Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

چنگیز خاں , نپولین اور سکندراعظم کون بڑا فاتح تھا ؟

سات سو سال پہلے ایک آدمی نے دنیا کو قریب قریب بالکل ہی فتح کر لیا تھا۔ اس زمانے کے ربع مسکون کے نصف حصہ پر اس نے اپنا تصرف قائم کیا اور نوع انسان پر ایسی دھاک بٹھائی جس کا اثر کئی نسلوں تک باقی رہا۔ اپنی زندگی میں اس نے کئی نام پائے قتال اعظم، قہر خدا، جنگجوئے کامل، باج گیر تاج و تخت۔ عام طورپر وہ چنگیز خان کے نام سے معروف ہے۔ بہت سے صاحبان اپنے خطابوں کے اہل نہیں ہوئے، مگر وہ ان سب خطابوں کا اہل تھا۔ ہم امریکی، جن کی تعلیم یورپی روایات کے مطابق ہوتی ہے، بڑے شہنشاہوں کی فہرست مقدونیہ کے سکندر اعظم سے شروع کرتے ہیں اورروم کے محلوں کو شمار کرتے ہوئے، اس فہرست کو نپولین پر ختم کرتے ہیں، لیکن اس یورپی بازی گاہ کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں چنگیز خان بہت ہی بڑے پیمانے کا فاتح تھا۔

معمولی معیاروں سے اس کا جانچنا مشکل ہے۔ جب وہ اپنے لشکر کے ساتھ کوچ کرتا تو اس کا سفرمیلوں نہیں، عرض البلد اور طول البلد کے پیمانوں پر ہوتا۔ اس کے راستے میں جو شہر آتے، اکثر حرف غلط کی طرح مٹ جاتے۔ انسانی جانوں کی ایسی تباہی، آج کل کے انسان کے تخیل کو ششدر کر دیتی ہے۔ ایک خانہ بدوش سردار چنگیز خاں نے صحرائے گوبی سے خروج کیا۔ دنیا کی متمدن قوتوں سے جنگ کی اور اس جنگ میں کامران ہوا۔ یہ سب اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہمیں تیرہویں صدی عیسوی کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا۔ اس زمانے میں مسلمانوں کا خیال تھا کہ اس عالم اسباب و اشیا میں یہ غیر معمولی انقلاب محض کسی مافوق الفطرت قوت کے ظہورسے ہی آ سکتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ قیامت کے آثار ہیں۔ ایک مؤرخ لکھتا ہے۔ ’’کبھی اس سے پہلے مغلوں اور نصرانیوں کے حملوں کے نرغے میں دارالسلام کی یہ حالت نہیں ہوئی‘‘۔ 

عیسائی دنیا بھی چنگیز خاں کی موت کے بعد مغلوں کی اگلی پشت کے مقابلے میں اتنی ہی سراسیمہ و حیران تھی جب کہ خونخوار مغل شہسوار مغربی یورپ کو روندتے پھرتے تھے۔ پولینڈ کا شاہ بولسلاس اورہنگری کا بادشاہ بیلا شکست کھا کے جنگ کے میدانوں سے بھاگے تھے اورسائی لیسیا کا ڈیوک ہنری اپنے تیوتائی شہسواروں کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ یہی حشر روس کے گرینڈ ڈیوک جارج کا ہوا تھا۔ اور قشتالیہ کی خوبرو ملکہ بلانش نے فرانس کے بادشاہ سینٹ لوئی کو یاد کر کے پکارا تھا، ’’میرے بیٹے تو کہاں ہے!‘‘ جرمنی کے شہنشاہ فریڈرک ثانی نے، جو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کا عادی تھا، انگلستان کے شاہ ہنری ثالث کو لکھ بھیجا کہ یہ ’’تاتاری‘‘ عذاب الٰہی سے کم نہیں، جو نصرانی دنیا پر عیسائیوں کے گناہوں کی پاداش میں نازل ہوئے ہیں۔ 

ہاں تک کہ روجر بیکن جیسے فلسفی نے یہ رائے ظاہر کی کہ مغل دراصل دجال کے سپاہی ہیں اوراب اپنی آخری دہشت ناک فصل کاٹنے آئے ہیں۔ چنگیز خاں ایک خانہ بدوش تھا، شکاری تھا، چرواہا تھا، لیکن تین بڑی سلطنتوں کے سپہ سالاروں کواس نے شکست دی۔ وہ وحشی تھا، جس نے کوئی شہر نہیں دیکھا تھا اورلکھنا پڑھنا نہ جانتا تھا لیکن اس نے پچاس قوموں کے لیے قانون بنایا اور نافذ کیا۔ جہاں تک خداداد فوجی قابلیت کا تعلق ہے، بادی النظر میں نپولین یورپ کا سب سے درخشاں سپہ سالار تھا، لیکن ہم یہ فراموش نہیں کر سکتے کہ نپولین نے ایک فوج کو مصر میں تقدیر کے حوالے کر کے چھوڑ دیا اور دوسری فوج کا بچا کھچا حصہ روس کے برف زاروں کے حوالے کر دیا اور بالآخر واٹرلو کی شکست پراس کا خاتمہ بالخیر ہوا۔ اس کے جیتے جی اس کی سلطنت مٹ گئی، اس کا قانون پارہ پارہ کر دیا گیا اوراس کی موت سے پہلے اس کے بیٹے کو محروم الارث قرار دیا گیا۔ یہ پورا واقعہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تھیٹر میں کوئی ڈراما ہو رہا ہو اور جس میں نپولین خود بھی محض ایک ایکٹر ہو۔

فتح مندی میں چنگیز خاں سے موازنہ کرنے کے لیے مقدونیہ کے سکندر اعظم کا ذکر ضروری ہے۔ سکندر ایک بے پروا اورفتح مند نوجوان تھا۔ دیوتائوں جیسا، جو اپنی صف بہ صف فوج کے ساتھ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ اس کے ہمرکاب یونان کے تمدن کی برکتیں تھیں۔ سکندر اور چنگیز خاں دونوں کی موت کے وقت ان کے اقبال کا ستارہ انتہائی عروج پر تھا اور ان کے نام ایشیا کی حکایتوں میں محفوظ ہیں۔ دونوں کی موت کے بعد کے واقعات سے دونوں کی حقیقی کامرانیوں کے حاصل کے فرق کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ فرق بے اندازہ ہے۔ سکندر کے مرتے ہی اس کے سپہ سالار آپس میں لڑنے لگے اور اس کے بیٹے کو سلطنت چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ لیکن چنگیز خاں نے اس قدر کامل طورپر اپنے آپ کو آرمینیا سے کوریا تک اورتبت سے دریائے نیل تک کے علاقے کا مالک بنا لیا تھا کہ بلا کسی ردوکد کے اس کے بیٹے کو اس کی جانشینی نصیب ہوئی اور اس کا پوتا قبلائی خان بھی نصف دنیا پر حکمران تھا۔

ہیرالڈ لیم



 

Post a Comment

0 Comments