Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

روس ترکی معاہدہ شام کو تباہی سے کب تک بچائے گا ؟

امریکہ کا کہنا ہے کہ اُس کی فوجیں عراق اور شام میں داعش کو شکست دینے کے قریب پہنچ چکی ہیں اور اُس کا ان دونوں ملکوں سے فوجیں واپس بلانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ امریکی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا کہ امریکی فوج اُن علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لئے موجود رہے گی جہاں دہشت گردی اور تنازعے نے شدت اختیار کر رکھی ہے۔ اس اعلان سے قبل روس اور ترکی کے درمیان ادلب صوبے میں سرکاری فوجوں اور باغیوں کے درمیان غیر فوجی علاقے کے تعین پر اتفاق ہوا تھا۔ شام میں سات برس سے جاری لڑائی میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی غرض سے روس کی مدد سے سرکاری فوجوں کی بھرپور کارروائی جاری ہے اور اب’ ادلب‘ مخالف فوجوں کے زیر قبضہ آخری علاقہ رہ گیا ہے۔ 

حلب اور باغیوں کے زیر قبضہ دیگر علاقوں پر حملوں کے باعث وسیع پیمانے پر تباہی پھیلی ہے اور خدشہ ہے کہ بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ شام کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹیفن ڈی مسٹورا نے روس اور ترکی کی طرف سے امن کا ضامن بننے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جبکہ سمجھوتہ طے پا گیا ہے، سیاسی عمل کو جلد آگے بڑھانے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔ تاہم اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب ویزیلی نیبین زیا نے سٹیفن ڈی مسٹورا کو باور کرایا ہے کہ امن کے ضامنوں پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے دباؤ ڈلوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اُنہوں نے کہا کہ روس سلامتی کونسل کے رکن تمام ممالک کے مقابلے میں شام میں سیاسی عمل کو فروغ دینے کے لئے زیادہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اُنہوں نے شام کے لئے اقوام متحدہ کے نمائندے کو مشورہ دیا کہ وہ اس عمل کی قیادت کرنے کے بجائے صرف مدد دینے پر اکتفا کریں۔ اُدھر امریکہ نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا روس شام میں پر امن حل کے لئے واقعی سنجیدہ ہے۔ شام کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز جیفرے نے کہا ہے کہ اگر روس حقیقی طور پر شام میں قیام امن کے لئے سنجیدہ ہے تو اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہئیے کہ ایران اور اُس کی ملیشیا شام سے مکمل طور پر نکل جائیں۔ اس تناظر میں تجزیہ کار اور اہل کار سوال کرتے ہیں کہ حالیہ سمجھوتہ کب تک قائم رہ سکے گا۔ انسانی بھلائی کے لئے اقوام متحدہ کے انڈر سیکٹری مارک لو کاک کہتے ہیںِ کہ کیا یہ صرف عارضی سمجھوتہ ہے یا پھر یہ اُمید کی آخری کرن ہے؟‘ 

بشکریہ وائس آف امریکہ

 

Post a Comment

0 Comments