Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکہ نے بنایا، امریکہ نے ’مروایا‘

پاناما کے سابق فوجی حکمران جنرل مینیوئل نوری ایگا 83 برس کی عمر میں ہسپتال میں چل بسے ہیں۔ ان کی زندگی بلندی اور پستیوں کا عجیب و غریب مرقع ہے۔ جنرل نوری ایگا کا شمار لاطینی امریکہ کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے فوجی افسر سے ترقی کر کے سیاسی طاقت حاصل کر لی۔ انھوں نے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن وہ چھ سال تک پاناما پر حکومت کرتے رہے اور اس دوران خاصے مقبول بھی رہے۔ وہ امریکہ کے بڑے حامی تھے اور انھوں نے وسطی امریکہ میں کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیا۔ تاہم یہ امریکہ ہی تھا جو آخرکار ان کے زوال کا باعث بنا۔

نوری ایگا 11 فروری 1934 کو پاناما سٹی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان بےحد غریب تھا لیکن انھیں ایک اور خاندان نے گود لے لیا، جس کے بعد انھیں پیرو میں ایک ملٹری اکیڈمی میں جانے کا موقع مل گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان کا امریکہ کی جانب جھکاؤ سی آئی اے کی نظر میں آ گیا اور وہ اگلے کئی عشروں تک سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھیں کیوبا کے انقلاب کے بعد اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے اہم اثاثہ مانا جانے لگا۔ جب 1968 میں جنرل عمر توریوس نے صدر آرنولفو کا تختہ الٹا تو نوری ایگا ان کے اہم ساتھیوں میں شامل تھے۔ چنانچہ انھیں ملٹری انٹیلی جنس شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1981 میں توریوس پراسرار حالات میں طیارے کے حادثے کا شکار ہوئے تو نوری ایگا طاقتور سکیورٹی سروسز کے سربراہ بن گئے۔ امریکہ اس علاقے میں پاناما پر انحصار کرتا تھا اور نوری ایگا نے اسے نکاراگوا کے کونٹرا اور ایل سیلواڈور میں ایف ایم ایل این کی گوریلا فورسز سے لڑنے کے لیے بھرپور مدد فراہم کی۔

1983 میں نوری ایگا آرمی چیف بنے تو انھوں نے صدرات کے متمنی جنرل پاردیس کو جیل بھیج دیا۔ اس طرح سے وہ عملی طور ملک کے سربراہ بن گئے۔
انھوں نے سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملایا اور 1984 میں جب ان کی سرپرستی میں لڑنے والی جماعت ہارنے لگی تو انھوں نے ووٹوں کی گنتی ہی منسوخ کروا دی۔
نوری ایگا نے 1980 کی دہائی کے وسط میں کونٹرا ایران معاملے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے تحت ہتھیار اور منشیات کی سمگلنگ سے نکاراگوا میں حکومت مخالف دھڑوں کی امداد کے لیے امریکی خفیہ مہم کے لیے رقم فراہم کی جانی تھی۔

ڈبل ایجنٹ؟
تاہم رفتہ رفتہ امریکہ نوری ایگا سے نالاں ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ کچھ ایسی علامات تھیں کہ نوری ایگا دوسرے ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کو بھی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہی نہیں، ان پر یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ وہ منشیات کے سمگلروں کی بھی پشت پناہی کرتے ہیں۔ 1988 میں ایک امریکی عدالت نے نوری ایگا پر منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں فردِ جرم عائد کر دی۔

بش سینیئر کا پاناما پر حملہ
1989 میں پاناما میں انتخابات منعقد ہوئے لیکن جب یہ واضح ہوا کہ حزبِ مخالف جیت رہی ہے تو نوری ایگا نے نتائج کی اشاعت ہی روک دی۔ سابق امریکی صدر جمی کارٹر بطور مبصر پاناما میں موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انتخابات چوری کر لیے گئے ہیں۔ اس سال دسمبر میں حالات یہاں تک پہنچے کہ صدر بش سینیئر نے پاناما پر حملے کا حکم دے دیا۔ بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک امریکی فوجی پاناما میں قتل کیا گیا تھا۔ لیکن پس پردہ کئی مہینوں سے فوجی آپریشن کی تیاریاں جاری تھیں۔

نوری ایگا نے بھاگ کر پاناما سٹی میں واقع ویٹیکن کے سفارتی مشن میں پناہ لے لی۔ امریکہ نے انھیں باہر نکالنے کے لیے ایک عجیب حکمتِ عملی اپنائی۔ عمارت کے باہر دن رات پاپ میوزک کان پھاڑ دینے والی آواز میں بجایا جانے لگا۔ یہ منصوبہ کامیاب رہا اور تین جنوری 1990 کو نوری ایگا نے اپنے آپ کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔ انھیں جنگی قیدی کی حیثیت سے امریکہ لے جایا گیا جہاں ان پر منشیات کی سمگلنگ، کالا دھن سفید کرنے اور جرائم پیشہ تنظیمیں چلانے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔

یہ مقدمہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اس دوران نوری ایگا کی زندگی کے کئی خفیہ پہلو سامنے آئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ نظرِ بد سے بچنے کے لیے سرخ رنگ کا انڈر ویئر پہنا کرتے تھے۔ عدالت نے انھیں اپنے دفاع میں سی آئی اے کے لیے کیے جانے والے کام کی تفصیلات بتانے سے منع کر دیا۔ امریکی حکومت کا موقف تھا کہ یہ اہم راز ہیں جنھیں افشا نہیں کیا جا سکتا۔
نوری ایگا پر ایک سنگین الزام یہ تھا کہ وہ منشیات فروشوں کی مدد کرتے ہیں
انھیں 30 برس قید کی سزا ہوئی تاہم 2007 میں انھیں 17 برس سزا کاٹنے کے بعد اچھے برتاؤ کے صلے میں رہا کر دیا گیا۔

تاہم ایک فرانسیسی عدالت نے انھیں 30 لاکھ ڈالر کی خردبرد کے الزام میں سزا سنائی۔ 2010 میں امریکہ نے انھیں فرانس کے حوالے کر دیا جہاں انھیں نو برس کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ لیکن اسی دوران پاناما کی حکومت نے فرانس سے درخواست کی کہ نوری ایگا کو ان کے حوالے کر دیا جائے جہاں ان پر قتل، بدعنوانی اور غبن کے مقدمات قائم تھے۔

امریکہ کی سب سے سنگین ناکامی
11 دسمبر 2011 کو انھیں پاناما کے حوالے کیا گیا جہاں انھیں ایل ریناسر جیل میں رکھا گیا۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل نہیں کی۔ اسی جیل سے انھوں نے ویڈیو گیم کال آف ڈیوٹی کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ اس گیم میں انھیں 'اغوا کار، قاتل اور ملک کا دشمن' بتایا گیا ہے۔ نوری ایگا ایک ایسے موقع پرست حکران تھے جنھوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو پاناما میں اپنی طاقت بڑھانے اور اپنی غیر قانونی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ یہی سرگرمیاں بعد میں انھیں لے ڈوبیں۔ امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی نے واشنگٹن کے نوری ایگا کے ساتھ تعلقات کو امریکہ کی سب سے سنگین خارجہ پالیسی ناکامی قرار دیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو
 

Post a Comment

0 Comments