Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

برطانیہ میں اسلاموفوبیا عروج پر؟

حالیہ واقعات نے دنیا کے مسلمانوں میں اب یہ احساس تازہ کر دیا ہے کہ اسلاموفوبیا میں یوں اضافہ ہو چکا ہے کہ یہ ایک متعصب و نسل پرست اقلیت کا ہی مسلہ نہیں بلکہ سماج میں اب ایک عام اور قابل قبول حقیقت ہے۔ برطانیہ میں جون کے پہلے ہفتے سے پہلے ہونے والے تین دہشت گرد حملوں میں ملوث افراد سب مسلمان نکلے۔ البتہ شاید مسلمان ہونے سے زیادہ یہ تمام افراد کِھسکے ہوئے نوجوان تھے جن کو اپنے غصے اور مایوسی کے لیے ایک ہدف چاہیے تھا اور جنھوں نے جہادی اسلام کا حوالہ لے کر لوگوں کو مذہب کے نام میں قتل کیا۔

اب بالآخر بیشتر مسلمانوں اور مذہبی رہنماؤں نے ان جہادیوں کے بارے میں واضح موقف لینا شروع کر دیا ہے، لیکن شاید دیر بہت ہو گئی ۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ سالوں تک یہ سوچتے آئے ہیں کہ شاید جہادی کچھ صحیح کام کر رہے تھے کیونکہ مغرب اور خاص طور پر امریکہ نے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی ہے، افغانستان اور عراق پر حملہ کیا، مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ان کے ملک تباہ کیے۔ لیکن مذہب کے نام پر ہونے والے اس شدت پسندی کے بارے میں واضح موقف نہ لے کر ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا ہے کیونکہ قاتلوں کی ہم نے صحیح طریقے سے مذمت نہیں کی۔

تو کچھ مسلمانوں نے خود ہی ابہام رکھا، اور کچھ مغرب کے سیاستدانوں نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اس غیر ذمہ داری کے نتیجے میں اسلاموفوبیا مغربی ممالک میں اب کُھل کر سامنے آیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کو 15 سال ہو گئے ہیں لیکن صحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا اب عروج پر ہے۔ پچھلے دو سال کے سیاسی واقعات نے اس سب میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو پچھلے سال سے اسلام مخالف باتیں اور اقدامات کر رہے ہیں لیکن برطانیہ کی سیاست میں یہ صورتحال بتدریج کئی سالوں سے بگاڑی جا رہی ہے۔ ان میں دو سیاسی مراحل اہم ہیں، جو دونوں سنہ 2016 میں طے پائے: لندن کے مئیر کا الیکشن اور یورپ سے نکلنے کے سوال پر برطانیہ کا ریفرنڈم۔

لندن کے مئیر کے الیکشن میں مسلمان (لیبر پارٹی کے) امیدوار کے خلاف جس طرح سے برطانوی وزیر اعظم تک نے 'اسلامو فوبیا' کا استعمال کیا ہے، اس کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے۔ انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان میں صادق خان کا شدت پسند عناصر سے تعلق جوڑا، کہا کہ 'لیبر پارٹی کے امیدوار شدت پسندوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھ چکے ہیں اور مجھے ان کے بارے میں بہت خدشات ہیں'۔ یہ الفاظ کسی انتہائی دائیں بازو یا انتہا پسند تحریک کے رہنما کے نہیں، ملک کے وزیر اعظم کے تھے۔ اور ان ہی کی پارٹی کے امیدوار زیک گولڈسمتھ نے اسی اسلامو فوبیا کو اپنی انتخابی تحریک کا محور بنایا۔ بار بار مسلمان امیدوار کا تعلق اسلامی شدت پسندوں سے جوڑ کر ووٹروں کو ڈرایا۔ اور ہندو اور سکھ ووٹروں کو خاص طور پر ڈراتے رہے کہ مسلمان کا مئیر ہونا ان کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

پھر آیا ریفرنڈم کا مرحلہ۔ اس میں مسلمان مخالف جذبات فرنگی (امیگرنٹ) مخالف جذبات کے ساتھ گھل مل گئے اور 'باہر والوں' یا امیگرنٹ افراد کو کوسنا یا ان کو بُرا بھلا کہنا ایک طرح سے قابلِ قبول ہو گیا 'مین سٹریم' سیاست میں۔ اس میں بھی سیاستدانوں اور حکمراں جماعت کے اہلکاروں کا ایک بڑا اور بُرا کردار تھا۔ جیسے یورپ میں اسی طرح برطانیہ میں انتہا پسند جماعتیں، جن کو کم ہی منتخب کیا جاتا ہے، سالوں سے ایسی باتیں کرتی رہی ہیں۔ لیکن برطانیہ میں ریفرنڈم کے موقع پر اس بیانیے کو 'مین سٹریم' کر دیا گیا ۔

اور یہ ایسا جِن ہے جو بوتل سے نکلنے کے بعد آپ واپس قابو نہیں کر سکتے۔
ریفرنڈم کے بعد 'باہر والوں' کے خلاف جذبات قاتلانہ حد تک ابھرے۔ یورپی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا اور ایک پولِش شہری کو قتل کیا گیا، پولِش ثقافتی مرکز پر حملہ کیا گیا اور ساتھ مسلمانوں اور دیسیوں کے ساتھ 'ہیٹ کرائمز' میں اضافہ ہوا۔

منافرت پر مبنی جرائم کی معلومات جمع کرنے والی تنظیم 'ٹیل ماما' کے مطابق ریفرنڈم کے بعد منفافرت پر مبنی واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق برسوں کے بعد پھر 'پاکی' کو بطور تضحیک استعمال کیا گیا اور حجاب پہنے والی خواتین کو بھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد کے عرصے میں یہ سوچ تو بڑھتی جا رہی تھی کہ مسلمان مغربی معاشروں کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور ان کی سوچ اور مذہب مغربی ماشرے کے اقدار سے متضاد ہے۔ لیکن اس کو مین سٹریم میں لانے سے حالات اور بہت بگڑ گئے ہیں۔ لندن میں فِنزبری پارک مسجد کے قریب حملے میں عینی شاہدوں نے بتایا کے حملہ آور نے مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا اور گاڑی لوگوں پر چڑھا دی۔

اس سے پہلے ویسٹ منسٹر، مانچسٹر ارینا اور لندن برج کے قریب ہونے والے حملوں کے بعد لوگوں نے کھلے عام مسلانوں کو قصوروار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ پولیس کے مطابق مانچسٹر حملے کے بعد مسلمانوں کے خلاف منافرت پر مبنی حملوں میں پانچ گناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سنہ 2011 میں (یعنی چھ سال پہلے) برطانیہ میں حکمراں جماعت کنزروویٹیو پارٹی کی چئرمین اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون بیرنِس سعیدہ وارثی نے یہ کہہ کر تہلکہ مچا دیا تھا کہ 'برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سماج میں کافی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے اور یہ رویہ 'ڈنر ٹیبل ٹیسٹ پاس کر چکا ہے'۔

سیعدہ وارثی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مسلمانوں کو صرف یا تو اتہا پسند و قدامت پسند یا پھر 'انتہائی ماڈرن' اور مذہب سے دور رہنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ان دونوں انتہاوں کے درمیان کی سوچ رکھنے والے برطانوی مسلمانوں کو مسلحت کے طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سنہ 2014 میں سعیدہ وارثی کابینہ سے مستعفی ہوگئی تھیں اور اس سال انھوں نے 'مسلم بریٹن، دا اینیمی وِد اِن؟' ( برطانوی مسلمان، اندر کے دشمن؟) کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنا تجربہ ظاہر کیا اور برطانوی اور مسلمان پونے پر تبصرہ کیا ہے۔

میئر صادق خان بھی اپنے آپ کو مسلمان سے زیادہ لندن کا شہری اور ٹوٹنگ کے رہائشی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان چند سیاستدانوں کی کوششیں ناکافی ہیں جب تک مساجد مسلمانوں کو الگ تھلگ رہنے کو کہتی رہیں گی ۔ آج کے دور میں تقریباً روز ہی کسی ایسے واقعے کی خبر سامنے آتی ہے جس میں کسی مسلمان کو تشدد اور منافرت کا نشانہ بنایا گیا ہو یا پھر کسی مسلمان نے عام شہریوں کو منافرت اور تشدد کا نشانہ بنایا ہو۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان پُر تشدد مسلمان افراد کا مسلمان قوم سے تعلق کم، اور جنونی مجرموں کی قوم سے تعلق زیادہ ہے۔ یعنی ایسے کام کرنے والے مسلمانوں کا دوسرے مسلمانوں سے رابطہ کم اور ایسے قاتلانے واقعات میں ملوث مجرموں سے زیادہ گہرا رابطہ ہے۔ (چاہے ان کا کسی نسل یا مذہب سے تعلق ہو)

تو اب اس بات کو واضح کرنے کی بڑی ذمہ داری نہ صرف سیاستدانوں پر ہے بلکہ تمام شہریوں پر بھی۔ اسلامو فوبیا کی جگہ ایکسٹریمسٹ فوبیا یا منافرت فوبیا کا وجود اب زیادہ بہتر ہو گا ۔ اور اس میں مختلف معاشروں کے مسلمانوں کی سوچ میں کچھ تبدیلی بھی شاید ضروری ہو۔

عنبر خیری
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
 

Post a Comment

0 Comments