تعداد 55تک لے جانا چاہتا ...تھا۔ یہی اس کی غلط فہمی اور نا واقفیت تھی۔ اسی لمحے کی خطانے اس کے نقطہ عروج کو نقطئہ انفجار سے بدل دیا تھا۔ یوں اس کے نصف النہار پر چمکنے والے آفتاب کو زوال کا گہن لگ گیا۔ برطانیہ 1838ءسے 1880ءتک میرے پیارے افغانی دیس میں مکرو فریب، ظلم و ستم اور چالاکی وجبرکے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ، تاکہ کسی طور اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرلے۔ اپنی ننگی ہوس کو تسکین کا جامہ زیب تن کردوں، لیکن مسلم افغانستان کے بہادر بیٹوں اور جری جوانوں نے اس کو ایسی شکست فاش سے دوچار کیا، جس کے گہرے زخموں کو وہ ابھی تک چاٹ رہا ہے۔

اس 41برس کے عرصے میں اس کو ایک سخت گھاؤ ایسا بھی لگا، جو ابھی تک مند مل نہیں ہو پایا۔ وہ تاریخ افغانستان کا ایک سنہرا اور یاد گار دن ہے، جب برطانوی گوروں نے غزنی پر قبضہ جمانے کے بعد کابل کو بھی اپنے خونین پنجوں میں جکڑنے کے لیے اس کی طرف منحوس قدم بڑھانے شروع کیے تھے۔ تب اسلامیان افغانستان کے ہر سپاہی نے صلیبی برطانیہ کے ہر فوجی کی خاطر تواضع بندوق کی گولیاں ان کے خالی پیٹ میں اتار کر کی۔ یہاں تک کہ پوری فوج میں صرف ایک شخص ”ڈاکٹر ڈرائےڈن کو زندگی کی بھیک دی اور اہل باطل کو یہ بتلانے کے لیے زندہ چھوڑا کہ وہ دنیا کو خبردار کر دے:”جب سے افغانستان کی زر خیز مٹی کو اسلام کی نم ملنے کی وجہ سے مسلمانوں کی صورت میں گلستان اسلام اُگا ہے، تب سے اس پاک سر زمین پر مسخ شدہ عیسائیت کی خار دار جھاڑ جھنکار نہیں اُگ سکتی“۔ موت کے منہ سے نکل آنے والے اس ڈاکٹر نے جلال آباد آکر دنیا کو اس عجیب و غریب حادثے سے روشناس کرایا۔ برطانیہ اپنے انخلاء تک اس تگ و دو میں مصروف رہا کسی طرح یہ ملک تاج برطانیہ کے زیرنگین آجائے، لیکن اس کو ناکامی کے تحفے، نامرادی کے ہدیے اور بد بودار لاشوں کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ مل سکا۔ یہ 19ویں صدی کی جنگ افغانستان تھی۔

اس کے بعد لادین روس کو دنیا پر اپنا تسلط جمانے کے دورے پڑنے لگے۔ وہ اپنے تئیں کائنات کی وسعتوں کو” لینن“ کے فرسودہ نظریات کی لالٹین کی روشنی سے منور کرنے نکل کھڑا ہوا۔ بالکل برطانیہ کی طرح جب کامیابی سے ہم کنار ہونے کے لیے چند گام کا فاصلہ رہ گیا اور عروج کی آخری سیڑھی پر قدم رکھ کر دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک بننے والا تھا کہ لینن کی لالٹین کا تیل ختم ہوگیا۔ دوسروں کو روشنی دینے والا خود تاریکی میں ڈوب گیا۔ یہی آخری سیڑھی اس کی ناکامی کا سبب بن گئی۔ ارض ہستی کے تقریباً نصف کے قریب ممالک کو فتح کر کے اپنے اس کام کے نتیجے کے لیے اس راہ کی آخری اینٹ ، افغانستان کو بھی ہٹانے کے لیے ٹھوکر رسید کرنا چاہی تو یہیں سے اس کی کامرانی کا سورج غروب ہوگیا۔ اس نے ٹھوکر ایک سخت چٹان کو مارنا چاہی تھی، جس کی وجہ سے وہ لنگڑا ہو گیا۔ اور 1979ءسے1988ءتک کی خوف ناک جنگ میں خود کو خوب پٹوایا اور آخر کار 15فروری 1988ءکو شکست کا اعلان کر کے ”جان بچی سولاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے“ کے مصداق لنگڑاتا ہوا اپنے دیس کی جانب واپس لوٹ گیا۔ یہ 20ویں صدی کی جنگ افغانستان تھی۔

اس کے بعد امریکا بہادر نے نائن الیون کے پر پیچ ڈرامے کی آڑ لے کر برسوں کے بھوکے کتے کی طرح افغانستان کو ترنوالہ خیال کر کے سات سمندر پار سے دوڑا آیا۔ سیانوں خصوصا روس نے کل کے بڑے بوڑھوں کی طرح سمجھاتے ہوئے پندو نصیحت کی: ”انکل سام !تم آج کے بچے ہو۔ کوئی ایسی ویسی حرکت کرنے سے پہلے ہماری طرف دیکھ کرسوچ لینا ! یہ غلطی ہم افغانستان میں کر چکے ہیں۔ تم اس کے مرتکب ہو کر آگ کے ملک میں مت جلنے جانا، ورنہ زندگی بھر کا پچھتا وا تمہارا مقدر بن جائے گا۔ تاریخ سے سبق حاصل کرو۔ نالائق اور بے وقوف مت بنو۔ اور سنو! ہم نے فرد افردا ہر زمینی خدا کو نصیحت کرنے کی بجائے صرف انسانی بھلائی کے ناطے نخوت سے پٹی ہوئی اپنی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ کروالیے ہیں”دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو“۔

افغانستان تمہارا خیر مقدم کبھی بھی نہیں کرے گا۔ وہاں کے ”غیر ترقی یافتہ“ جنگجو تمہارے وارے میں آنے والے نہیں ہیں۔ تمہارا گھر اگرچہ بحر اوقیانوس کے اُس پار ہے، لیکن پھر بھی وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے“۔ انکل سام نے اپنے پیش رُو کا مضحکہ اڑاتے ہوئے آج کے چھوٹے بچوں کی طرح جواب دیا: ”ارے دادا جان !آپ حالات سے واقف نہیں ہیں۔ آپ تو کچھ نہ جاننے کی وجہ سے پتھر کے زمانے کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس تھا ہی کیا؟ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے۔ ہم چند ہی دنوں میں افغانستان کی فضا کو توحید کی اذانوں کے بجائے تثلیث کی گھنٹیاں سنادیں گے۔

کچھ عرصہ بعد اسامہ بن لادن کا بہانہ کرتے ہوئے خود کو زمینی خدا تصور کرتے ہوئے شیطان کے نمائندے بش جونئیر نے رحمن کے نمائندے امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کو فرعونی لہجے میں پیغام بھیجا: سنو!”ہم اتحادی ممالک کے زیرو ز بر کر دینے والے زبردست فوجی دستے لیے پینٹاگون سے قندہار آرہے ہیں۔

دنیا والے ہمارے شانہ بہ شانہ ہیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ تمہاری بربادی تک جنگ جاری رکھنے کا عہدو پیمان باندھ لیا ہے۔ اس لیے تمہاری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے قندھار ہمارے حوالے کر دو ! ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں“۔ فرزند قندھار نے خود کو آسمانی و زمینی خدا کا خلیفہ گر دانتے ہوئے مسلمانی لہجے میں فکر انگیز جواب دیا: ”اللہ تعالیٰ نے سر زمین افغانستان کو ارض ہستی کے اجلے دامن پر وجود ہی اس لیے دیا ہے کہ یہاں کی خاک میں زمین کے جھوٹے خداؤں کو دفن کر کے خاک کر دیا جائے۔ اس لیے میرے افغانستان کی زمین تم زمینی خداؤں کی قبروں کے لیے بہت وسیع ہے“۔

2001ءسے تا حال عرصہ دس سال سے بے نام جنگ لڑنے والے انکل سام کی جب خوب پٹائی ہوچکی ہے تو اس کو کل کے بوڑھے روس کے وعظ و پند یاد آنے لگے ہیں۔ وہ آج چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے:” میں ٹیکنا لوجی سے عاری افغانوں کے ہاتھوں تاریخ کا سبق سیکھ چکا ہوں۔ لہٰذا مجھے اس خوفناک قبر میں دفن ہونے ہوکر نیست ونا بود ہونے سے بچاﺅ“۔ یہ اکیسویں صدی کی جنگ افغانستان ہے۔

یہ تین صدیوں کی تین جنگیں ہیں۔ تینوں میں فتح نے افغانی مسلمانوں کے قدم چوم کر عزت دی۔ اور تینوں میں شکست نے بالترتیب یورپ کے برطانیہ ، ایشیاء کے روس اور امریکا کی یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کے غیر مسلموں کی ناک کاٹ کر ذلت سے دوچار کیا۔ 
 

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments