Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمان زیر ِ عتاب

ہندوستان میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ظہور ہوا ہے، اقلیتوں کے مسائل میں
اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ ہندو جنونیوں نے ’’ہندو اقتدار‘‘ کے نعرے کو اپناتے ہوئے ہندوستان کی تمام اقلیتوں کا جینا عذاب بنا دیا ہے۔ ہندو قوم پرستوں نے اعتدال پسندی کو دفن کر دیا ہے اوران کا مقصد اب صرف ہندو انتہا پرستی کو فروغ دینا اوراقلیتوں، خاص طورپرمسلمانوں ،کو اپنے عتاب کا نشانہ بنانا ہے۔ وہ بھارتی آئین کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور فرقہ وارانہ تشدد کو بھی ہوا دے رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہندو انتہا پسند گائے کے تحفظ کے لیے بہت شورمچا رہے ہیں بلکہ ان کی بے حسی کی انتہا ہے کہ وہ یہ بارآور کرا رہے ہیں کہ گائے کا تحفظ اقلیتوں کے تحفظ سے زیادہ ضروری ہے۔

ان کی وجہ سے تشدد کے کئی واقعات نے جنم لیا ہے اورایسے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہندو اقدار کے تحفظ کے نام پر ہندوئوں کے پرتشدد گروہ ان لوگوں کوقتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جن پر انہیں شک ہوتا ہے کہ وہ گائے کی تجارت کرتے ہیں یا گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ یہ شرمناک بات ہے کہ ہندوستان کی حکومت اس معاملے میں یا تو کچھ نہیں کر رہی یا پھرایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات اتنے ناکافی ہیں جن کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق بی جے پی کی حکومت کے اقدامات اشک شوئی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا۔ یہ انتہا پسندی آخری ہندوستان کو کہاں لے جائے گی۔ یہ کہنا محض خوش فہمی ہے کہ بہت جلد یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

کچھ سیاسی پنڈت یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں بی جے پی کے اقدامات کو پذیرائی نہیں مل رہی اور آئندہ کانگریس برسراقتدار آ جائے گی اور اگر کانگرس برسر اقتدار آ گئی تو یہ انتہا پسندی بھی دم توڑ جائے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ کانگرس بظاہر سیکولرزم کی علمبردار ہے لیکن اس کے دورمیں بابری مسجد کو شہید کیا گیا۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔ کانگرس برسراقتدار ہونے کے باوجود ہندو انتہا پسندوں کو یہ مذموم حرکت کرنے سے روکنے میں ناکام رہی۔ موجودہ بی جے پی کی حکومت کا نعرہ ’’ہندو پہلے‘‘ ہے۔ اب اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہندو پہلے‘‘ کا نعرہ لگانے والی اس جماعت کے آئندہ کیا عزائم ہیں اور اقلیتیں اس حکومت سے کیا توقعات لگا سکتی ہیں۔

فی الحقیقت 25 اپریل کو بی جے پی نے یہ تجویز کیا کہ الیکٹرانک آئی ڈی سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے تمام گائیں شناخت کر لی جائیں۔ یہ وہی نظام ہے جس کے تحت 2012ء میں تمام بھارتی شہریوں کی شناخت کی گئی تھی۔ ہندو فلسفے کی مختلف تشریحات کے مطابق گائے کو مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن کچھ تاریخ دانوں نے اس تصور کو غلط قرار دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے تاریخ دان دیوی جندرا نارائن جاہ نے اس سلسلے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن ایسی معقول باتوں کی طرف دھیان دینے کیلئے ہندو جنونیوں کیلئے وقت نہیں۔

راجستھان کے 55 سالہ پہلو خان کو اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ گائے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا رہا تھا۔ انتہا پسندوں نے اسے اور دوسرے مسلمان تاجروں کوبے رحمی سے مارا پیٹا۔ یہ واقعہ 6 اپریل کو پیش آیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ راجستھان کے وزیرداخلہ گلاب چند کٹاریہ نے اس اقدام کا دفاع کیا اور ببانگ دہل کہا کہ ’’گائو ماتا‘‘ کے محافظوں نے ان کی سمگلنگ نہیں ہونے دی اور یہ قابل تحسین کام ہے۔ انہوں نے پہلو خان کی موت کو قتل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوردونوں پارٹیوں کو تشدد کا ذمہ دار قرار دیا۔ اقلیتوں پر ایسے حملوں میں اس وقت سے اضافہ ہوا ہے جب 2014ء میں نریندر مودی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔ حالانکہ برسراقتدار ہونے کے فوراً بعد نریندر مودی نے اقلیتوں کو یقین دلایا تھا کہ ان کا ہرحال میں تحفظ کیا جائے گا اور جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے تھے انہوں نے ان پر یقین کرلیا تھا۔

آج حالت یہ ہے کہ ہندوستان کی مسلم آبادی بے چین ہے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔2001ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہو چکی ہے۔ جبکہ ہندوئوں کی آبادی 80 فیصد ہے۔ باقی چھ فیصد لوگ مسیحی، سکھ، بدھ اورجین مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ مارچ میں حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادی پاناتھ کی فتح نے بھارتی اقلیتوں کو ایک سخت پیغام بھیجا۔ دوسری ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بھی اترپردیش جیسے واقعات دہرائے گئے۔ مارچ میں گجرات حکومت نے ایک قانون پاس کیا جس کی روسے گائے ذبح کرنے والے کی سزا سات سال سے عمر قید کر دی گئی۔ نریندر مودی کا نعرہ’’ترقی تمام کیلئے‘‘ مکمل طور پر جھوٹا نعرہ بن چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ سیکولر قوتیں خود ناکام ہو چکی ہیں۔ لبرل دانشور بھی اب اپنی صدا بلند کرتے ہوئے خوف کھاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اب خوف اور دہشت کے پنجرے میں بند ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں بھارت میں نام نہاد سیکولر کا کیا مستقبل ہے یہ واقعی سوچنے کی بات ہے۔

ع۔ ح۔ ظفر

Post a Comment

0 Comments