Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا نواز شریف کی رخصتی کا فیصلہ ہو چکا ؟

گاڈ فادر کے بعد اب وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کی حکومت کے لیے سپریم کورٹ نے سسلین مافیا کا بھی حوالہ دے دیا۔ اس کے باوجود اگر میاں صاحب کی حکومت اب بچ جاتی ہے تو تعجب ہو گا۔ ایک بحث پہلے ہی چل رہی ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں مشتمل پانچ ممبر سپریم کورٹ بنچ جس نے پاناما کیس میں 20 اپریل کو فیصلہ سنایا تھا وہ اب بھی قائم ہے اور اگر جسٹس اعجاز افضل خان کی قیادت میں مشتمل موجودہ اسپیشل بنچ میں شامل ایک جج صاحب نے بھی وزیر اعظم کی رخصتی کا فیصلہ کر لیا تو پھر اس کا مطلب ہوا کہ نواز شریف کا کھیل ختم۔ ویسے بھی جب کسی ملک کی سب سے بڑی عدالت کسی حکومت یا حکمران کو پہلے گاڈ فادر اور پھر سسلین مافیا کے حوالے دے کر یاد کرے تو پھر ایسی حکومت اور ایسے حکمرانوں کو وہی عدالت کیسے کلین چٹ دے کر چھوڑ سکتی ہے۔

عدالت سے باہر کے معاملات دیکھیں تو بھی میاں صاحب کے اردگرد گھیرا تنگ ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اشارے مل رہے ہیں کہ کوئی اور بھی اس کھیل میں شامل ہے۔ ابھی وٹس ایپ کا معاملہ حل نہیں ہوا تھا تو حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ویڈیو تصویر سامنے آ گئی۔ یہ تصویر کس نے لیک کی اور اس کا کیا مقصد تھا ان سوالوں کے جواب ملنا ضروری ہیں۔ جوڈیشیل اکیڈمی کے ایک کمرہ میں جہاں جے آئی ٹی کے ممبران ایک قطار میں بیٹھ کر سامنے رکھی کرسی پر براجماں بیٹھے شخص سے سوال جواب کرتے ہیں، اگر اُس کمرے سے کوئی مواد میڈیا، سوشل میڈیا یا کسی اور کو لیک ہوتا ہے تو اُس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے جے آئی ٹی کی طرف سے حسین نواز کو جاری کیا گیا سمن میڈیا کو لیک کیا گیا لیکن اُس وقت ذمہ داری کا تعین کرنا اس لیے مشکل تھا کیوں کہ یہ سمن جے آئی ٹی کے ہاتھ سے نکل کر وزیر اعظم ہائوس تک پہنچ چکا تھا۔

اگرچہ کچھ ن لیگی رہنمائوں کی طرف اس کی ذمہ داری جے آئی ٹی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن شک حسین نواز اور ن لیگ پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک حسین نواز کی تصویر کی تازہ جے آئی ٹی لیک پر ذمہ داری عائد کرنے کا سوال ہے یہ شاید اتنا مشکل نہ ہو۔ جوڈیشیل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے اجلاسوں کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا تھا۔ جے آئی ٹی سے متعلقہ انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہیں اور کیا ان امور میں حکومت کا کوئی عمل دخل ہے یا نہیں؟؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ضروری ہے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ کہیں کوئی جے آئی ٹی کے secret مواد کو شریف فیملی کے حق میں یا ان کے خلاف پروپیگنڈہ کے لیے تو استعمال نہیں کر رہا۔ کل ہو سکتا ہے جے آئی ٹی وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز کو بھی پوچھ گچھ کے لیے بلا لیں تو پھر کیا اُن کی بھی جے آئی ٹی کے سامنے حاضری کی تصویریں اور ویڈیو میڈیا کو لیک کی جائیں گی۔

ہو سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی اس لیک کے پیچھے کوئی اور ہی ہو۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کی انکوائری کروانا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ ویسے جیسا کہ اعتزاز احسن کا کہنا ہے سپریم کورٹ کو تو وٹس ایپ کے معاملہ پر بھی انکوائری کروانی چاہیے۔ اعتزاز احسن کے مطابق اگر وٹس ایپ کا معاملہ جسے میں سامنے لے کر آیا جھوٹ ہے تو بھی اس کی انکوائری ہونی چاہیے اور اگر سچ ہے پھر تو اس معاملہ کا کھوج لگانا تو اور بھی ضروری ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے خود سے جے آئی ٹی کے لیے کچھ نام ڈلوانے کے لیے وٹس ایپ کال کیں، انہیں کسی جج صاحب نے کہا یا کہ وٹس ایپ کال کرنے والا کوئی اور ہی شخص تھا۔

ویسے تو سپریم کورٹ کےا سپیشل بنچ کے ایک جج صاحب کی طرف سے عدالت میں یہ کہا گیا کہ جو کچھ رجسٹرار صاحب نے کیا وہ جج حضرات کے کہنے پر کیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ ابھی کلیئر نہیں کہ کیا رجسٹرار صاحب نے ایس ای سی پی کے چیئرمین سے پہلے سرکاری فون لائن پر بات کی اور پھر انہیں کہا کہ وہ وٹس ایپ پر کال کریں گے جس کے ذریعے مبینہ طور پر انہوں نے ایک مخصوص نام جے آئی ٹی کے لیے مانگا۔ کیا رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کی ہدایات کسی جج صاحب نے دی اور اگر ایسا ہی ہوا تو کیا یہ ہدایات سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے اُس فیصلہ سے مطابقت رکھتی ہیں جس میں متعلقہ اداروں کے سربراہوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جے آئی ٹی کے لیے افسروں کے ناموں پر پینل تجویز کریں گے اور ان ناموں میں سے سپریم کورٹ کسی بھی نام کی جے آئی ٹی کے لیے منظوری دے گی۔ 

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے دستاویزات کے مطابق ڈپٹی گورنر کو بھی مبینہ وٹس ایپ کے ذریعے کال کر کے ایک خاص نام پینل میں ڈالنے کا حکم دیا گیا لیکن سپریم کورٹ سے فیکس کے ذریعے جو حکم ملا اُس میں کسی مخصوص نا م کو جے آئی ٹی میں ڈالنے کی کوئی بات ہی نہیں کی گئی تھی۔ کسی ایسے مشکوک معاملہ میں اگر عدالت عظمیٰ کو یا اس کے رجسٹرار کو ملوث کیا جاتا ہے تو ایسے معاملہ کو بغیر انکوائری کے چھوڑنا کوئی اچھی نظیر نہ ہو گی۔

 انصار عباسی


Post a Comment

0 Comments