Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

شہید ہونے کے لئے گھر سے نکلا ہوں

لشکرِ طیبہ کے اعلیٰ کمانڈر اور بھارتی فوج کے ایک افسر کے درمیان فون پر ہونے والی ایک گفتگو کی آڈیو منظرِ عام پر آگئی۔ یہ گفتگو منگل کے روز ابو دُجانہ اور ان کے ایک قریبی ساتھی عارف للہاری کے بھارتی حفاظتی دستوں کے ساتھ ہونے والے ایک مقابلے میں مارے جانے سے تھوڑی دیر پہلے ہوئی تھی
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیان میں مسلمان عسکریت پسندوں نے اچانک حملہ کرکے بھارتی فوج کے ایک میجر اور ایک سپاہی کو ہلاک اور ایک ساتھی کو شدید طور پر زخمی کر دیا۔

عہدیداروں کے مطابق، فوج مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے سپاہیوں کے ساتھ مل کر شوپیان کے ایک دور دراز گاؤں میں موجود عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے وہاں صبح چار بجے پہنچی۔ لیکن، گھات میں بیٹھے عسکریت پسندوں نے اُن پر بیک وقت کئی اطراف سے اندھا دھند گولیاں چلا دیں۔ یہ حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ حفاظتی دستوں کو سمبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور فائرنگ میں بھارتی فوج کا ایک افسر میجر کملیش پانڈے اور ایک سپاہی ہلاک ہو گئے، جبکہ ایک اور سپاہی شدید طور پر زخمی ہو گیا۔

حملہ آور اندھیرے کا فائیدہ اُٹھاتے ہوئے علاقے سے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم حزب المجاہدین نے حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پانچ فوجیوں کو ہلاک اور کئی ایک کو زخمی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ لشکرِ طیبہ کے اعلیٰ کمانڈر، ابو دُجانہ اور بھارتی فوج کے ایک افسر کے درمیان فون پر ہونے والی ایک گفتگو کی آڈیو منظرِ عام پر آگئی۔ یہ گفتگو ابو دُجانہ اور ان کے ایک قریبی ساتھی عارف کے بھارتی حفاظتی دستوں کے ساتھ ہونے والے ایک مقابلے میں شہادت سے تھوڑی دیر پہلے ہوئی تھی۔ ابو دُجانہ عرف حافظ کا تعلق مبینہ طور پر پاکستان سے تھا اور ان کی شہادت کو بھارتی حکام نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف چلائی جانے والی فوجی مُہم کی ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیدیا تھا۔

ابو دُجانہ کا نام بھارتی فوج کی طرف سے اس سال جون میں جاری کی گئی اُن بارہ افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھا جنہیں "سب سے خطرناک‘‘ قرار دیدیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں زندہ یا مُردہ پکڑنا فوج کی اولین ترجیح ہے۔ لیکن، جیسا کہ آڈیو سے پتہ چلتا ہے ابو دُجانہ کو ہھتیار ڈال کر خود کو حفاظتی دستوں کے حوالے کرنے کی پیشکش کی گئی تھی جو انھوں نے ٹھکرا دی اور کہا کہ وہ شہید ہونے کے لئے گھر سے نکلے ہیں اور ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔


 

Post a Comment

0 Comments