Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سٹالن گراڈ کی لڑائی : ایک ناقابل فراموش تاریخی واقعہ

دوسری جنگ عظیم میں مجموعی طور پر سات کروڑ افراد موت کی وادی میں اتر گئے لیکن اس جنگ میں سب سے اہم معرکہ سٹالن گراڈ میں ہوا جسے Battle of Stalingrad کہا جاتا ہے۔ اس لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ روسیوں نے بے پناہ جانی قربانیاں دے کر نازی ازم کو شکست سے دوچار کیا۔ اگر یہاں روس شکست کھا جاتا تو یقینی طور پر آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس اور جرمنی میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا لیکن پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والے ہٹلر نے روس پر بھی یلغار کردی۔ یہ لڑائی 23 اگست 1942ء کو شروع ہوئی اور 2 فروری 1943ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے سٹالن گراڈ پر قبضہ کرنے کیلئے روس کے شہریوں پر فضائی حملے بھی کیے۔ 

سٹالن گراڈ پر قبضے کیلئے جرمنی نے اگست 1942ء میں کوششیں شروع کر دیں۔ حملوں میں وہ بمباری بھی شامل تھی جس نے شہر کے زیادہ تر حصوں کو پتھروں اور اینٹوں میں تبدیل کر دیا. نومبر1942ء کے وسط تک جرمن فوجوں نے روسیوں کو خاصا پیچھے دھکیل دیا تھا۔ 19 نومبر 1942ء کو سرخ فوج نے آپریشن یورانس شروع کیا۔ اس کا مقصد ہنگری اور رومانیہ کی ان کمزور فوجوں کو نشانہ بنانا تھا جو جرمن فوجوں کا تحفظ کر رہی تھیں۔ ہٹلر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ سٹالن گراڈ میں رہے اور آپس میں اتحاد پیدا کرے۔ اس نے کہا کہ فوج میں پھوٹ نہیں پڑنی چاہئے۔ دو ماہ تک سخت لڑائی ہوتی رہی۔ فروری 1943ء کے آغاز تک جرمن اور اس کی اتحادی فوجوں کے پاس گولہ بارود اور خوراک ختم ہو گئی اور پھر وہ تاریخی لمحہ آیا جب ان فوجوں نے ہتھیار پھینک دئیے۔ یہ لڑائی پانچ مہینے‘ ایک ہفتہ اور تین دن جاری رہی۔ اس لڑائی میں جوزف سٹالن کا کردار بہت اہم رہا۔ اس نے سٹالن گراڈ کے تمام شہریوں سے یہ کہا تھا کہ وہ شہر چھوڑ کر نہ جائیں۔ 

اسے اس بات کا یقین تھا کہ شہریوں کی موجودگی ان فوجیوں کی ہمت میں اضافہ کرے گی جو شہر کا دفاع کر رہے ہیں۔ شہریوں کو مختلف کاموں پر لگا دیا گیا۔ جرمنوں کی بمباری کی وجہ سے شہر کو بہت نقصان پہنچا۔ روسی فضائیہ کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ 23 اگست کو جرمنی نے زبردست فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں اس کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا۔ شہر کی جو تباہی ہوئی وہ تو اپنی جگہ لیکن جانی نقصان بھی بہت ہوا۔ حال یہ تھا کہ شہریوں کو رائفل کے بغیر ہی لڑائی پر بھیج دیا جاتا تھا۔ اس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ طلبا نے بھی زبردست کردار ادا کیا۔ یہاں ان خاتون رضاکاروں کا ذکر بھی ضروری ہے جنہوں نے سٹالن گراڈ کی حفاظت کیلئے شاندار خدمات سرانجام دیں۔

اصل میں بات یہ تھی کہ روس کے پاس مردوں کی افرادی قوت کی کمی تھی اسی لئے عورتوں کو میدان میں آنا پڑا۔ اگرچہ جرمن فوجیں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں لیکن یہ کبھی اہم جگہوں پر قبضہ نہ کر سکیں۔ جرمنوں نے فضائی طاقت‘ ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کا استعمال کیا تا کہ شہر پر اپنا کنٹرول مضبوط کر سکیں۔ روسیوں نے بہت زیادہ تعداد میں توپخانے کی مدد لی۔ اس سے یہ ہوا کہ وہ اس قابل ہو گئے کہ جرمنوں کے اڈوں پر بمباری کر سکیں۔ اس لڑائی میں چھپ کر حملے بھی کئے گئے جن میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ برطانوی مؤرخ انتونی بیوور نے لکھا ہے کہ روسی فوجوں اور عوام کی بہادری دیدنی تھی۔ سٹالن گراڈ کو بچانے کیلئے انہوں نے جس دلیری کا مظاہرہ کیا‘ اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس نے جوزف سٹالن کی بھی بے حد تعریف کی اور کہا کہ دراصل سٹالن نے روسیوں کو شجاعت اور بہادری کا سبق پڑھایا۔ یہ سٹالن تھا جس نے روسیوں کے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ اپنے ملک کے چپے چپے کی حفاظت کرنے کیلئے متحد ہو جائیں اور ملک کی حفاظت کیلئے جتنی قربانیاں بھی دینا پڑیں‘ وہ ان سے پیچھے نہ ہٹیں.

اس نے روسی عورتوں سے کہا کہ وہ اس لڑائی میں تاریخی کردار ادا کریں۔ انتونی بیوور نے مزید لکھا ہے کہ دراصل سٹالن گراڈ ہٹلر اور سٹالن کی عزت کا مسئلہ بن گیا تھا۔ دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ سٹالن گراڈ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جرمنی کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے تکنیکی طور پر خاصی غلطیاں کی ہیں جن کی بنا پر روسیوں کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کا موقع مل گیا۔ جرمنی کو ایک اور مصیبت کا سامنا تھا۔ اس کے اتحادی ہنگری اور رومانیہ کی فوجیں کمزور تھیں اور وہ اس لڑائی میں کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ ایڈولف ہٹلر کو اس بات پر غصہ بھی تھا اور افسوس بھی کہ یہ فوجیں مطلوبہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ لیکن پھر اس نے یہ بھی کہا کہ جو بھی ہو‘ ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ہمیں اپنی توقعات کے شیش محل کو قائم رکھنا ہے۔ ہمیں کسی بھی صورت ناامید نہیں ہونا چاہئے. اس نے جرمن قوم کو بھی بارہا کہا کہ وہ ناامیدی اور مایوسی کے اندھیروں میں کبھی گم نہ ہوں بلکہ ہر وقت امید کی شمع جلاتے رہیں۔ اس نے اپنی جنگی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں فتح کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ تبدیل ہو جائے گا۔ 

یورپ کے علاوہ روس پر بھی جرمنوں کی حکومت ہو جائے گی۔ جو فلسفہ ہٹلر نے اپنی قوم کو دیا تھا وہ ہر صورت اسے عملی شکل دینا چاہتا تھا۔ یعنی جرمن قوم سب سے اعلیٰ قوم ہے جسے ساری دنیا پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ وہ آریائی نسل سے ہے اور یہ نسل دنیا کی بہترین نسل ہے۔ سب سے اعلیٰ قوم جرمن ہے جس کا سب سے اعلیٰ لیڈر ہٹلر ہے اور نازی ازم یعنی فسطائیت ان کی زندگی کا محور ہے۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ اگر فاشسٹ اپنے مقاصد میں قائم ہو جاتے تو دنیا کا کیا حشر ہوتا. امریکہ اور برطانیہ ویسے تو جنگ عظیم دوم کی فتح کا زیادہ تر کریڈٹ خود لیتے ہیں اور امریکہ نے اس موضوع پر کئی فلمیں بھی بنائیں جن میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنگ عظیم دوم میں اتحادیوں کی فتح میں امریکہ کا کردار سب سے اہم ہے لیکن یہ حیرت کی بات ہے کہ روس کے تاریخی کردار کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن گرڈ کی لڑائی میں روس نے جو کردار ادا کیا وہ کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔

عبدالحفیظ ظفرؔ
 

Post a Comment

0 Comments