Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مثالیں ریاست مدینہ کی اور نظام سودی

وزیر اعظم عمران خان بار بار دہراتے ہیں کہ ریاست مدینہ اُن کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے اور اُن کی کوشش ہو گی کہ اسی رول ماڈل کی مثال کو سامنے رکھ کر وہ پاکستان میں تبدیلیاں لائیں ۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران کہا اُن کے اور تحریک انصاف کی حکومت کے سامنے حضرت محمد ﷺ کی رہنمائی میں قائم ہونے والی ریاست مدینہ کا ماڈل موجود ہے۔ اپنی حکومت کا سپلیمنٹری بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان ستائیس رمضان المبارک کو قائم ہوا جو اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ ملک ان شاء اللہ قائم بھی رہے گا اور روشن اور مضبوط بھی ہو گا۔

اپنے انتخابی منشور میں بھی تحریک انصاف نے ریاست مدینہ کو اپنا رول ماڈل کے طور پر پیش کیا۔ گویا اگر تحریک انصاف کے منشورپر نظر ڈالی جائے یا اس کی حکومت کے اعلیٰ ترین ذمہ داروں کی باتوں کو سنا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام ہی اس حکومت کی تمام پالیسیوں کی بنیاد ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے اپنے سپلیمنٹری بجٹ کی تجاویز کو پیش کرتے وقت سود کے معاملے کو ویسے ہی چھوڑ دیا جیسے وہ پہلے سے چلتا آ رہا ہے۔ چند روز قبل خان صاحب نے کہا کہ ملک چلانے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں جبکہ روزانہ چھ ارب روپے سود کی ادائیگی کے صورت میں حکومت کو دینے پڑتے ہیں۔ بجٹ پیش کرتے وقت اسد عمر نے بھی یہی بات کی کہ ہم ایک ایسی حالت کو پہنچ چکے ہیں جہاں قرضہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ سود کی ادائیگی ہو سکے۔

یعنی اس بات کا سب کو احساس ہے کہ سود نے ریاست پاکستان کی مالی حیثیت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ۔ مجھے اس بات کا بھی یقین کہ عمران خان، اسد عمر اور دوسرے حکومتی ذمہ داروں کو اس بات کا بھی علم ہو گا کہ سود کے لین دین کی اسلام میں اور ریاست مدینہ میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ ایک ایسا کبیرہ گناہ ہے جس سے قرآن وحدیث نے نہ صرف مسلمانوں کو سختی سے روکا ہے بلکہ اس کے متعلق شرعی احکامات کے بعد سود کا لین دین کرنے والے کے لیے آخرت میں دوزخ کی وعید سنائی گئی اور دنیا میں ایسے لین دین کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے جنگ قرار دیا گیا۔

پاکستان کا آئین بھی سود کے فوری خاتمے کا وعدہ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی حکومت نے سود کے خاتمے کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر سال کے بجٹ میں کم از کم ایک تہائی بجٹ صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ موجودہ سال 2018-19 کے بجٹ کی کل تخمینہ 5246 ارب روپے میں سے 1620 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے رکھے گئے ہیں اور اسی کا رونا عمران خان رو رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر چھ ارب روپے سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مدینہ کی ریاست کو اپنے سامنے مثال رکھنے والوں نے نہ تو اپنے سپلیمنٹری بجٹ میں سود کے خاتمے کی کوئی بات کی اور نہ ہی وزیر اعظم نے اپنی معاشی مشیروں کی کونسل (Economic advisory council) میں کسی اسلامی معیشت دان کو شامل کیا تاکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔

گویا عمران خان اور اُن کی حکومت کو اس بات کا تو احساس ہے کہ سود پاکستان کو کھائے جا رہا ہے لیکن اس گناہ کبیرہ سے جان چھڑوانے کےلیے کوئی سنجیدہ سوچ بچار نہیں کی جا رہی۔ میری چند معاشی ماہرین سے بات ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے مختص رقم (1620 ارب روپے) میں سے تقریباً ایک سو ارب روپے کا تعلق بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی سے ہے جبکہ باقی رقم یعنی تقریباً 1500 ارب روپے اندرون ملک قرضوں پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بینکوں کو ہی سود کی صورت میں ریاست کو ادا کرنا ہیں۔ چلیں بیرونی قرضوں پر سود کا معاملہ تو مکمل طور پر ہمارے ہاتھ میں نہیں لیکن ریاست پاکستان اور عوام کو سود کی صورت میں جس بدترین استحصال کا سامنا ہے وہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔

یعنی بڑا مسئلہ ہمارا آپس میں سودی لین دین ہے جس سے باہر کی دنیا کا کوئی تعلق نہیں۔ افسوس کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے وعدہ کر کے بھی اپنے دور حکومت میں سود کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کیا لیکن ریاست مدینہ کے رول ماڈل سے رہنمائی لینے کا دعویٰ کرنے والوں پر اب یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس لعنت سے پاکستان کی قوم کی جان چھڑائیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا توکچھ بھی کر لیں سود ہمیں لے ڈوبے گا اور اگر آج ہم اربوں ڈالرزکے قرضے سود کی ادائیگی کے لیے لیتے ہیں تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب ہمارا سارے کا سارا بجٹ ہی سود کی ادائیگی پر خرچ ہو گا۔

میری صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، وزیر خزانہ اسد عمر اور پارلیمنٹ کے تمام ممبران سے گزارش ہے کہ خدارا سود کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں تاکہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جاری اس جنگ کو روکا جا سکے۔ اسلام کے نام پر ستائس رمضان المبارک کو قائم ہونے والے ملک میں ایسی کسی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں جو اگر جاری رہی تو نہ ہم دنیا کے رہیں گے نہ آخرت کے۔

انصار عباسی
 

Post a Comment

0 Comments