Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

انقرہ : عجائب گھروں اور باغات کا شہر

یہ انقرہ (انگورہ) ہے۔ ترک جنگ آزادی کے دوران اناطولیہ کا ہیڈ کوارٹر۔ چونکہ
دفاعی نقطہ نظر سے یہ موزوں ترین محل وقوع تھا اس لیے مصطفیٰ کمال پاشا نے اسے 13 اکتوبر 1923ء میں جدید ترکی کا دارالحکومت بنا ڈالا۔ کہتے ہیں جب مصطفی کمال انقرہ پہنچا تو میلوں دور تک نوجوان بوڑھے اور عورتیں اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے حتیٰ کہ مذہبی پیشوا بھی اس کے استقبال میں پیش پیش تھے ۔ جب مصطفی کمال انقرہ میں داخل ہوا تو وہ سب سے پہلے مشہور مسجد حاجی بیرام میں گیا۔ وہاں نماز ادا کی اور ان بزرگ کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کے بعد ایک سرکاری عمارت کی بالکونی میں کھڑے ہو کر ترک عوام سے خطاب کرنے لگا۔ بعدازاں اس نے بذریعہ کار تمام متعلقہ لوگوں کو انقرہ میں اپنی آمد کی اطلاع کرنے اور نمائندہ کمیٹی کا ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ مصطفی کمال پاشا کی دعوت پر اراکین اسمبلی بھی اس سے ملنے کے لیے انقرہ آنا شروع ہو گئے۔ 

ان ملاقاتوں کا مقصد آپس میں افہام و تفہیم سے متحدہ طور پر آزادی وطن کے لیے کوشش کرنا تھا۔ کہتے ہیں کہ آٹھویں صدی قبل مسیح میں فریجینز (بحری قزاقوں) نے انگورہ پہلی بار آباد کیا تھا۔ شاید اس کے قائم کرنے کی وجہ وہ شاہراہ تھی جو مشرق کو مغرب سے ملاتی ہے اور یہیں سے گزرتی ہے۔ پھر یونانیوں نے کئی شہر آباد کئے۔ پھر سمیریوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا پھر لیڈین نے سارس کو اپنا دارالحکومت بنایا اور حکومت قائم کی اور ہاں سکندر اعظم نے بھی ایشیائے کوچک کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ انقرہ شہر چھوٹی چھوٹی ٹیلے نما پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے یا پھر یوں کہہ لیں یہ شہر چاروں طرف سے پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے اور درمیان والا نسبتاً میدانی علاقہ مرکز شہر ہے جبکہ کئی مضافاتی بستیاں چھوٹی پہاڑیوں پر آباد ہیں۔
آبادی میں اضافے کے سبب نئے مکانات کی تعمیر پہاڑیوں کے اوپر شروع ہو چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آدمی کسی بھی پہاڑ پر کھڑے ہو کر سارے شہر کا نظارہ کر سکتا ہے۔ ترکی کے چٹیل سرخ مائل اور سبزہ سے محروم پہاڑ اسے وہ قدرتی رعنائی نہیں دے سکتے جو اسلام آباد میں ہے۔ بس دن بھر کی بوجھل زندگی اور بے رونقی جگمگ روشنیوں میں شہر کو رات کے وقت پرکش بنا دیتی ہے اور یہاں چوڑی چوڑی صاف ستھری سڑکیں اور بلند و بالا خوبصورت عمارات نہ ہوں اگر یہاں سفارت خانوں کی بہتات نہ ہو اگر یہاں اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں خاص کر مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی نہ ہو، اگر مہذب ترک مرد اور عورتیں جگہ جگہ نصب شدہ مجسموں اور پارکوں کے حسن و جمال کو برقرار رکھنے والے نہ ہوں۔ اگر غیر ملکی بھی شائستگی اور سلیقگی کا مظاہرہ کرنے والے نہ ہوں تو کس کافر کا اس پیالے نما شہر میں ڈوبنے کو دل چاہے گا۔

یہاں تین چیزوں کا اعتبار کیا جاتا۔ ایک موسم، دوسرا ترک لیرا (کرنسی) ۔ اس کی وضاحت کچھ یوں ہے صبح کو یہاں مطلع نہایت صاف اور موسم خوشگوار ہو گا مگر دوپہر کو زبردست بارش ہو رہی ہو گی اور شام کو پھر چمکدار دھوپ نکلی ہو گی۔ میرے تجربے کے مطابق ہر سیاح کو اناطولیہ کے اس علاقے میں داخلے کے وقت اپنے لباس پر ضرور توجہ دینی چاہیے اور ایک فولڈنگ چھتری ساتھ رکھ لینی چاہیے جب وہ کسی سفارت خانہ میں پاسپورٹ سے متعلقہ کام کے لیے جانا چاہتا ہو۔ عام طور انقرہ میں موسم بہت سرد رہتا ہے۔ گرمیوں کے انتہائی دنوں میں بھی درجہ حرارت 35 سے شاز ہی بڑھتا ہے لہٰذا یہاں ائرکنڈیشنر اور پنکھے استعمال میں نہیں آتے اور سردیوں میں برفباری سے سارے کا سارا شہر سفید ہو جاتا ہے جس میں بوڑھے بوڑھے ترک مرد و خواتین اپنے اپنے بیتے دنوں کو ڈھونڈنے نکل پڑتے ہیں اور برفانی روئی کے گولے بنا بنا کر مارنے اور کھانے میں بڑا لطف محسوس کرتے ہیں شاہراہ اتاترک (بمعنی سب سے بڑا ترک یا ترکوں کا باپ) پرگیما کی بلند و بالا عمارت کے قدموں میں انقرہ کا دل بستا ہے۔

یہ جگہ کزلائی چوک کے نام سے معروف ہے اور صیحے (Shhhiya) کے پل سے پارلیمنٹ ہائوس کے چوک تک کے سارے علاقہ پر مشتمل ہے۔ یہ دورویہ شاہراہ خاصی چوڑی اور خوبصورت ہے۔ یہاں یورپی طرز کے بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز، سینما گھر، ریستوران، مٹھائی کی بڑی بڑی دکانیں، سنیک بارز، سمیت چھوٹی چھوٹی ریڑھیاں، اخبار و رسائل بیچنے والوں کے اسٹالزہیں۔ یہاں میں یہ ذکر کردوں کہ ترکی کے مشہور اخبارات ملت، صباح، حریت، جمہوریت، بوگن اور زمان ہیں اور یہ سارے استنبول سے نکلتے ہیں۔ گاڑیوں کی آمدورفت کی طویل قطاریں، پیدل چلنے والوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر، جینز واسکوٹ پہنے پھرتی لڑکیاں لڑکے اور مارکیٹوں میں ہجوم دیکھ کر اکثر یہ گمان ہوتا ہے کہ سارا ترکی یہیں کزلائی میں امڈ آیا ہے۔

انقرہ کے ماڈرن اورجدید علاقے چنکایا کو جس کے ایک سرے پر ایوان صدر ہے۔ انقرہ کے پرانے اور تاریخی علاقے الس (Ulus) سے ملانے والی یہی شاہراہ اتاترک ہیں۔ یہیں کزلائی سے جنوب کی سمت ہو جائیں تودائیں بائیں سفارت خانوں کی خاصی بڑی تعداد ہے اور یہیں سمین پارک کے قریب پاکستانی سفارت خانہ بھی ہے اور انقرہ میں مقیم اکثر پاکستانی ہیں تھوڑا سا آگے بڑھیں تو کوغلو پارک آ جاتی ہے جس کے پاس ہی تونالی ہلمی کا ماڈرن اور فیشن ایبل بازار ہے جو ترک فیشن ایبل آوارہ گرد نسل کا مسکن دکھائی دیتا ہے۔ یہاں بھی بیکری، ریستوران، مٹھائی کی دکانیں، آئس کریم کی مشینیں اور شراب خانے ہیں۔

تونالی ہلمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں بوڑھی بوڑھی ترک عورتیں عجیب و غریب قسم کے لباسوں میں ملبوس بالوں کے نئے نئے ڈیزائن بنائے اور منہ پر میک اپ چڑھائے ایک کھلونا نما پپی، جو ڈوری سے بندا ہوتا ہے، اپنے ساتھ لیے چلنا ضروری سمجھتی ہیں۔ اگر شاہراہ اتاترک پر کزلائی سے شمال کی جانب چلیں تو سامنے الس کے چوک میں دو محافظوں کی معیت میں گھوڑے پر سوار اتاترک کا مجسمہ نظر آتا ہے۔ ترکی کا پرانا پارلیمنٹ ہائوس اسی علاقہ میں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چھوٹے بڑے سستے مہنگے ہوٹل بھی بکثرت ہیں جہاں غیر ملکی ڈیرے ڈالے رہتے ہیں۔ 

م ح سیاح

(اقتباس: لاہور سے استنبول تک)

Post a Comment

0 Comments