Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بحریہ ٹاؤن حادثہ : 'زندگی ہمیشہ کیلیے بدل گئی، کہتے ہیں معاوضہ لے لیں'


سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بحریہ انکلیو میں نجی ٹی وی چینل
اے آر وائی کے عید شو کے دوران سٹیج گرنے کے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
اس معاملے پر چیف جسٹس نے چیف کمشنر اور آئی جی پولیس سے 48 گھنٹے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ دوسری جانب سات متاثرین خاندانوں نے ایک پریس کانفرنس میں اے آر وائی کے سلمان اقبال اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خلاف دیوانی اور فوجداری مقدمات چلانے کا اعلان کیا ہے۔ آج تھانہ نیلور میں ایف آئی آر بھی درج کرائی جا رہی ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران سماجی کارکن جبران ناصر نے متاثرہ خاندان کی طرف سے اس معاملے پر اے آر وائی کی بدانتظامی اور سوشل میڈیا پر بدنامی کے بعد متاثرین کو معاوضہ دینے کی پیشکش اور پولیس، بحریہ ٹاون اور میڈیا کی خاموشی پر 13 سوالات اٹھائے۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر سرگرم کارکن احتشام منظور نے بتایا: 'میں نے اس واقعے سے متعلق وزیر اعظم ہاؤس کو بھی آٹھ مئی کو ای میل کے ذریعے مطلع کیا۔ متاثرین کا ڈیٹا بھی بھیجا۔ جوابی ای میل میں یقین دلایا گیا کہ چھان بین ہو گی مگر ایسا نہیں ہوا۔' 28 اپریل کو بحریہ انکلیو میں اے آر وائی عید کے لیے ایک شو ریکارڈ کر رہا تھا جب ریکارڈنگ کے دوران تقریباً 20 فٹ اونچا سٹیج گر گیا۔ اس تقریب کے لیے تین سے چار ہزار کے قریب لوگ موجود تھے۔ اس واقعے میں ایک خاتون ہلاک ہو گئیں جبکہ سو کے قریب افراد زخمی ہیں۔ جن میں بیشتر شدید زخمی ہیں۔ کسی کی کمر کی ہڈی ٹوٹی ہے تو کسی کا بازو زخمی ہے۔

ٹی وی شو کی ریکارڈنگ میں شرکت کرنے والے ذوالقرنین حمید اپنی بیوی کے ہمراہ شو کے لیے بحریہ گئے تھے۔ حادثہ میں ان کی بیوی کی ریڑھ کی ہڈی اتنی زخمی ہو گئی ہے کہ اب ان کا پیشاب پر کنٹرول نہیں۔ واقعہ کے تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا: 'آپ ان کا ظلم دیکھیے کہ حادثے کے بعد اے آر وائی کے منتظمین نے لائٹ بند کر دی۔ جب ہم سٹیج سے گرے تو میں اپنی بیوی کی مدد نہیں کر سکا کیونکہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ چار ہزار لوگوں کو جمع کیا ہوا تھا اور ایمبولینس صرف ایک۔ اگر لائٹ نہ بند ہوتی تو کتنے لوگوں کی ٹانگیں یا بازو بچ سکتے تھے؟'

لیکن ان کی پریشانی یہاں ختم نہیں ہوئی ۔ انھوں نے بتایا: 'پمز نے تمام ایکسرے کرنے کے بعد کہا معمولی چوٹیں ہیں بیوی کو گھر لے جاؤ مگر گھر آنے کے بعد بھی تکلیف ختم نہیں ہوئی۔ ایک ہفتے بعد جب دوبارہ دوسرے ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے بتایا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اتنا اثررسوخ کہ پمز نے داخل نہیں کیا۔ اب کہتے ہیں کہ معاوضہ لے لیں۔ میری بیوی اپنے بچوں کو اب گود نہیں لے سکے گی، وہ حکومتی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ان کی زندگی تو ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے اب کہتے ہیں معاوضہ لے لیں؟'

احتشام منظور کی جانب سے انٹرنیٹ پر ڈالی جانے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لائٹ بند ہونے کے بعد اندھیرے میں متاثرین چلا رہے ہیں کہ لائٹ کھولو۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے تقریباً دو ہفتے تک اے آر وائی اور بحریہ ٹاؤن نے معاملات دبانے کی کوشش کی۔ مقامی ٹی وی چینلوں نے خبر کو تب تک جگہ نہیں دی جب تک انٹرنیٹ پر سماجی کارکنان نے اس زیادتی کی طرف عوام کی توجہ نہیں دلائی اور میڈیا پر الزام نہیں لگایا کہ وہ بحریہ ٹاؤن اور اے آر وائی کے دباؤ کی وجہ سے ان بڑے مالکان کے خلاف خبر نہیں دے رہا۔

کانفرنس کے دوران جبران ناصر نے کہا: 'ہم الزام نہیں لگا سکتے، اس لیے پاکستانی شہری ہونے کے ناطے سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان شہریوں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں؟' انھوں نے بتایا: 'آدھے لوگ ڈھائی ہزار کا ٹکٹ لے کر شو میں گئے تھے تو آدھے اے آر وائی کے سہولت کارڈ کی وجہ سے مدعو کیے گئے تھے۔ ساتھ میں شرکا کو رجسٹر کرنے کو بھی کیا گیا۔' انھوں نے سوال اٹھائے کہ 'کیا یہ خاندان جائز پاس پر نہیں گئے تھے ؟ کیا ٹی وی چینل کے ساتھ پہلے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا جو اس حادثے کے بعد متاثرین سے رابطہ نہ ہو سکا؟'

انھوں نے مزید کہا: 'جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہے یا جو اب کبھی نہیں چل پائیں گے ان کی ذمہ داری کون لے گا؟ بحریہ اور اے آر وائی نے سوشل میڈیا پر شور مچنے سے پہلے متاثرین سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ کیا لوگوں کو شو پیس کے طور پر بلایا گیا؟ کیا شہری انتظامیہ کے پاس کوئی پالیسی ہے جب اتنے لوگوں کو جمع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے؟ ایمرجنسی پلان کیا تھا ڈاکٹرز ، ایمبولینس کتنی تھیں؟ لائٹ کیوں بند کی گئی؟ انھی میڈیا رپورٹوں کے ردِعمل میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کی ہے۔

ارم عباسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments